آل سعود اور وہابی ملاّئیت کے ہاتھوں مکّہ کی ثقافتی و تاریخی آثار کی تباہی

1001OPEDButtignol-master495

نوٹ : اس مضمون کے مصنف ضیاء الدین سردار ہیں جوکہ مسلم دنیا کی سیاسی ، ثقافتی اور مذھبی صورت حال پرشایع کونے والے ایک رسالے کے ایڈیٹر بھی ہیں ، یہ آرٹیکل انگریزی زبان میں شایع ہونے والے ایک امریکی اخبار  “نیویارک ٹائمز میں شایع ہوا جس کا ترجمہ و تلخیص خالد نورانی نے کیا ہے

انیس سو چونسٹھ میں جب مالکیم ایکس نے مکّہ مکرمہ کا دورہ کیا تھا تو اس نے اس وقت مکّہ کو خود ایک قدیم ترین شہر کے طور پر پایا تھا اور لکھا کہ 

جزوی طور اگرچہ مسجد الحرام کی جو توسیع کی گئی ہے اس سے اس کی خوبصورتی ہندوستان میں موجود تاج محل سے کئی گنا زیاہدہ ہوجائے گی
پچاس سال بعد ، کوئی بھی اب مکّہ کو ایک قدیم شہر یا اسلام کے مقدس ترین شہر کو خوبصورتی کے ساتھ نتھی نہیں کرسکتا – حاجی جو اس ہفتے فریضہ حج کی ادائیگی کررہے ہیں ان کے لیے مکّہ کی تاریخ کو وہاں تلاش کرنا فضول کی شق ثابت ہوگا
شہر میں غالب تعمیراتی شاہکار اب مسجد الحرام نہیں ہے ، جہاں کعبہ ہرچکہ کے مسلمانوں کے علامتی مرکز ہے
بلکہ یہ مکہّ رائل کلاک ٹاور ہوٹل ہے ، جو کہ 1972 فٹ کی بلندکی کے دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں سے ایک ہے
یہ اس دیوقامت عمارتوں کی تعمیر کے سلسلے کا ایک حصّہ ہے جس م؛یں پر آسائش شاہانہ شاپنگ مال ، ہوٹل اور بلند وبالا چوٹیوں کو گھیرے ہوئے سلسلے شامل ایں – قدیم پہاڑیوں کو زمین بوس کرکے جگہ کو ہموار کردیا گیا ہے -شہر اب ہشت پہلو لوہے اور کنکریٹ کی بنی ہمئی بلند وبلا عمارتوں سے گھرا ہوا ہے جس میں ڈزنی لینڈ اور لاس ویگاس کی جھلک نظر آتی ہے
اس شہر کے نام نہاد سرپرست ، سعودی عرب کے حکمران اور وہابی ملّا تاریخ سے گہری نفرت کرتے ہیں – وہ ہر شئے کو ایک نئے برانڈ کی شکل دینے کے مشتاق ہیں – اسی دوران جگہیں جو حاجیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے پھیلائی جارہی ہيں جن کی تعداد 10 لاکھ سے بڑھ کر 30 لاکھ ہوگئی ہے

mecca_haj_building-620x350

مکّہ کی تباہی کا پہلا مرحلہ 1970ء کے درمیان میں شروع ہوا تھا ، اور میں نے خود وہاں اس کا مشاہدہ کیا تھا – لاتعداد قدیم تاریخی عمارتیں جن مں حضور علیہ الصلوات والتسلیم کے زمانے سے چلی آرہی مسجد بلال بھی شامل تھیں زمین بوس کردی گئیں تھیں – عثمانیوں کے پرانے گھر ، ان کے تاریخی جھروکوں سمیت ، ان کے کروی دروازے جدید دروازوں کے زریعے ہٹادئے اور چند سالوں میں مکّہ کو ایک جدید شہر میں بدل دیا گیا جس میں کئی لین والی سڑکیں ، سپیگیٹی جنکشن ، بڑے ہوٹل اور شاپنگ مال شامل تھے
باقی جو مذھبی اور ثقافتی اعتبار سے اہمیت کی حامل قدیم عمارتیں تھیں ان کو حال ہی میں ختم کردیا گیا – مکّہ رائل کلاک ٹاور ، 2012ء میں ایک اندازے کے مطابق کلچرل اور تاریخی اہمیت کی 400 جگہوں اور قبروں کو مسمار کرکے کے تعمیر کیا گیا جن میں شہر کی صدیوں پرانی قدیم ترین تاریخی عمارتیں بھی شامل تھیں – بلڈوزر آدھی رات کو آن پہنچے ، صدیوں سے وہاں رہنے والے خاندانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کردیا گیا – کمپلیکس اجیاد قلعہ پر کھڑا ہے جو کہ 1780ء میں مکّہ کو ڈاکوؤں اور حملہ آوروں سے محفوظ رکھنے کے لیے تعمیر کیا گيا تھا – ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری نبی کریم کی پہلی بیوی کا گھر بیت الخلاء پر مشتمل ایک بلاک میں بدل دیا گیا – مکّہ ہلٹن کی تعمیر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے گہرے دوست اور رفیق ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر کو گرا کر بنایا گیا ہے
کعبہ کو چھوڑ کر ، مسجد الحرام کے اندر کی جو تاریخ ہے وہ اب کٹ؛ پھٹی اور منتشر ہوچکی ہے – مسجد الحرام کے اندر عثمانیوں نے 16 ویں صدی میں جو ستون تعمیر کئے تھے اب ان کو بھی گرانے کا منصوبہ بن چکا ہے اور مسجد الحرام کے اندر کو مکمل طور پر بدلنے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے اور اس کے بچے کچھے قدیم اندرونی سٹرکچر کی جگہ ایک الٹر ماڈرن جدید شکل کی عمارت کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا ہے
اس شہر مں مذھبی تقدس کے حوالے سے انتہائی قدیم عمارت وہ گھر ہے جہاں پیغمبر اسلام نے زندگی گزاری تھی – آل سعود کی حکمرانی کے زیادہ تر ادوار میں یہ مویشی منڈی کے طور پر استعمال ہوتی رہی ، پھر اس کو ایک کتب خانے میں بدل دیا گیا ، جوکہ عام لوگوں کے لیے نہیں کھلا تھا بلکہ اس کتب خانے کی عمارت کو بھی زیادہ ریڈیکل وہابی مولوی گرانے کا مطابلہ کرتے رہے – وہابی مولویوں کو خوف ہے کہ ، ایک دفعہ داخلے کی اجازت ملی تو خاجی یہاں پر پیغمبر سے استمداد کریں گے ، ان کے وسیلہ سے دعا مانگیں گے اور یہ عمل وہابیہ کے نزدیک شرک ہے اور اب بہت جلد ہی یہ مکتب خانہ جو مولد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے بہت جلد گرادیا جائے گا اور اس کی جگہ شاید پارکنگ لاٹ بنے گا
مکّہ کی ثقافتی تباہی نے شہر بہت ریڈیکل انداز میں بدل ڈالا ہے – بغداد ، دمشق اور قاہرہ کے برعکس ، مکّہ کبھی اسلام کا بہت بڑا علمی ، فکری اور ثقافتی مرکز نہیں رہا – لکن یہ ہمیشہ سے ایک تکثیری شہر رہا جہاں پر مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے مسلمانوں کے درمیان بحث مباحثہ ہوا کرتا تھا اور وہاں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی – لیکن اب یہ صرف وہابی مذھب کا ہی شہر بنکر رہ گیا ہے – جہاں پر سوائے وہابی تعبیرات ، توجیحات اور سخت گیر تنگ نظری پر مبنی روش کو پھیلانے اور اس پر بات کرنے کی اجازت ہے اور وہاں پر سوائے سلفی وہابی ازم کے باقی سب مسالک کو غلط اور غیر اسلامی خیال کیا جاتا ہے -پھچلے سال مشی گن سٹیٹ امریکہ سے فریضہ حج پر آئے ہوئے ایک حاجیوں کے گروپ پر وہابیوں نے چاقوؤں سے حملہ کردیا تھا
مکّہ کی تاریخ کے مٹائے جانے کے عمل کا خود حج پر بھی بہت زیادہ اثر پڑا ہے – لفظ “حج ” کا طلب کوشش اور سعی کرنا کے ہیں – یہ کوشش مکّہ میں سفر کرکے ، ایک جگہ سے دوسری جگہ جاکر اور رسوم ادا کرکے اور مختلف مسالک اور کلچر کے لوگوں سے گھل مل کر اور تاریخ اسلام کو جان کر کی جاتی ہے اور اس سے روحانی تسکین حاصل کرنا مقصود ہوا کرتا ہے -لیکن آج حج ایک پیکج ٹور ہے ، جہاں آپ کو ، اّ ایک گروپ سے بندھے ہوئے ایک ہوٹل سے دوسرے ہوٹل حرکت کرنا پڑتی ہے اور شاذ و نادر ہی آپ کا مختلف ثقافتوں ، نسلی گروپوں سے سامنا ہوتا ہے – تاریخ سے بانج

ھ اور مذھبی و ثقافتی تنوع سے خالی حج اب بدل دینے والا اور ہمیشہ روحانی طور پر تروتازہ رکھنے والا تجربہ نہیں رہا ہے
مکّہ مسلم دنیا کا عالم اصغر ہے – مسلمانوں پر اس شہر کا کیا اثر پڑے گا ؟ اسلام کا روحانی مرکز الٹرا ماڈرن ہوچکا ہے اور یک نوعی وہابی آمریت کا مرکز بن چکا ہے ، جہاں پر اختلاف کو برداشت نہیں کیا جاتا ، تاریخ کا کوئی مطلب نہیں ہے ، صارفیت پسندی پیراماؤنٹ ہے – اور اس لیے مسلم ممالک میں وہابی ازم ، اسلام کی گمراہ کن تعبیرات جڑ پکڑ چکی ہیں کیونکہ اسلام کے دل مکّہ میں ایسی گمراہ کن تعبیرات کی حامل وہابیت کا قبضہ ہے

ss-141006-mecca-aerial-01.nbcnews-ux-1440-900

Comments

comments