تحریک انصاف میں نو جوانوں کی امنگوں کی ترجمانی سے ہی تبدیلی ممکن ہے – عمار کاظمی
داتا صاحب سے مینار پاکستان تک لوگ گاڑیوں، ٹرکوں، لوڈرز موٹر ساءیکلوں پر سوار تھے۔ ان کے علاوہ ایک ہجوم تھا جو جلسہ ختم ہونے تک مینار پاکستان کی طرف بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ اکثر خاندان گاڑیاں سڑک کے بیچوں بیچ چھوڑ کر مینار پاکستان کی طرف پیدل ہی چلے گءے تھے۔ پیدل سے پراڈو والے تک سبھی امیر غریب جلسے میں شامل تھے۔ میں گاڑی میں تھا اور باوجود کوشش کے میرے لیے مینار پاکستان تک پہنچنا ممکن نہ تھا۔ تقریر سناءی نہیں دے رہی تھی۔ مگر سڑک پر ہر چالیس پچاس گز کے فاصلے پر کھڑے ایک بڑے لوڈر میں ساونڈ سسٹم رکھا تھا جس میں بار بارپی ٹی آی کے ملی نغمے چلاءے جا رہے تھے۔ ٹریفک بلاک ہونے کی وجہ سے تھوڑی بد نظمی تھی کہ اگر لوگوں کو سڑک کے ایک کنار گاڑیاں پارک کرنے کے لیے کہا جاتا تو شاید ٹریفک بلاک نہ ہوتی تاہم جلسہ ختم ہوتے ہی پی ٹی آءی کے رضا کاروں نے بہت اچھے طریقے سے ساری صورتحال کو سنبھال لیا اور گاڑیاں ریورس کروا کر ون وے روڈ کی ایک لین کھول کر گاڑیاں واپس بھیجنی شروع کر دیں۔
ماننا پڑے گا کہ پی ٹی آءی کے رضا کاروں نے اتنے بڑے ہجوم میں ٹریفک کو بہت اچھے طریقے سے ہینڈل کیا۔ لوگوں کے جذبے اور عمران خان سے محبت میں کوءی دو راءے نہیں ہوسکتیں۔ اگر کوءی شے مشکوک ہے تو وہ یہ ہے کہ کیا عمران خان ان لوگوں کی توقعات پر پورے اتر سکیں گے؟ اور کیا پی ٹی آءی کے نوجوان کارکنان کی آواز ان کی جماعت میں ہمیشہ سنی جاتی رہے گی؟ اگر تحریک انصاف اپنے کارکنوں کی آواز سنتی رہے گی تو وہ تبدیلی ضرور آءے گی جس کا خواب دیکھ کر لاہور کے امیر غریب طبقات مینار پاکستان پر جمع ہوءے تھے؟ ورنہ خورشید قصوری جیسے لوگوں کی مہنگی تعلیم اور جہانگیر ترین جیسے سرمایہ داروں کی تجوریاں تو شاید بھر جاءیں گی مگر نوجوان کارکنان کے خواب بھٹو کے نوجوانوں کی طرح ایک بار پھر ادھورے رہ جاءیں گے۔ ان اندیشوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ اور وہ یہ کہ پی ٹی آءی کے کارکن عمران خان کو انسان ہی سمجھیں اور جہاں کہیں کچھ بھی غلط نظر آءے اس پر اپنا پرایا دیکھے بغیر سب کے سامنے کھل کر تنقید کریں۔ قیادت کارکن سے بنتی ہے کارکن قیادت سے نہیں۔