پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج کی شہادت اور تکفیری اساتذہ و مدرسہ کا کردار – خرم زکی

Shakeel-Rafi-Usmani-Death-Fatwa

پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کو خانہ فرہنگ ایران جاتے ہوۓ شہید کر دیا گیا. پروفیسر شکیل اوج جامعہ کراچی کے کلیہ اسلامی علوم کے رئیس تھے اور خانہ فرہنگ ایران اپنے اعزاز میں رکھے گئ ایک تقریب میں شرکت کے لیۓ جا رہے تھے. جب ان کی گاڑی گلشن اقبال میں واقع دار العلوم کورنگی سے منسلک ایک مسجد بیت المکرم کے نزدیک پہنچی تو ان پر موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے گولیوں کو بوچھاڑ کر دی، ان کو نزدیکی آغا خان اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے، گاڑی میں ان کے ایک ساتھی استاد پروفیسر طاہر مسعود بھی موجود تھے لیکن وہ فائرنگ سے بالکل محفوظ رہے. واضح تھا کہ ڈاکٹر شکیل اوج،ہلال امتیاز، کو نشانہ بنا کر قتل کیا گیا ہے

پروفیسر شکیل اوج کا تعلق بریلوی سنی مسلک سے تھا اور آپ تصوف کی طرف بھی مائل تھے. آپ انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینی سے بڑی گہری قلبی عقیدت و وابستگی رکھتے تھے گو خود پاکستان میں کسی تھیوکریٹک حکومت کے حامی نہیں تھے. بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہو گا کہ پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج ایک عرصہ تک ڈاکٹر طاہر القادری کی تنظیم منہاج القرآن سے بھی وابستہ رہے ہیں اور نہ صرف ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسوں میں اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیتے رہے بلکہ بیرون ملک منہاج القرآن کی تنظیم سازی میں بھی مدد کر چکے ہیں. پروفیسر شکیل اوج اپنے علمی منہج کے اعتبار سے تفسیر قرآن بالقرآن کی طرف مائل تھے اور کسی خاص مسلک و فرقہ کے لیۓ کوئی عصبیت یا نفرت نہیں رکھتے تھے. آپ فقہی امور میں روایت پسندی کے بجاۓ لبرل اپروچ رکھتے جیسے کہ ایک نشست میں تین طلاق کے حوالے سے آپ کا نظریہ فقہ جعفری کے قریب تھا یا مسلمان خاتون کے اہل کتاب مرد سے  ازدواج کے بارے میں آپ کا نظریہ جمہور کی راۓ سے بالکل منفرد تھا. ڈاکٹر صاحب فقہی اور مذھبی میدان میں روایت پسندی اور قدامت پسندی سے ایک علمی و عقلی جنگ لڑ رہے تھے. آپ فرقہ وارانہ تفریق اور عصبیت کے شدید مخالف تھے اور سنی اور شیعہ مسلمانوں کی وحدت و بھائی چارہ کے نہ صرف خود سختی سے قائل تھے بلکہ اس کا سر عام پرچار بھی کرتے تھے

پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس بات کا سراغ ملا ہے کہ شہید استاد شکیل اوج کے خلاف دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے کچھ مولوی حضرات اور پروفیسرز سرگرم تھے اور ان کے خلاف مفتی رفیع عثمانی سے منسوب ایک فتوے پر مبنی ایس ایم ایس مہم بھی چلائی گئے جس میں ان کو واجب القتل قرار دیا گیا تھا – دیوبندی علما اپنے مسلک میں پھیلنے والی تکفیری دہشت گردی کی روش سے بری الزمہ نہیں

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.