مہاجر کیمپ تک آنے والی جنگ اور جنگ کے بادلوں کی اوٹ سے ابھرتی شامی موسیقی -عامر حسینی
وسام الجزائری شامی مصور کی تخلیق
میں نے جب اپنا کالم ” خوف میں جینا سیکھ لو ” لکھا تھا تو مجھے ہرگز نہیں معلوم تھا کہ اس کرہ ارض پر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو خوف کے ساتھ پورے تخلیقی وفور کے ساتھ جیتے ہیں اور اپنے خوف ، اندیشوں ، مصائب کو ایسی موسیقی میں بدلتے ہیں کہ وہ سب کے سب ایک نئے انداز سے سامنے آتے ہیں اور ایسی موسیقی پھٹتے بموں ، برستی گولیوں ، جلے ہوئے مکانوں اور خیموں کی راکھ سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کی آسمان پر بنتی سیاہ لیکروں اور دیواروں پر پڑے خون کے چھینٹوں سے ملکر تشکیل پارہی ہوگی
نوے کی دھائی میں ایڈورڈ سعید نے فلسطینی اور اسرائیلی نوجوانوں پر مشتمل ایک آرکسٹرا تشکیل دیا تھا جس نے جنگ اور خون کے درمیان کی امن کی آشا کو بڑھایا اور ناممکن کو ممکن کردکھایا تھا
میں نے تو ابھی سماجی رابطے کے نیٹ ورکس پر کھدرے ، سپاٹ ، اور انتہائی فرسٹریشن میں لکھے گئے تبصرے اور زیادہ سے زیادہ جذباتی لکیروں کا ایک جال ہی دیکھا تھا ، اسے تخلیق میں ڈھلتا نہیں دیکھا تھا
مڈل ایسٹ ، شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیا میں سامراج ، آمر و ملوک حکومتوں ، گماشتہ جمہوریتوں اور ان کی کھوکھ سے جنم لینے والی تکفیریت اور مذھبی فاشزم کے تفاعل سے پیدا ہونے والی تباہی ، گھٹن ، حبس پر میں غیر جمالیاتی ، بھدے جملوں اور عبارتوں سے اوب جاتا تو بے اختیار کبھی محمود درویش کو تو کبھی نزار قبانی ، کبھی ناظم حکمت کو تو کبھی فیض احمد فیض اور جالب کو یاد کرنے لگتا اور بیروت کے مائیکل خلائف کی کی موسیقی سننے لگتا تھا
اور پھر کل رات ایسا ہوا کہ ریڈیو ٹیون کرتے ہوئے ایک بیروت کا ریڈیو اسٹیشن لگ گیا اور وہاں سے ایک پروگرام شامی ریپ میوزک کے بارے میں نشر ہورہا تھا اور پروگرام پیش کرنے والے نے ایسے شامی ریپرز کا احوال سنایا اور ان کی موسیقی سنوائی کہ میرے دل کی دنیا ہی بدل گئی اور میں اب تک اس سحر سے نہیں نکل سکا
Your face is sweeter without the shelling
The shelling that’s become a living thing
Taking to human flesh a liking
And like you, water is missing
My throat is dry, so I’m wishing
Water would come, even if it’s dripping
Six months of starvation, the truce comes for the dying
While the graveyard is growing, and growing
یہ گل گامش کی “نظم 15” کے مصرعے ہیں کہ
چھے ماہ کی بھوک ہے ، اور شب حون موت آوری کے ساتھ آتا ہے اور قبرستان ہے کہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے
پاپ میوزک شام میں 1990ء سے شامی نوجوانوں میں مقبول ہونا شروع ہوا اور تب سے شامی نوجوانوں نے اس میوزک کے زریعے سے اپنی پریشانیوں اور اپنی دلچسپی کے مرکز موضوعات کا اظہار جاری رکھا ہوا ہے – لیکن 2011ء میں اس دلچسپی میں ایک ریڈیکل تبدیلی اس وقت واقع ہوئی جب شامی نوجوانوں نے خود کو انقلاب ، جنگ ، فرقہ واریت ، اسد کی اپوزیشن اور اسد کی حمائت جیسے ایشوز میں گھرا ہوا پایا اور اس میں جلاوطنی اور بے دخلی دونوں بھی ساتھ ساتھ سامنے آگئیں تھیں جس نے نوجوانوں کو ایک نئی زندگي سے آشنا کیا جو ایک مقام سے دوسرے مقام پر بالکل پہلے سے یکسر مختلف تھی – ان حالات کے درمیان میں پاپ میوزک ان چیلنجز سے نبٹنے میں بہترین آؤٹ لیٹ ثابت ہوا
I thought the siege between us a barrier
Distance is tough, but waiting is grittier
Living in a horror film, in an abattoir
You say I’m nasty except corpses are nastier
loose translation of an excerpt from Poem 15 – the besieged Yarmouk camp
شامی نوجوان کے پاس سوائے اس کی آواز کے کچھ نہیں بچا تھا – نہ خوراک ، نہ پانی ، نہ سونا ، نہ بجلی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں تھا اس کے پاس – اس کے پاس بس اپنی آواز ہی تھی جسے وہ اپنے دکھ اور تکلیف کے اظہار کے لیے موسیقی میں بدل سکتا تھا ، اور یہ وہ سب کچھ تھا جو اس جیسے کسی نوجوان کو یرموک کے محاصرے میں گھر جانے کے دنوں کے دوران سہنا پڑا تھا اور اس نے اس سب کو اپنے گیتوں میں ڈھال دیا تھا
ان تمام چیزوں کو کھونے سے پہلے ریڈ گوہنیم یا گل گامش جس نام سے وہ اب جانا جاتا ہے کو میمزک سے پیار تھا جوکہ عربی ریپ میوزک کے ساتھ 2008ء میں شروع ہوا تھا – اور پھر یہ اس کا ساری عمر کا شوق بنکر رہ گیا
وہ کہتا ہے کہ میں اپنے میوزک کو فلسطینی مہاجروں اور کیمپوں میں رہنے والے نوجوانوں کی مشکلات کی عکاسی کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا – میری کوشش بہت سادہ اور معمولی تھیں – پھر جنگ ان کیمپوں کو آئی اور موت ہمارے ہاں معمول ہوگئی – گل گامش نے سوائے اپنے موسیقی سے عشق کے سب کچھ کھودیا