غدیر خم میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطبہ

غدیر مکہ اورمدینہ کے درمیان مکہ شہر سے تقریبا دوسو کلومیٹر کے فاصلے پر جحفہ کے پاس واقع جگہ کا نام ہے جو ایک چوراہا ہے۔ قدیم زمانہ میں۔ مختلف سرزمینوں سے تعلق رکھنے والے حجاج کرام حج سے واپس آتے وقت، یہاں پہونچ کرایک دوسرے سے جدا ہو جاتے تھے۔ شمالی سمت کا راستہ مدینہ کی طرف جاتا ہے ۔ جنبوبی سمت کا راستہ یمن کی طرف جاتا ہے ۔ مشرقی سمت کا راستہ عراق کی طرف جاتا ہے ۔ اور مغربی سمت کا راستہ مصر کی طرف جاتا ہے ۔ Embedded image permalink

آج کل یہ سرزمین بھلے ہی متروک ہو چکی ہو ،مگر ایک دن یہی خطہ ّ تاریخ اسلام کے ایک عظیم واقعہ کا گواہ تھا۔یہ واقعہ اٹھارہ ذی الحجہ سن 10 ہجری کاہے، جس دن حضرت علی علیہ السلام، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین کے منصب پر فائز ہوئے ۔
حدیث غدیر : حدیث غدیر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل ولایت و خلافت کے لئے ایک روشن دلیل ہے .
غدیر خم کا منظر :
10 ہجری کے آخری ماہ (ذی الحجہ) میں حجة الوداع کے مراسم تمام ہوئے اور مسلمانوں نے رسول اکرم سے حج کے اعمال سیکھے۔ حج کے بعد رسول اکرم نے مدینہ جانے کی غرض سے مکہ کوچھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے ،قافلہ کوکوچ کا حکم دیا ۔جب یہ قافلہ جحفہ سے تین میل کے فاصلے پر رابغ نامی سرزمین پر پہونچا تو غدیر خم کے نقطہ پر جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آیت کے ذریعہ خطاب کیا
اے رسول! اس پیغام کو پہونچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا توگویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا؛
آیت کے اندازسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے کوئ ایسا عظیم کام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سپرد کیا ہے ،جو پوری رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے اور دشمنوں کی مایوسی کا سبب بھی ہے ۔اس سے بڑھ کر عظیم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و وصیات و جانشینی کے منصب پر معین کریں؟
لہٰذا قافلہ کو رکنے کا حکم دیا گیا ،جولوگ آگے نکل گئے تھے وہ پیچھے کی طرف پلٹے اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ آکر قافلہ سے مل گئے ۔ ظہر کا وقت تھا اورگرمی اپنے شباب پرتھی؛ حالت یہ تھی کہ کچھ لوگ اپنی عبا کا ایک حصہ سر پر اور دوسرا حصہ پیروں کے نیچے دبائے ہوئے تھے۔ پیغمبر کے لئے ایک درخت پر چادر ڈال کر سائبان تیار کیا گیا اور آپ (ع) نے اونٹوں کے کجاوں سے بنے ہوئے منبر کی بلندی پر کھڑے ہو کر، بلند و رسا آواز میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے۔
غدیر خم میں پیغمبر کا خطبہ :
حمد وثناء اللہ کی ذات سے مخصوص ہے ۔ہم اسی پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ہم برائی اور برے کاموں سے بچنے کے لئے اس ا للہ کی پناہ چاہتے ہیں ، جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و راہنما نہیں ہے۔ اور جس نے بھی گمراہی کی طرف راہنمائ کی وہ اس کے لئے نہیں تھی ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ،اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔ ہاں اے لوگو!وہ وقت قریب ہے، جب میں دعوت حق پر لبیک کہتا ہوا تمھارے درمیان سے چلا جاؤں گا !تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں ۔ اس کے بعد آپنے فرمایا کہ میرے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟کیا میں نے تمھارے بارے میں اپنی ذمہ داری کو پوراکردیا ہے ؟یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت زحمتیں اٹھائیں اوراپنی ذمہ داریوں کو پوراکیا ؛اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر دے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کامعبود ایک ہے اور محمد اس کا بند اور رسول ہے؟اور جنت و جہنم وآخرت کی جاویدانی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے؟ سب نے کہا کہ صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں ۔ اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” اے لوگو!میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں ،میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد، میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو؟ اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے اور دوسرے میری عترت اور اہلبیت ہیں،اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے جدا نہ ہوں گے ۔ ہاں اے لوگوں! قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا اور ان دونوں کے حکم کی تعمیل میں بھی کوتاہی ناکرنا ،ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔ اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوںکی بغلوں کی سفیدی، سب کو نظر آنے لگی پھر علی (ع) سے سب لوگوں سے متعرف کرایا ۔ اس کے بعد فرمایا: ” کون ہے جومومنین پر ان کے نفوس سے زیادہ حق تصرف ر کھتا ہے ؟ “ سب نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں۔ “ ہاں
اے لوگو!” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ،وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ وخذل من خذلہ وادر ا لحق معہ حیث دار “ جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ”
اے اللہ تو اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ،اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ،اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑیں .
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب حضرت عمر بن خطاب (رض )نے حضرت علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور مبارکبادی کایہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا . حضرت عمر( رض )وہ پہلے افراد تھے جنھوں نے امام کو ان الفاظ کے ساتھ مبارکباد دی ”ہنیئاً لک یاعلی بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولای ومولیٰ کل مومن ومؤمنة“
یعنی اے علی بن ابی طالب آپ کو مبارک ہو کہ صبح وشام میرے اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہوگئے ۔
عید غدیر وہ مبارک اور سعد دن ہے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج سے واپسی پر غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کو خدا کے حکم سے اپناخلیفہ و جانشین منصوب فرمایا اور اس دن خدانے دین کو مکمل اور نعمتوں کا اتمام کیا اس طرح رسول اکرم صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم نے امت کو اپنے بعد کا راستہ دکھادیا ۔
اسی پس منظر میں صدیوں سے مولائے کائنات کے منصب ولایت پر فائز ہونے کی خوشی میں یہ عید دنیا بھر میں منائی جاتی ہے.
باب شہر علم امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام تقوی،دین داری،دین کی مطلق پابندی،غیر خدا اور غیر راہ حق کو نظر میں نہ لانے،راہ خدا میں کسی کی پرواہ نہ کرنے،علم،عقل،تدبیر،طاقت،اور عزم و ارادے کا مظہرتھے اور ایسی شخصیت کو غدیر کے دن اپنا جانشین معین کرنا تاریخ میں امت اسلامی کی رہبری کے معیار کو ظاہرکرتاہے.
آج اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ غدیر جیسے اہم واقعے کو مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور ان کی کمزوری کا بہانہ نہیں بننا چاہیے اور دشمن مسئلہ غدیرکو مسلمانوں کے درمیان برادرکشی ،جنگ اور خونریزی کا پیش خیمہ بنانا چاہتا ہے ۔
Embedded image permalink
source:-http://www.aalmiakhbar.com/blog/?p=5565

Comments

comments