شازیہ اور تنزیلہ – از عمار کاظمی
posted by Shahram Ali | October 26, 2014 | In Original Articles, Urdu Articlesمجھے طاہرالقادری اور ان کی مذہبی سیاسی تحریک سے کبھی کچھ غرض نہیں رہی۔ اور نہ ہی میں ماڈل ٹاون میں شہید ہونے والی تنزیلہ، شازیہ یا دیگر تیرہ شہدا سے واقف ہوں۔ مگر ان کے چہروں کی معصومیت دیکھ کر اپنے تجربے کی بنیاد پر بہ آسانی سمجھ سکتا ہوں کہ یہ دو خواتین شہدا ایک اوسط درجہ کے متوسط گھرانے کی بیٹیاں، مایں اور بہنیں تھیں۔ میں کیا کوئی بھی غیر جانبدار شخص جو پنجاب کے متوسط طبقہ کی خواتین سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا ہے وہ بہ آسانی ان کے حلیہ اور بے جان چہروں والی تصویروں کو دیکھ کر شاید یہی اندازہ قائم کرے گا۔ مگر افسوس قوم کی اکثریت نے ان پر کوءی توجہ نہ دی۔ سطحی سوچ کی حامل گھٹیا ذہنیت کو ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت میڈیا کے ذریعے گُلو بٹ کے پیچھے لگا دیا گیا کہ جیسے سب سے بڑا جرم اسی نے کیا تھا۔ عوامی تحریک کے دھرنے کی ابتدا سے اس کے اختتام تک ساری توجہ کا محور گُلو بٹ ہی رہا۔
اگر میڈیا گُلو بٹ سے آدھی توجہ اور کوریج بھی تنزیلہ اور شازیہ کے بحیمانہ قتل پر دیتا تو شاید آج لوگوں کی موجودہ حکومت کے بارے میں راے بہت مختلف ہوتی۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ طاہرالقادری کی تمام تر توجہ کا مرکز وزیر اعلی کی بجاءے وزیراعظم کاستعفی رہا۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ رویہ کم از کم میری فہم سے باہر تھا۔ یہ عام فہم سی حقیقت ہے کہ نواز لیگ پنجاب سے ہی اکثریت حاصل کر مرکز میں بیٹھی تھی۔ اگر وزیراعلی پنجاب کے استعفی پر زور دیا جاتا تو شاید مرکز میں موجود پارلیمانی جماعتیں بھی حکومت کی کھل کر حمایت نہ کر پاتیں۔ ڈاکٹر قادری کے انقلاب اور اصلاحات کے حوالے سے مطالبے درست تھے مگر سانحہ ماڈل ٹاون پر اس انقلابی ایجنڈے کو ترجیح دینا یا عمران خان کے پیچھے لگ کر وزیر اعظم کے استعفی کا مطالبہ اپنی ترجیحات میں پہلے رکھنا بہت غیر فطری تھا۔ انھوں نے لانگ مارچ مادل ٹاون کے شہداء کے نام پر کیا، ایک طویل دھرنا دیا اور پھر بغیر کسی کامیابی کے دھرنا ختم کر دیا۔
اب تو شاید انھوں نے الیکشن میں حصہ لینے اور بیرون ملک روانگی کا منصوبہ بھی بنا لیا ہے۔ اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو اتنے بڑے اور بے مقصد دھرنے کا ڈرامہ رچانے کا کیا مقصد تھا؟ بہر حال طاہر القادری نے درست سیاسی فیصلے کیے یا غلط یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن شازیہ اور تنزیلہ کی جواں سال شہادتوں کا صدمہ میرے لیے محترمہ کی شہادت سے کم نہ تھا۔ میڈیا نے اس سانحہ کو درست انداز میں پیش کرنے کی بجاے گُلو بٹ کو تماشبین قوم کے سامنے تفریح کے طور پر پیش کر دیا۔ میڈیا کی اس بے وجہ تشہیر کی وجہ سے سکول کے بچوں سے لے کر بڑوں تک سب کے منہ پر گُلو بٹ ہی رہا۔ بلا شبہ یہ پاکستانی کمرشل صحافت کی تاریخ کا سیاہ ترین باب تھا۔
میڈیا کے علاوہ اس دوران اس سارے سانحہ کی بابت پاکستانی سول سوساءیٹی اور پیپلز پارٹی کی قیادت کا رویہ بھی انتہاءی باعث شرم رہا۔ عاصمہ جہانگیر اور طاہرہ عبداللہ جیسی حقوق نسوان کی دبنگ علمبردار خواتین شازیہ اور تنزیلہ کے قتل کے خلاف دو جملے بھی نہ کہہ سکیں۔ اور نہ ہی کسی عورت فاونڈیشن نے ان کے لیے کوی سیمینار منعقد کرواے۔ کسی براے نام روشن خیال نے مال روڈ پر پلے کارڈ اٹھاے نہ ان کے حق میں آواز بلند کی۔ عاصمہ جہانگیر جمہوریت کے حق میں تواتر کے ساتھ بولیں مگر پنجاب کی جمہوری حکومت کے ہاتھوں شہید ہونے والی خواتین کے لیے ان کے منہ سے کچھ نہ نکلا۔ یہی حال پیپلز پارٹی اور جانب آصف زرداری کا رہا۔ وہ جاتی عمرہ تو چلے گیے مگر وہ شازیہ اور تنزیلہ کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ مطابلہ تک نہ کر سکے۔
اور تحقیقات کا مطالبہ تو درکنار انھوں نے تو ان دو خواتین کا نام تک بھی اپنی زبان پر لانا پسند نہیں کیا۔ یہ جانتے ہوءے بھی کہ شہید محترمہ بھی خاتون تھیں ان کی خاموشی بھی باعث شرم تھی۔ کسی دوست نے کہا کہ اگر آصف زرداری مقتولین کے گھروں میں افسوس کرنے نہیں گیے تو کیا ہوا طاہرالقادری کونسا محترمہ کی شہادت کا افسوس کرنے ان کے پاس آے تھے۔ اول تو ان دو باتوں کا آپس میں موازنہ کرنا بھی ایک چھوٹی بات ہوگی تاہم ان سے گزارش ہے کہ اگر ڈاکٹر قادری محترمہ کا افسوس کرنے نہیں آے تھے تو وہ طالبان کے پاس بھی نہیں گیے تھے۔ ان کی قاتل نواز لیگ کی پنجاب حکومت ہو نہ ہو مگر اس کی نااہلی تو ہر دو صورت میں ثابت تھی۔ پھر ایسی صورت میں زرداری صاحب کا جمہوریت بچانے کے لیے جاتی عمرہ جانا اور مظلومین کے لیے خاموشی اختیار کرنا منافقت کی اعلی ترین مثال تھی۔
اور یہ سلسلہ محض آصف زرداری پر ہی ختم نہ ہوا کہ بلاول بھٹو جو اپنی ماں کی یاد مین آبدیدہ ہو جاتے ہیں انھیں بھی یہ خیال نہ آیا کہ مرنے والیوں کی بھی کوی اولاد ہو سکتی ہے۔ اپنی کسی تقریر یا کسی ٹوٹر میسیج میں بھی انھوں نے ان دو خواتین کا تزکرہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ یہ خواتین نہ بین الاقوامی دہشت گردوں کی لسٹ میں اشتہاری تھیں نہ ڈنڈا بردار اور نا ہی خود کُش بمبار۔ ان کی موت کو ہم ایک شہری کے ناطے محترمہ کی شہادت سے کم کیسے جان سکتے ہیں؟ کیا ہم انھیں اس لیے غیر اہم سمجھ لیں کہ ان کا سیاسی قد کاٹھ اور معاشی و سماجی حیثیت محترمہ کے برابر نہ تھی؟ کیا ہم اس لیے انھیں غیر ضروری جانتے ہیں کہ یہ ملالہ کی طرح عالمی شہرت یافتہ نہ تھیں؟ یا پھر یہ کسی چھوٹے خدا کی مخلوق تھیں؟ آج دھرنا مخالف حکومت کے حامی طاہر القادری کے بار بار موقف تبدیل کرنے اور ان کے دھرنے کے ناکامیاب اختتام پر خوش ہیں۔ یہ لوگ اسے جمہوریت کی فتح بتا رہے ہیں۔ مگر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا یہ جمہوریت پسند شازیہ اور تنزیلہ کی اموات پر کبھی افسردہ بھی تھے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ یہ پتھر دل جانور صفت ذہن اس سانحہ پر ایک دن بھی غمزدہ نہ ہوے۔ ان میں سے کبھی کسی نے شہباز شریف کے استعفی کا مطالبہ نہ کیا۔ کبھی کسی حقوق نسواں کا دن منانے والے نے ان دو خواتین کے قتل پر آواز بلند کرنا اپنی ترجیحات میں شامل نہ کیا۔
اس بے حس معاشرے کی اعلی عدلیہ کی ترجیحات آج بھی ثانوی ہیں۔ سپریم کورٹ وزیراعظم کے صادق اور امین ہونے نہ ہونے کا مقدمہ سننے کی عجلت میں تو ہے مگر ان دو شہیدوں کے خون ناحق پر سو مٹو نوٹس لے کر ان کے لواحقین کو جلد انصاف دلانا اس کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ ان تمام خباثتوں کے باوجود لوگوں سے یہ غیر فطری اُمید کی جاتی ہے کہ وہ جمہوریت، دستور اور اعلی عدلیہ کا احترام کریں