سنی صوفی نسل کشی: ڈاکٹر شکیل اوج کے خلاف دیوبندی مفتی رفیع عثمانی نے واجب القتل ہونے کا فتویٰ جاری کیا تھا، کراچی پولیس کا انکشاف –
posted by Shahram Ali | September 27, 2014 | In Original Articles, Urdu Articlesکراچی میں فائرنگ کے ایک واقعے میں جامعہ کراچی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر محمد شکیل اوج شہید اور ان کی ایک طالبہ زخمی ہوگئی ہیں۔ یہ واقعہ جمعرات ١٨ ستمبر ٢٠١٤ کی صبح گلشن اقبال میں واقعہ وفاقی اردو یونیورسٹی کے قریب بیت المکرم مسجد کے نزدیک پیش آیا۔
کراچی پولیس کے اعلی افسر ایس ایس پی پیر محمد شاہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر شکیل کے اعزاز میں ایران کے کلچرل سینٹر خانہ فرہنگ میں تقریب منعقد کی گئی تھی جہاں وہ اپنے ساتھی شعبہ صحافت کے سربراہ طاہر مسعود اور طالبہ ڈاکٹر آمنہ کے ہمراہ شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ ایس ایس پی پیر محمد شاہ کے مطابق ڈاکٹر شکیل اپنے دوست کے ہمراہ گاڑی میں پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ طاہر مسعود اور طالبہ ڈاکٹر آمنہ نے پولیس کو بتایا کہ انھوں نے گاڑی کے پیچھے سے آواز سنی انھوں نے سمجھا کہ شاید کوئی ٹائر برسٹ ہوا ہے۔
ایس ایس پی پیر محمد شاہ کے مطابق ڈاکٹر شکیل کے خلاف توہین رسالت کے الزام میں ایک دیوبندی مدرسے جامعہ دارالعلوم کراچی سے مفتی رفیع عثمانی کی جانب سے فتویٰ بھی جاری کیا گیا تھا، جس کے بعد موبائل فون پر انھیں واجب القتل قرار دے کر ایس ایم ایس کے ذریعے اس پیغام کو عام کیا گیا۔ یاد رہے کہ مفتی رفیع عثمانی کے کالعدم دیوبندی دہشت گرد جمت لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ (نام نہاد اہلسنت والجماعت) کے رہنماؤں اورنگزیب فاروقی اور احمد لدھیانوی سے گہرے تعلقات ہیں جبکہ انہوں نے طالبان اور دیگر تکفیری دیوبندی خوارج اور خود کش حملہ آوروں کے خلاف فتویٰ جاری کرنے سے بھی انکار کیا تھا
پولیس کا کہنا ہے کہ دو فائر کیے گئے جس میں سے ایک ڈاکٹر شکیل کی گردن پر لگا جو جان لیوا ثابت ہوا جبکہ دوسرا ڈاکٹر آمنہ کے بازو پر لگا جو اس وقت ایک نجی ہپستال میں زیر علاج ہیں۔ پولیس واقعے کی مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کر رہی ہے، جس میں سی سی ٹی وی کیمرے کی بھی مدد حاصل کی جائے گی۔
ایس پی عابد قائم خانی کا کہنا ہے کہ بطور ڈین تعیناتی پر ڈاکٹر شکیل سے کچھ دیوبندی مولویوں سے رنجش بھی چل رہی تھی اور مبینہ ٹاؤن تھانے پر اس حوالے سے ایف آئی آر بھی درج ہے اور تحقیقات میں اس معاملے کو بھی مدِنظر رکھا جائے گا۔ ڈاکٹر شکیل اوج کا تقرر 1987ء میں وفاقی اردو یونیورسٹی میں بطور لیکچرار ہوا تھا جس کے بعد وہ 1995ء میں جامعہ کراچی چلے گئے، جس سے وہ زندگی کے آخری دنوں تک منسلک رہے۔ اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کے علاوہ وہ صحافت میں ایم اے اور ایل ایل بی کی بھی ڈگری رکھتے تھے۔ ان کی تصنیفات میں 15 سے زائد کتابیں اور کتابچے شامل ہیں۔ وہ مختلف مکاتبِ فکر کے مدارس میں جا کر لیکچر بھی دیا کرتے تھے۔ ان کے سوگ میں جامعہ کراچی میں تین روز کے لیے تعلیمی اور تنظیمی سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں۔
یاد رہے کہ دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والےتکفیری خارجی انتہا پسندوں نے گزشتہ چند سالوں کے دوران پینتالیس ہزار سے زائد سنی صوفی مسلمانوں کو جن میں ایک ہزار سے زائد سنی صوفی اور بریلوی اکابرین شامل ہیں شہید کر دیا ہے، اس کے علاوہ انہی دہشت گردوں نے بائیس ہزار سے زائد شیعہ مسلمان بھی شہید کیے ہیں