مڈل ایسٹ – آل سعود ، وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ ، مسلم بنیاد پرستی اور واشنگٹن – پہلا حصّہ – عامر حسینی

مڈل ایسٹ میں اس وقت جو بھی سماجی – سیاسی حالات ہیں ان میں جہاں عالمی طاقتوں کی حریفانہ کشاکش کا دخل ہے وہیں اس میں عرب ریاستوں کی داخلی و خارجی صورت حال سے ابھرنے والی علاقائی سیاست کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے اور اس ساری صورت حال میں مڈل ایسٹ میں جو مسلم بنیاد پرستی ہے جس کی بنیادوں پر اخوان المسلمون جیسی مسلم بنیاد پرست تحریکیں اور ان کے بطن سے نکلنے والی جہادی فرقہ پرست دھشت گرد تحریکیں خطے کی سیاست کو خاص شکل دیتی ہیں کا جائزہ لینے سے ہم مڈل ایسٹ کے خلفشار کو سمجھنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اٹھارویں صدی سے تک عرب خطہ اور عرب ممالک زیادہ سے زیادہ مستشرقین اور کالونیل مہم جوؤں کی دلچسپی کا مرکز تھے اور گریٹ گیم اس زمانے میں زار شاہی روس اور برطانوی سامراج کے درمیان سنٹرل ایشیا کے ملکوں پر کنٹرول کے تناظر میں لڑی جارہی تھی

یہ بیسویں صدی تھی جب پہلی جنگ عظیم کے دوران عالمی طاقتیں عرب ممالک اور شمالی افریقہ کے علاقوں پر باہمی کشاکش کا شکار ہوئیں عرب علاقوں میں تیل کی دریافت وہ فیصلہ کن عامل تھا جس نے ایک طرف تو عثمانی سلطنت کا خاتمہ کرنے کی راہ ہموار کی تو دوسری طرف علاقائی سیاست میں عرب علاقے ترکوں کی بنسبت زیادہ فوکس میں آگئے دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی سامراج کا سورج ڈھلنا شروع ہوا اور امریکی سامراج کا سورج طلوع ہونا شروع ہوا ، اس کے ساتھ ہی سویت یونین کے ساتھ مغرب کی سرد جنگ کا آغاز بھی ہوگیا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ” نئی امریکی صدی ” اور ” نئی تیل کی صدی ” کا آغاز ساتھ ساتھ ہی ہوا تیل آج بھی سرمایہ داری نظام کا بہت بڑا ستون ہے اور فاچون میگزین نے 2011ء میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ دنیا کی 12 سب سے بڑی سرمایہ دار کمپنیوں میں 8 تیل کی کمپنیاں ہیں اور ان میں ایکسون موبل دنیا کی دوسری ، شیورون تیسری اور کانوکوفلپس دنیا کی چوتھی بڑی کمپنی ہے

اور یہ تینوں آئل کی کمپنیاں ہیں اور امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل فنانس کی رپورٹ کے مطابق 2008ء میں جب تیل 95 ڈالر فی بیرل تھا تو گلف تعاون کونسل کی ریاستوں کی تیل کی ایکسپورٹ 500 ارب ڈالر تھی جبکہ اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق خلیج عرب تعاون کونسل کی ریاستوں کے سرمائے کی باہر کی طرف بہاؤ یعنی آؤٹ فلو تقریبا 530 ارب ڈالر تھا جس میں سے 300 ارب ڈالر امریکہ ، 100 ارب ڈالر یورپ اور 70 بلین ڈالر باقی علاقوں کی طرف جارہے تھے گلف تعاون کونسل میں شامل ریاستوں کے غر ملکی گراس اثاثے 4170 بلین ڈالر جبکہ نیٹ اثاثے 1049 بلین ڈالر تھے (یہ 2002ء سے 2009ء تک کے اعداد و شمار ہیں) گلف تعاون کونسل کی ریاستوں کے ساورن ویلتھ فنڈ میں سرمایہ کاری 51 فیصد ہے اور یہ زیادہ تر پبلک ایکویٹیز پورٹ فیلیوز ، فکسڈ انکم سیکورٹیز ، رئیل اسٹیٹ میں اور بہت کم گلوبل کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی گئی امریکہ کی وفاقی ریاست کی جانب سے جاری کردہ یوایس مالیاتی بانڈز میں پہلے نمبر پر سرمایہ کاری چين کی ہے ،

پھر جاپان کا منر آتا ہے اور تیسر نمبر خلیج تعاون کونسل میں شامل ریاستوں کا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں عالمی سرمایہ داری نظام میں امریکہ اور یورپ کے اندر ہونے والی سرمایہ داری میں خلیج عرب کونسل میں شامل ریاستوں کا حصّہ بہت زیادہ ہے ، وہیں پر یہ ریاستیں چین ، جاپان کے بعد امریکی وفاقی حکومت کو سب سے زیادہ قرض دینے والی ریاستیں بھی ہیں امریکہ کے لیے مڈل ایسٹ اسلحے ، فوجی ساز و سامان اور فوجی خدمات کی فراہمی کے حوالے سے بھی بہت ہی اہم خطّہ ہے 1950ء سے لیکر 2014ء تک سعودی عرب امریکی اسلحہ انڈسٹری کا سب سے بڑا گاہک ہے اور امریکی اسلحے کی انڈسٹری جتنا مال فروخت کرتی ہے اس کا 17 فیصد تو سعودی عرب ہی خرید لیتا ہے

جبکہ مصر اس کا 3۔7 فیصد خرید کرتا ہے جبکہ 32 فیصد باقی عرب ریاستیں خرید کرتی ہیں ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکی اسلحہ انڈسٹری کا 57 فیصد مال عرب ریاستیں خرید کرتی ہیں گذشتہ 60 سالوں میں امریکہ نے فوجی کنسٹرکشن کی مد میں بیرون ملک جو کام کیا اس کا 78 فیصد سعودیہ عرب میں کیا امریکی دفاعی آلات و سروسز کی خریداری میں سعودیہ عرب کا پہلا نمبر ہے، 2007ء سے 2010ء تک اس مد میں سعودیہ عرب نے امریکہ سے 8۔13 ارب ڈالر کی خریداری کی جبکہ یو اے ای اس مد میں 10 اعشاریہ 4 فیصد ، مصر 7 اعشاریہ 8 فیصد اور عراق 5 اعشاریہ 6 فیصد خریداری کرنے والوں میں شامل تھے فوجی ساز و سامان کی مد میں 2010ء میں سعودی عرب نے امریکہ سے 60 ارب ڈالر کے معاہدے کئے اور امریکہ کی ملٹری ساز و سامان کی فروخت کی تاریخ میں یہ سب سے بڑی ڈیل تھی جبکہ اس سے پہلے فوجی سازو سامان کے فروخت کی سب سے بڑی ڈیل بھی سعودیہ عرب نے 1985ء میں برطانیہ سے کی تھی اور 60 ارب ڈالر کی اس سعودی – امریکی ڈیل کو سودی شاہی خاندان کی بدعنوانی کا سب سے بڑا اسکینڈل بھی قرار دیا جارہا ہے اس ڈیل کے علاوہ 2011ء میں سعودیہ عرب نے 84 ایف18 ایس اے ایگل فائٹنگ طیاروں کی خرید کی جس کی مالیت 29۔4 بلین ڈالر تھی اور اس سے پہلے سعودی عرب کے فلیٹ میں 70 ایف 15 یو ایس اے طیارے پہلے ہی شامل تھے اور مارچ 2011ء میں 256 ارب ڈالر کے ہیلی کاپٹرز خریدنے کا معاہدہ ہوا دیکھا جائے تو 1990ء اور 1991ء میں خلیج فارس میں جو سیکورٹی بحران پیدا ہوا اور سعودی عرب سمیت عرب ریاستوں کو اپنی سیکورٹی کا ایشو سنگین ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا تو اسی زمانے میں امریکہ سے خلیج عرب ریاستوں کی جانب سے اسلحے کی خریداری میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہم اگر 2004 سے 2007 ء تک امریکہ کے اسلحہ ٹرانسفر معاہدات کو دیکھیں تو ان کا 33 فیصد گلف ریاستوں سے تعلق تھا اور ان معاہدوں کی مالیت 20 ارب ڈالر بنتی تھی اور برطانیہ کے جو کل اسلحہ ٹرانسفر کے معاہدات تھے ان میں 26 ا‏عشاریہ 5 فیصد گلف تعاون کونسل کی ریاستوں کے ساتھ کئے گئے تھے اور ان کی مالیت 17 اعشاریہ 5 ارب ڈالر بنتی تھی ،

جبکہ 2008 ء سے 2012ء تک ایسے معاہدے جو امریکہ سے کئے گئے وہ امریکہ کے کہ اسلحہ ٹرانسفر معاہدوں کے 78 فیصد تھے اور اس کی مالیت 92 ارب ڈالر تھی سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر ائی ) کی ایک رپورٹ کہتی ہے سعودی ریاست دنیا کی پانچویں بڑی ریاست ہے اسلحہ امپورٹ کرنے والوں میں اور امریکہ اس کا سب سے بڑا سپلائر ہے اور اس کے بعد برطانیہ ہے اور تیسرے نمبر پر فرانس ہے لیکن برطانیہ اور فرانس اس معاملے میں امریکہ سے بہت پیچھے ہیں جبکہ اسلحہ امپورٹرز میں متحدہ عرب امارات دنیا کا گیارہواں بڑا ملک ہے اور اس کا سب سے بڑا سپلائر بھی امریکہ ہی ہے اور جبکہ تھوڑے پیمانے پر یہ فرانس سے اسلحہ امپورٹ کرتا ہے عرب ریاستوں کے اندر سرمایہ داری کی حرکیات پر نظر رکھنے والے ماہرین میں معروف ماہر علی قادری اپنے مضمون Accumulation by enchrochment in Arab Mashreq in Ray Bush میں لکھتے ہیں فنانس اور ملٹری ازم پر بنیاد رکھنے والے ارتکاز سرمایہ کے عالمی پروسس میں مڈل ایسٹ واضح طور پر سنٹر میں کھڑا ہے بائیں بازو کے لبنانی نژاد مارکسی دانشور گلبرٹ آشکار کا کہنا ہے کہ آئل کارڈ خطے میں ہی نہیں بلکہ عالمی سرمایہ داری کی حرکیات میں بہت قیمتی سٹریٹجک اثاثہ ہے اور اس معاملے میں امریکہ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ چین جس کا سب سے زیادہ تیل انگولا اور سعودی عرب سے آتا ہے اور ان دونوں ملکوں کی سلامتی کی چوکیداری امریکہ کے پاس ہے

جبکہ دوسری جانب چین امریکی مالیاتی بانڈز کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اس طرح سے دونوں کی معشیتوں کا ایک دوسرے پر بہت انحصار ہے سعودیہ عرب اور امریکہ کے باہمی تعلقات کو عبدالعزیز السعود کے دور میں یہ بھی کہا گيا کہ امریکہ کے ساتھ عبدالعزیز کی شراکت داری کا مطلب واشنگٹن کی مدد سے اسلامی ٹیکساس بنانا ہے اور اس کو اگر جدید وہابی ٹیکساس کہا جائے تو غلط نہ ہوگا دوسری جنگ عظیم کے بعد سے لیکر سرد جنگ کے خاتمے تک اور موجودہ حال تک جہاں مڈل ایسٹ کو جدید وہابی خطہ میں بدلنے کا کردار سعودی شاہی خاندان اور وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ کے پاس رہا ہے وہیں مڈل ایسٹ کی مختلف الجہات معاشی ، فوجی اور سیاسی پیش رفت کا نگران امریکہ رہا ہے اور اس نگران کے کردار کو ادا کرتے ہوئے اس نے مڈل ایسٹ میں سعودی عرب کے شاہی خاندان اور وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ کے غالب کردار کو برقرار رکھنے کو ہر طرح سے یقینی بنائے رکھا سعودیہ عرب کی سلطنت کا اعلان 1932 ء میں کیا گیا تھا جبکہ اس نے نجد اور حجاز کو 1925ء میں فتح کرلیا تھا اس ریاست کی تشکیل نے عربی بولنے والی اکثریت کے خطے کے ارتقاء میں خصوصی اور پوری مسلم دنیا کے ارتقاء میں عمومی طور پر جو کردار ادا کیا اس کی اہمیت کو ٹھیک طرح سے آج تک مین سٹریم دھارے میں کبھی بھی بیان نہیں کیا گيا مارکسی عرب دانشور گلبرٹ آشکار اپنی کتاب ” دی پیپل وانٹ ۔۔۔۔۔” میں لکھتا ہے

The founding of the kingdom was an event crucial to the later development of the Arabic -speaking region in particular and Islamic world in general.Its importance is widely underestimated, as i have argued everywhere. A few years after the new kingdom was founded , the political and religious influences that it had gained as a result of conquest of Islam,s Holy Places was substantially enhanced by financial means gauranteed it by 1938 dicovery of immense oil wealth .The kingdom that influences and those means to the service of its privileged alliance with its suzerain protector , united states. The People Want , Radical expolration of the Arab Uprising,p:99

سعودی ریاست نے عربوں اور مسلمانوں کے مرکز یا کشش ثقل کا کنٹرول حاصل کرلیا اور ان دونوں پر اس نے بے پناہ اثر ڈالا اور سعودی عرب کی جو وہابی اسٹبلشمنٹ ہے وہ مائی یمنی کے مطابق ایک جانب تو جوڈیشل سسٹم کو کنٹرول کرتی ہے دوسری جانب اس کا کنٹرول سعودیہ عرب کی کونسل آف سینئر علماء پر ہے جوکہ شرعی امور میں عمومی فتوے جاری کرنے کی مجاز ہے اور دعوت و ارشاد اس کی زمہ داری ہے ، وزرات اسلامی امور ، عالمی نگران برائے مساجد کی کونسل کا سپریم ہیڈکوارٹر اس کے کنٹرول میں ہے اور امر بالمعروف و نھی عن المنکر کی نگران کمیٹی بھی اسی کے ماتحت کام کرتی ہے اور اسی کے ماتحت شرعی پولیس کام کرتی ہے جس کا سربراہ حکومتی وزیر ہوتا ہے وہابی اسٹبلشمنٹ سعودی عرب کے اندر اور باہر اس کے تعاون سے چلنے والے ایجوکشن سسٹم کو کنٹرول کرتی ہے اور سعودی تعلیمی اداروں کا نصف نصاب یہ بناتی ہے اور یہ مکّہ ، مدینہ اور ریاض میں قائم اسلامی یونیورسٹیوں کا کنٹرول بھی رکھتی ہے ، وزرات حج اور وزرات اوقاف بھی وہابی اسٹبلشمنٹ کنٹرول کرتی ہے -جبکہ وزرات خزانہ پر بھی اس کا اثر موجود ہے کیونکہ اس کے ماتحت وزرات زکات بھی ہے وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ سعودیہ عرب میں میگزین ، ریڈیو ، ٹی وی اسٹیشنز اور ویب سائٹس پر بھی کنٹرول رکھتی ہے اور سعودی مسلح افواج پر بھی اس کا اثر موجود ہے کیونکہ وہاں اس کو اپنے خیالات کے پھیلاؤ کی اجازت ہے سعودی عرب نے اپنے قیام سے لیکر ابتک اسلامی آئیڈیالوجی کے نام پر سب سے زیادہ بنیاد پرستانہ ، جنونی ، الٹرا رآئٹ پروپیگنڈا کیا ہے گلبرٹ آشکار لکھتا ہے

Saudi kingdom is antithesis of freedom , democracy , equality and women liberation.During cold war , it was a bastion of reactionary resistance to the rise of nationalism and nationalism,s subsequent socialist leaning radicalisation in alliance with USSR.Furthermore , it has served as a regional relay for neoliberal counteroffensive, has actively fostered corruption in its zone of influences , and acted as choirmaster for the subset of near Eastern Arab states aligned with Washington.

گلبرٹ آشکار کے خیال میں یہ امریکی سرپرستی تھی جس کی وجہ سے سعودیہ شاہی خاندان اور وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ مڈل ایسٹ میں عرب -اسرائيل جنگ 1948ء سے لیکر ابتک اٹھنے والے مختلف خارجی و داخلی خلفشاروں کے باوجود اپنی حکومت اور ریاست پر کنٹرول بچانے میں کامیاب ہوگیا گلبرٹ آشکار بتاتا ہے کہ یہ برطانیہ اور امریکی لے پالکی کا نتیجہ ہے جو نہ صرف سعودیہ عرب کو بچاگئے بلکہ اس نے کویت کو عراق سے الگ ملک بنانے ، عراقی جارجیت سے اسے بچآئے رکھنے اور عرب بدوی ریاستوں کے اتحاد پر مبنی متحدہ عرب امارات کی تشکیل کو ممکن بنایا اور اس کے خیال میں یہ جو خلیج تعاون کونسل کی ریاستیں ہیں ان کی تشکیل اور پروان چڑھانے میں برطانوی اور امریکی پروٹیکشن اور سرپرستی کا بنیادی ہاتھ ہے اور گلبرٹ آشکار کا یہ بھی کہنا ہے کہ پہلی گلف وار جو امریکہ نے 90ء میں شروع کی وہ اصل میں نیو ورلڈ آڈر کا فیصلہ کن لمحہ تھا اور گلبرٹ آشکار کہتا ہے

Obviously , the massive US military intervention in the Gulf region in 1990- 01 , involving the deployment of more than one million troops and impressive naval and air fleets, was exclusively motivated by the oil factor ,as was 2003 US occupution of Iraq.No convincing explanation that dose not turn on a direct or indirect relationship to oil has been put forward by any those who brand accounts based on oil factor “simpilistic” .

امریکہ اور مغربی اتحادیوں نے گلف ریاستوں کی سرپرستی کے سارے دور میں ان ریاستوں کی بادشاہتوں اور آمریتوں کی حمائت کی اور ان کا باہمی اتحاد پورے مڈل ایسٹ میں بالعموم اور گلف ریاستوں میں بالخصوص لبرل ، جمہوری اقدار کے لیے اینٹی تھیسس ثابت ہوا اور ان غیر جمہوری آمریتوں اور بادشاہتوں کا تحفظ اور ان کی سرپرستی امریکہ اور یورپ یہ کہہ کر کرتے رہے کہ اصل میں عرب اسلامی کلچر اور عربوں کا مذھب اسلام ڈیموکریسی کے خلاف ہے اور اس کا کلچر خلافت و امارت کے ساتھ ہی فٹ بیٹھتا ہے آصف بیات ایک اور عرب دانشور اس کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے

Question is not whether in Islam is or not compatiable with democracy or by extention modernity (however understood),but rather under what conditions Muslims can make them compatiable .Because there is nothing intrinsic in Islam , and for that matter any other religion, which makes them inkerently democratic or undemocratic .We the social agents , determine the inclusive or authoritarian thrust of religion.

گلف عرب آمرانہ اور بادشاہانہ حکومتیں عرب عوام کے جمہوری اور بنیادی حقوق کو غصب ایک طرف تو اسلام کے نام پر بدترین رجعت پرستانہ وہابی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر کرتی رہی ہیں تو دوسری طرف ان کو یہ غصب حقوق کا کام اور جمہوریت کش اقدامات کا موقعہ امریکہ اور مغرب نے فراہم کیا ہے

Source:

http://lail-o-nihar.blogspot.com/2014/09/blog-post.html

Comments

comments