برکھا رت اور شمشان گھاٹ – عامر حسینی
برکها رت اداسی لیکر آتی ہے ، باہر جل تهل تو اندر بهی جل تهل اور ساته ہی موسم کی بے اعتباری کے اندر سے جهانکتے انسانی کرداروں کا بهی بے اعتبار پن ، یعنی ایک موسم کتنے سارے منظر ساته ساته مصور کرتا چلا جاتا ہے اور ساته ہی ہلکی ہلکی خنک فضا من کے اندر بهی ایک عجب سی هیلنک فلسفیانہ اداسی لیکر آتی ہے
مجهے وہ شام یاد آرہی ہے جب ایک کیفے میں چائے کی پیالی کب کی میرے سامنے پڑی تهی اور میں اس کیفے میں ایک الگ تهلگ سے کونے میں تنہا بیٹها اسے یاد کرتا تها ،جس کے مرنے کی خبر مجهے ڈاکیے کی طرف سے ملنے والے ایک پارسل سے نکلنے والے ایک خط سے ملی اور پارسل میں مرنے والی شخصیت کی هاته سے لکهی ڈائریاں تهیں اور میں نے ایک نشست میں ہی دونوں ڈائریوں کے سارے ہی پنے پڑه ڈالے تهے ، الفاظ ، جملے سبهی ہی تصویریں بنکر میرے ساته چل رہے تهے اور اس دن بهی خوب بارش ہوئی تهی ، برکها تهی کہ تهمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تهی اور جب میں نے اس کے لکهے پنے پڑه ڈالے تو میں ایک سیلانی سی کیفیت میں گهر سے باہر نکل گیا اور سیدهی لمبی سڑک کراس کرتا ہوا نہ جانے کیوں میں اس ویرانے میں آگیا تها جہاں کبهی تقسیم سے پہلے شمشان گهاٹ ہوا کرتا تها اور شاید اس کا سبب یہ تها کہ مجهے جس کرب اوردرد کا سامنا تها اس پر کسی زندہ لاش سے بات کرنا مجهے عبث لگا تها اور یہ وہ دن تهے جب ابهی میں ہما علی کی رفاقت سے محروم ہونے کے صدمے سے نہیں سنبهلا تها اور مجهے وہ سارے لمحات آسیب بنکر اپنے ساته چلتے محسوس ہوتے تهے جو ہم نے اکٹهے گزارے تهے اور اب اس کے مرنے کی خبر ہی نہیں آئی تهی بلکہ اس نے اپنے سارے کرب ، دکه ، ملال اور مصیبت کو لفظوں میں سموکر مجهے روانہ کردیا تها
میں شمشان گهاٹ میں پهرتی کسی بے قرار آتما کو اپنی کتها سنانا چاہتا تها اور دن جب میں شمشان گهاٹ پہنچا تو بارش مزید تیز ہوگئی تهی ، میں نے چهاتہ بند کیا اور ٹین کے بنے شیڈ کے نیچے جاکهڑا ہوا ، شمشان گهاٹ ایک کهنڈر میں بدل چکا تها اور جهاڑ جهنکاڑ چاروں اور اگا ہوا تها اور اس وقت شام کےسائے گہرے ہورہے تهے اور یہاں تو دن کے اجالے میں گزرتے ہوئے لوگ گهبراتے تهے ، کیونکہ ہمیں وہموں اور اندیشوں سے جتنا خوف آتا ہے اتنا جیتے جاگتے انسانوں کی حیوانیت سے خوف نہیں آتا
اس شام شمشان گهاٹ میں اس ٹین کے شیڈ پر بارش کی چهن چهن ہورہی تهی اور یہ چهن چهن مجهے اس صبح کی یاد بهی آئی تهی جب میں کراچی میں برنس روڈ پر ایسے ہی سخت بارش میں اس کا انتظار کررہا تها کہ ملکر گولے کباب کهانے کا پروگرام تها ، ویسے اس روز اس کی آمد کافی دیر سے ہوئی تهی اور دیری کا سبب یہ تها کہ وہ گولے کباب پر مشتاق یوسفی کی تحریر سے اس دعوت کی محفل کو کشت زعفران بنانے کا منصوبہ رکهتی تهی اور واقعی ایسا ہوا بهی تها
مجهے وہ صبح بهی یاد ہے جب ایسے ہی بارش برس رہی تهی اور میں نے ایک نظم اسی مناسبت سے منظوم کی تهی اور جو اس نظم کو منظوم کرنے کا سبب بنا تها اس کو بهیج دی تهی
شمشان گهاٹ سے واپسی رات گئے ہوئے تهی اور اگلے چند سال تو بہت ہی کرب کی کیفیت میں گزرے تهے اور یادوں کی مالائیں گلے میں پڑی تهیں اور ان مالاوں کے دانے بار بار چهنچهناتے تهے اور میں حال سے گرفتار ماضی ہوجاتا تها اور ایسی ہی کیفیت اس رات ، اس کیفے میں دور خاموش سے گوشے میں ایک میز کے سامنے بیٹهے مجه پر طاری ہوگئی تهی ،جیسے آج اس برکها رت میں رات کے اس پہر طاری ہوگئی ہے اور کتنی عجیب بات ہے کہ وہی کیفے ، وہی میز ہے اور باہر اسی طرح سے بارش ہورہی ہے اور ایک بارش من کے اندر بهی شروع ہوچکی ہے ، ویسے اس وقت میں اور آج کے وقت میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت میں کوئی حسن کوزہ گر اور کوئی شہرزاد میری شناسا نہ تهی ،آج حسن کوزہ گر کو میں مشہود پاتا ہوں اور شہرزاد کو بهی اور بغداد کی گلیاں لگتا ہے ہجرت کرکے میرے تخیل کے جہان میں پیوست ہوگئی ہیں اور بغداد کی راتیں بهی کیونکہ اصل بغداد میں تو اب باردود کی بو رچی بسی ہے ، انسانی جسموں کے لوتهڑے ہر سمت بکهرے پڑے ہیں اور دیواروں پر لہو کے چهینٹے پڑے ہیں اور مجهے هلاکو خان کی روح بهی اس بربریت اور خون آشامی پر شرمندہ ، شرمندہ لگتی ہے
ابهی مجهے یوں لگتا ہے کہ بوڑهی عرب عورت عرفہ کی روح ان گلیوں کے ساته چلی آئی ہےاور مجهے وہ قصہ سناتی ہے جسے میں مسلمانوں کے اس شہر میں بیان کرنے سے قاصر ہوں اور کسی اخوان الصفاء کی طرز کے پوشیدہ لکهاری کی تلاش میں ہوں جو دو اونٹوں کے ساته بانده کر چیر دی گئی اس بوڑهی عورت کی المیہ پر مبنی کہانی بیان کرسکے اور اس کی نوجوان بیٹی کا المیہ رقم کرسکے ویسے ہی جیسے داعش نے دو کاروں سے بانده کرایک عورت کو چیر دیا ہے جس کا المیہ ہر کوئی بیان کرتا ہے اور میں تاریخ کے اس دوہرائے جانے اور تاریخ میں ایک ہزار سال سے زیادہ اس بوڑهی عورت کی آتما ہمارا پیچها کرتی ہوئی یہاں تک آن پہنچی ہے
Comments
Tags: Aamir Hussaini, Literature