تسلیمہ نسرین فمینسٹ لبرل سے اسلاموفوبک ہونے تک ۔شدھ جیسا ناول اور برقعہ کی تاریخ میں وہ کیوں اسلامو فوبک ہوگئی ؟ – عامر حسینی

lajja

 

مولانا عبدالماجد دریا آبادی نفسیات کے طالب علم تھے اور اس دوران جب وہ سگمنڈ فرائیڈ کو پڑھ رہے تھے تو وہ ملحد ہوگئے اور نہ صرف ملحد ہوئے بلکہ آج کی اصطلاح میں وہ اسلاموفوبک ہوگئے اور انھوں نے ملآؤں کی تعبیرات مذھبی پر تنقید کرتے کرتے نفس اسلام پر تنقید شروع کردی ، اس زمانے میں جب ان کے افکار عام لوگوں میں پھیلنا شروع ہوئے اتر پردیش ، پنجاب میں خاص طور پر ان کے خلاف خود علمائے دیوبند ، سہارنپور ، بریلی نے ایک طوفان کھڑا کردیا اور ماجد دریا آبادی بھی ان کٹھ ملّاؤوں کے سامنے جم کر کھڑے ہوگئے اور قریب تھا کہ وہ بہت دور نکل جاتے لیکن ایسے موقعہ پر ان کو علامّہ محمد اقبال اور مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے قریب کیا ، ایک نے جدید علم کلام کے راستے سے ان سے مکالمے کی راہ نکالی دوسرے نے تصوف کے راستے سے ماجد دریا آبادی سے قرب پیدا کیا اور اس باہمی مکالمے کا نتیجہ ماجد دریا آبادی کی مذھب کی واپسی کی صورت نکلا
،
اگرچہ ماجد دریا آبادی خود جب صوفی باصفا اور عالم ہونے کے زعم میں مبتلا ہوئے تو انھوں نے “انگارے “کے مصنفوں اور سعادت حسن منٹو کے افسانوں کی اپنے مضامین میں وہ خبر لی کہ “الامان و الحفیظ ” کی صدائیں چاروں اور سنائی دینے لگیں اور ان کے بعد پھر کسی اقبال اور کسی مولانا اشرف علی تھانوی نے کسی اسلامو فوبک ہوجانے والے شخص کے ساتھ مکالمے کی راہ نکالنا پسند نہ کیا بلکہ بات بس تکفیر اور اس کے بعد قتل کرنے تک پہنچانے کو ہی اسلام کی خدمت اور اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنے کا سبب جان لیا
ابھی شکیل اوج صاحب کا قتل ہوا ، اس سے پہلے مولانا مسعود بیگ راہی عدم کردئے گئے اور اس سے پہلے علامہ علی اکبر کمیلی کو جینے کے حق سے محروم کیا گیا -یہ سب اس دوران ہوا جب مجھے بنگلہ دیش ڈھاکہ سے اپنے ایک کمیونسٹ دوست نرمل داس کی طرف سے ایک پارسل موصول ہوا جس میں تسلیمہ نسرین کی شاعری کی دو عدد کتابیں ، اس کے تین ناول اور بنگالی کے ایک اخبار میں شایع ہونے والے مضامین منتخبہ کا ترجمہ شامل تھے اور یہ میری درخواست پر بھیجے کئے تھے
میں رات کو ان کے مطالعے سے فارغ ہوا اور مجھے ڈاکٹر تسلیمہ نسرین کے زھنی ارتقاء کی ایک تصویر اس مواد سے اور انٹرنیٹ پر موجود لنکس کو دیکھنے سے بنانے میں مدد ملی اور مجھے شدت سے یہ اندازہ ہوا کہ ڈاکٹر تسلیمہ نسرین کی ایک فیمنسٹ ، لبرل ایکٹوسٹ اور سیکولر ازم کے داعی سے اسلامو فوبیا کا شکار ہونے تک کے سفر میں عمل انگیز کا کردار بنیاد پرستوں اور مذھبی جنونیوں نے ادا کیا اور ڈاکٹر تسلیمہ نسرین کے معاملے نے ثابت کردیا کہ مسلم سماج کی گندی تصویر اور اسلام کی بدنامی میں انتہا پسندوں اور بنیاد پرستوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے
جس وقت لجا شایع ہوئی یا تسلیمہ نسرین نے اپنے تجربے اور مشاہدے پر مبنی تحریرں بنگالی اخباروں میں شایع کرنا شروع کی تھیں اگر اس وقت دانائی ، حکمت اور تدبر سے کام لیا جاتا اور رجعت پرستانہ تن گ نظری اور اس کے پس پردہ مفادات سے ہٹ کر غلط کو غلط مان کر اور بانوے میں بنگلہ دیش میں ہندؤں پر ہونے والے مظالم بارے متعصبانہ رویہ اپنانے اور تسلیمہ کی جانب سے بنگلہ دیشی سماج کو آئنیہ دکھانے پر مشتعل ہونے کی بجائے اس پر عقل و استدلال سے کام لیا جاتا تو شاید ہمیں “شدھ ” جیسے ناول اور آؤٹ لک انڈیا میں “برقعہ کی تاریخ ” جیسے مضامین تسلیمہ نسرین کی جانب سے دیکھنے کو نہ ملتے
تسلیمہ نسرین کے کیس میں مسلم سماج کے اندر ” عورتوں ، اقلیتوں ،” کے لیے دانشورانہ کام کرنے والے لوگوں کے لیے بھی ایک سبق پنہاں ہے اور وہ یہ ہے کہ جب وہ سماج کی رجعت پرستی ، کٹھ ملائیپت ، بنیاد پرستی اور تاریک خیالی سے نبرد آزما ہوں تو ان کو رجعت پرستوں کی بچ پر کھیلنے یا ان کے من پسند میدان میں کھیلنے سے انکاری ہونا چاہئیے ورنہ وہ یہ لڑائی بہت آسانی سے ہار جائیں گے ، تاریک خیالی اور تکفیر پرستوں سے جنگ بہت صبر آزماء اور دانش و حکمت کی متقاضی ہوا کرتی ہے ، میں نے اپنا یہ مضمون اسی صورت حال کو واضح کرنے کے لیے تحریر کیا ہے

ڈاکٹر تسلیمہ نسرین کا پہلی مرتبہ نام میں نے 1992ء میں سنا تھا جب ان کے ناول “لجا” جس کا انگریزی میں ترجمہ “شیم ” کے نام سے ہوا پر بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر احتجاج کی خبریں آنا شروع ہوئیں اور پھر پتہ چلا کہ بنگالہ دیشی مسلمانوں کے ایک بڑے مشتعل ہجوم نے ڈاکٹر تسلیمہ نسرین کے گھر کا محاصرہ کیا اور ان کو جان سے مارنے کی کوشش کی مگر بنگلہ دیشی پولیس نے ان کو بہت مشکل سے بچا لیا اور پھر ڈاکٹر تسلیمہ نسرین کے سویڈن چلے جانے کی خبر آئی اس کے کئی عرصہ بعد وہ خاموشی سے مغربی بنگال انڈیا میں پناہ گزیر ہوگئیں اور ان کو عارضی رہائش کا پرمٹ بھی مل گیا لیکن کرناٹک کے ایک اخبار میں ان کے نام سے ایک مضمون شایع ہوا

جس سے ان کے خلاف پورے بھارت میں مسلم بنیاد پرست تنظیمں متحرک ہوگئیں اور پھر تسلیمہ نسرین کی اسلام ، قرآن اور عرب میں اسلام کی تحریک کے پھیلاؤ بارے کئی ایک باتیں ایسی منظر عام پر آئیں کہ اس نے عام مسلمان آدمی کو بھی مشتعل کرڈالا میرے لیے حیرت کی بات یہ تھی کہ ڈاکٹر تسلیمہ نسرین کا مغرب اور مشرق کے بہت سے سارے فیمنسٹ اور ہیومن رائٹس کے سنجیدہ حلقوں میں بہت احترام پایا جاتا ہے اور ان کو فرانس میں معروف “سیمون دی بووا ایوارڑ ” کے لیے بھی نامزد کیا گیا اور ان کی شہرت مغربی فیمنسٹ حلقوں میں ایک فیمنسٹ خیالات کی حامل عورت کے طور پر زیادہ ہے میں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح سے ان کے ناول ” لجا” کو حاصل کروں اور اسے پڑھوں میرے ایک بنگالی کمیونسٹ دوست ہیں نرمل داس جو ڈھاکہ میں رہتے ہیں انھوں نے نہ صرف مجھے “شیم ” ارسال کیا بلکہ تسلیمہ نسرین کی شاعری اور شیم سے پہلے چھپے ان کے دو عدد اور ناول اور ایک بنگالی اخبار میں ان کے کالموں کے کئی ایک تراشے بھیجے ،

یہ وہی اخبار تھا جس کے ایڈیٹر سے بعد میں تسلیمہ نسرین نے شادی کرلی تھی تسلیمہ نسرین ایک ایسے مسلم نژاد بنگالی گھرانے میں پیدا ہوئی جوکہ بنیادی طور پر سیکولر ، بنگالی قوم پرست ناستک گھرانہ تھا اور اس کے والد پیشہ کے اعبتار سے ڈاکٹر اور سیاسی خیالات کے اعتبار سے کمیونسٹوں کے قریب تھے تسلیمہ نسرین نے بھی ابتدائی تعلیم کے بعد طب کے میں ڈگری لینے کا فیصلہ کیا اور وہ گائنی کی سپیشلسٹ بن گئیں اور ان کی پہلے ڈیوٹی میمن سنگھ ضلع کے ڈسٹرکٹ ہسپتال کے گائنی وارڈ میں لگی اور پھر وہ ڈھاکہ ہسپتال میں گائنی کے شعبے میں آگئیں ڈاکٹر تسلیمہ نسرین جس زمانے میں پڑھ رہی تھی اس زمانے سے لیکر شعبہ طب میں عملی زندگی میں آنے تک بنگلہ دیشی سیاسی ، سماجی و معاشرتی زندگی میں ایک بھونچال کی سی کیفیت تھی آزاد بنگلہ دیش میں ایک طرف تو یہ ہوا کہ بنگلہ بدھو ایک فوجی بغاوت میں پورے خاندان سمیت قتل کردئے گئے اور پھر ضیاء الرحمان کے زمانے میں ہی بنگلہ دیش کے اندر کمیونل ازم نے دوبارہ سراٹھانا شروع کردیا

اور آمر ارشاد حسین کے زمانے میں یہ اپنے عروج کو پہنچا اور اس کے بعد جب جمہوری ادوار شروع ہوئے تو اسی دوران آٹھویں ترمیم سامنے آئی جس کے تحت آئین کے شروع میں بسم اللہ شامل کی گئی اور آئین میں اسلام کو قومی مذھب قرار دے دیا گیا اس دوران بنگلہ دیش میں عورتیں عام طور پر اور ہندؤ عورتیں خاص طور پر مرد شاؤنزم اور کمیونل ازم کی بربریت کا نشانہ بننے لگیں خود تسلیمہ نسرین کو بچپن میں ہی ایک مولوی کے ہاتھوں ریپ کا نشانہ بننا پڑا تھا اور پھر ہسپتال میں اس نے ریپ کا شکار کئی معصوم بچیوں اور عورتوں کے کیس ہینڈل کئے جن کو نہ تو عدالتوں اور پولیس سے انصاف نہ ملا اور نہ ہی بنگلہ دیشی سماج نے ایسی عورتوں اور بچیوں کو عزت سے جینے کا موقعہ فراہم کیا اور اس ضمن میں جماعت اسلامی سمیت مسلم بنیاد پرست جماعتوں اور حلقوں کا جو کردار رہا

اور جس طرح سے ان کی مذھبی فسطائيت کو اسلام بناکر پیش کیا جاتا رہا اور اس سے اختلاف کرنے والوں کا سانس لینا بھی محال بنادیا گیا ،اس نے ڈاکٹر تسلیمہ نسرین کے اندر سخت ردعمل کو جنم دیا میں نے تسلیمہ نسرین کی شاعری اور ان کے ابتداء میں شایع ہونے والے مضامین کو پڑھا ہے ، ان میں بنگلہ دیش کے اندر مذھب کی رجعت پسندانہ تعبیرات کرنے اور اس کو مسلط کرنے پر تنقید ملتی ہے اور تسلیمہ نسرین بذات خود اسلام کو بطور مذھب الزام دیتی نظر نہیں آتیں ان کی ابتدائی دنوں کی شاعری میں عورتوں کی محکومیت ، ان پر جبر ظلم ، جہیز نہ ہونے کی وجہ سے شادی کا نہ ہونا ، کم جہیز کی وجہ سے ان کا ماردیا جانا ، موسمی وباؤں سے غریبوں کی اموات ، کم سنی بچیوں اور اسکول ، کالج یا انتہائی کم عمری میں غربت و بے روزگاری باعث جسم فروشی پر مجبور ہونے والی لڑکیوں کی حالت زار ، منافقت پر مبنی مذھبیت ، امیر لوگوں کی ہوس ناکی اور مذھبی عدم برداشت جیسے موضوعات سے معاملہ کرتی نظر آتی ہے اور ان کے “شیم ” سے پہلے ناول میں بھی اسی طرح کے موضوعات سے معاملہ نظر آتا ہے مڈل ایسٹ کوارٹرلی ایک جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم نسرین نے اپنے لکھنے کی شروعات کے بارے میں خود اس طرح سے بتایا

Taslima Nasrin: I started writing a newspaper column in 1989 based on my experiences as a doctor and on my observation generally about the plight of women and their oppression in the male-dominated society of Bangladesh. I defended the rights of women against religion and patriarchy, which I see as the causes of women’s suffering. In particular, I wrote about the role of religion in this ill-treatment of women. With more than 80 percent of the country’s population Muslim, Islam is the country’s most important religion. Many of my countrymen, fundamentalist Muslims and ordinary religious Bengalis alike, did not agree with what I wrote, and started to hate me. The fundamentalists organized demonstrations and processions against they attacked and sacked the newspaper office where I used to write my columns, they burnt my books in public, and finally they filed a case against me in the courts.

جماعت اسلامی کے زیر اثر بنگلہ دیش میں مسلم بنیاد پرستی کی جو لہر بنگلہ دیش کے اندر بنگالی سماج کے نیچے تک جو سرايت کرگئی اس نے بنگلہ دیش میں بھی عام مسلم ذھن کی پرداخت بھی اسی طرح سے کی ہے کہ وہاں مسلم سماج کے اندر عورتوں ، مذھبی و نسلی اقلیتوں سے مذھبی تعبیرات کی بنیاد پر جو سلوک کیا جاتا ہے اس پر ہونے والی تنقید کا جواب نفرت ، انتہا پسندی ، فتوے بازی اور آخر میں بلوؤں سے دیا جاتا رہا ہے ،تسلیمہ کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ جب تسلیمہ نسرین نے اپنے تجربے اور مشاہدے میں عورت پر ہونے والے جبر اور اس میں مذھبی تعبیرات کے عمل دخل پر لکھنا شروع کیا اور تنقید شروع کی تو ان کے خلاف جماعت اسلامی ، تبلیغی جماعت اور نام نہاد جہادی تنظیموں نے مہم شروع کردی اور ان کے خلاف دائیں بازو کے پریس میں بہت زیادہ شور ہونا شروع ہوگیا تسلیمہ نسرین پر بنگلہ دیش کے مسلم خاندانی سسٹم اور ریت و رواج کو ختم کرنے اور اسلامی روایات کے بارے میں ہرزہ سرائی کا الزام عائد کیا گیا پاکستانی پریس میں کئی ایک دائیں بازو کے اخبارات نے تو حقائق سے ہٹ کر یکسر غلط رپورٹنگ کرنے سے بھی گریز نہ کیا -روزنامہ نئی بات “جوکہ ایک جہادی تنظیم سے وابستہ گروپ کا آحبار ہے اس نے اپنی ایک خـر میں یہ تک کہہ ڈالا کہ تسلیمہ نسرین نے کبھی بھی ڈاکٹری کی پریکٹس نہیں کی جوکہ حقائق کے بالگل منافی بات تھی

میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ دور تھا جب تسلیمہ نسرین نے خود اسلام اور اسلام کی بنیادی کتابوں اور تعلیمات کو بنگلہ دیشی عورت ، مذھبی اقلیتوں کی مظلومیت اور مجبوری کا زمہ دار قرار دینے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ ان کی تنقید ” مذھب ” سے زیادہ ملائیت ، مذھبی پیشوائیت اور لوگوں کے منافقانہ سماجی رویوں پر تھی برصغیر پاک و ہند میں جماعت اسلامی ، جماعت الاحرار سمیت مسلم بنیاد پرست تنظیموں اور ان کے نام نہاد سکالرز اور مقررین کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے ناقدین کی ڈی مونائزیشن کرنے میں بہت طاق ہیں اور وہ عام مسلمان کے جذبات کو اپنے کسی ناقد کے خلاف بھڑکانے میں بھی ید طولی رکھتے ہیں ہم نے پاکستان کے اندر ایسی مثالیں بہت مرتبہ دیکھی ہیں ، سلمان تاثیر ، شہباز بھٹی کی مثالیں تو حال ہی کی ہیں ، راشد رحمان ، جنید حفیظ ، آسیہ و رمشاء مسیح کے معاملات بھی ہمارے سامنے ہیں ،

یہ لوگ تو کوئی بڑے لکھت کار نہیں تھے اور نہ ہی اتنے بڑے ادیب تھے ، پاکستان کے اندر جمشید نایاب کے ساتھ کیا ہوا تھا سب کو معلوم ہے فروری 1993ء میں جب تسلیمہ نسرین کا ناول “لجا ” شایع ہوا تو اس سے پہلے ان کے تین ناول چھپ چکے تھے اور یہ ان کا چوتھا ناول تھا تسلیمہ نسرین نے یہ ناول دسمبر 1992ء میں ایودھیا میں بابری مسجد گرائے جانے کے خلاف بنگلہ دیش کے اندر ہونے والے احتجاج اور بلوؤں کے دوران سینکڑوں مندر ، دکانیں ، گھر نذر آتش کئے جانے ، توڑ پھوڑ کرنے ، ہندؤ عورتوں اور بچیوں کے اغواء ، ریپ کئے جانے اور بڑے پیمانے پر غریب ہندؤں کے بے گھر ہوجانے اور بہت بڑی تعداد کے اںڈیا ہجرت کرجانے کے واقعات ، اور اس دوران جماعت اسلامی سمیت بنگالی مسلم بنیاد پرستوں کی جانب سے مذھبی فسطائیت کے ننگے اور بے شرم مظاہروں اور وحشت و درندگی کے ننگے ناچ کے تناظر میں لکھا تھا

اس ناول میں تسلیمہ نسرین نے ڈاکومنٹری ناول کی تکنیک استعمال کی اور بنگلہ دیش کے اندر سیکولر ازم ، جمہوریت ، تکثریت کے زوال ، عورتوں کی مجموعی بے بسی ، مسلم رجعت پرستی سے ابھرنے والے مسلم کمیونلزم کے مقابلے میں ہندؤں ، کرسچن اور بدھسٹوں میں ابھرنے والے ردعمل پر مبنی کمیونل ازم کی جہاں عکاسی کی وہیں پر اس نے ایک طرف تو بنگلہ دیش میں نام نہاد سول سوسائٹی اور ترقی پسندوں کی مسلم پرتوں کی منافقت کا پردہ چاک کیا تو وہیں پر انھوں نے خود ہندؤں ، کرسچن اور بدھسٹ پس منظر سے آنے والے ترقی پسند حلقوں میں ردعمل کے طور پر کمیونل سوچ کے درآنے کا زکر بھی کیا ہے جو میرے خیال میں پاکستان کے اندر ” وہابی -دیوبندی فرقہ پرستی ” اور اس کے جواب میں ” شیعہ ، بریلوی ، کرسچن ، ہندؤ ، عیسائی فرقہ پرستی ” یا ان کی جانب سے ہونے والی کمیونل سیاست اور سوچ کے تناظر میں بہت اہمیت کی حامل ہے تسلیمہ نسرین نے اپنے ناول ” لجا ” کے منظر عام پر آنے اور اس پر بنگلہ دیشی سماج کے اندر سے آنے والے ردعمل پر لکھا ہے “

it was my fourth novel; it came out in February 1993. It is a documentary novel about the precarious existence of the Hindu minority in Bangladesh especially in the aftermath of the destruction of the Babri Mosque in Ayodhya, India, by Hindu fundamentalists on December 6, 1992. The Muslim mobs in Bangladesh took their revenge on the Hindu minority. I was writing about the oppression of the Hindus by the Muslim majority in the name of religion. They smashed the houses of the Hindus in the name of religion, and looted their shops. Of course, as a result many Hindus left Bangladesh for India. I was protesting the torture of Hindu communities. My book was banned in 1993 on charges of disturbing communal harmony. In 1994 a newspaper in Calcutta published an interview with me, where I said that the Shari‘a [sacred law of Islam] should be abolished. Unfortunately, the newspaper misquoted me as saying that I thought “the Qur’an should be revised thoroughly.

” تسلیمہ نسرین کا کندھا ہندؤ فاشسٹوں نے بھی استعمال کرنے کی کوشش کی اور ایک کرناٹکی اخبار نے ان کے نام پر ایسا رکیک مضمون شایع کیا جو کہ کسی بھی عام مسلمان آدمی کے لیے ناقبال برداشت تھا اور اسی مضمون کو لیکر ہندوستان میں بھی تسلیمہ نسرین کے خلاف سخت ردعمل سامنے آنے لگا جبکہ تسلیمہ نسرین نے بہت کہا کہ اس نے یہ مضمون نہیں لکدا ، مجھے لگتا ہے کہ یہ وہ دور تھا جب تسلیمہ نسرین بہت زیادہ انتہا پسندی کے جواب میں اسی شدت کی بنتہا پسندی پر اتر آئی تسلیمہ نسرین کے ناول “لجا ” میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا کہ جس کی بنیاد پر یہ کہا جاتا کہ وہ توھین اسلام یا مذھب کی مرتکب ہوئی ہیں ، یہ بات میں ہی نہیں کہہ رہا بلکہ اس بات کو ہندوستان سے شایع ہونے والے معروف روزنامہ سیاست حیدرآباد دکن نے بھی اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا اور لکھا کہ “تسلیمہ نسرین کے ناول “لجا” میں تو کچھ بھی ایسا نہیں تھا جس کو بلاسفیمی کہا جاسکتا

یہ تو اس کی بعد کی کتابوں ميں نظر آیا ” میں تسلیمہ نسرین کا یہ ناول پڑھا ہے اور اس میں مجھے تسلیمہ نسرین بار بار جماعت اسلامی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان مشابہت تلاش کرتی نظر آتی ہے لجاء ميں ہندؤ نژاد ایک گھرانے کی کہانی مرکزی کردار کی حامل ہے جس کا سربراہ سدوہامے ڈاکٹر اور ناستک کمیونسٹ ہے اور سیکولرازم پر یقین رکھتا ہے اور وہ بنگلہ دیش کو اپنی دھرتی ماں اور سن آف دی سوائل ہونے کا علمبردار بھی ہے جب بابری مسجد کے انہدام کے بعد بنگلہ دیش میں ہندؤں پر حملے شروع ہوتے ہیں تو اس کا خاندان اسے ہندوستان چلے جانے کو کہتا ہے ، اس نے بنگلہ دیش میں تمام تر ناانصافی ، مذھبی شناختوں کی بنیاد پر ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف جم کر جدوجہد کی ہوتی ہے اور وہ کہیں بھی جانے سے انکار کرتا ہے لیکن کمیونل ازم کا اژدھا پہلے اس کی بیٹی کی عصمت دری کا منظر اسے دکھاتا ہے اور پھر اس کا بیٹا عجیب طرح کے نفسیاتی مالیخولیا میں مبتلاء ہوجاتا ہے اور بالآخر جب انتہا ہوجاتی ہے تو ڈاکٹر سدوہامے فیصلہ کرتا ہے کہ ان کو ہندوستان چلے جانا چاہئيے

اور جب وہ اپنے فیصلے سے بیٹے کو آکاہ کررہا ہوتا ہے تو اس کے چہرے پر ایک لجا یعنی شرم ہوتی ہے جسے وہ چھپانے کی بے سبب کوشش کرتا ہے اس ناول میں ڈاکٹر تسلیمہ نسرین بہت ہی مایوس کن تصویر کشی بنگلہ دیش کی کرتی ہیں اور جس ماحول میں یہ ناول لکھا گیا تھا اس ماحول میں کسی امید پرست تصویر کا بنانا ان کے لیے ہی نہیں کسی اور کے لیے بھی ناممکن ہوتا لیکن میں نے اس ناول میں یہ بھی دیکھا کہ انھوں نے کسی حد تک ہندوستان کی ایک دلفریب تصویر کشی کرنے مثال کے طور پر اسی ناول میں صفحہ 137 پر اس ناول میں سدوھامے کا بیٹا سرنجن کا ایک دوست کجل دا کہتا ہے کہ “ہندوستان میں مسلمان دوسرے درجے کے شہری نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے وہ سلوک ہوتا ہے جو بنگلہ دیش ميں مسلمان ہندؤں کے ساتھ کررہے ہیں ” تسلیمہ نسرین بنگلہ دیش سے ہندوستان چلے جانے کا سفر جس دلفریب تصور کے ساتھ دکھاتی ہیں ،

اس پر مجھے بے اختیار ہنسی بھی آئی اور ان کی سادگی طبع پر حیرانی بھی ہوئی خیر ہندوستان کی حکومت ، اس کی ریاستوں کی حکومتیں اور خود مغربی بنگال کی کمیونسٹ حکومت کس قدر بنگلہ دیشی حکومت سے مختلف تھیں اس کا اندازہ تسلیمہ نسرین کو ہندوستان جاکر بہت اچھی طرح سے ہوگیا مجھے اس ناول پر ابھی مزید ایک دو باتیں اور لکھنی ہیں ، اس ناول کا ایک کردار سرنجن ہے جس کے زریعے سے زیادہ تر کمیونل فساد کے زمانے کے بنگلہ دیش کی تصویر تسلیمہ نے ہمیں دکھانے کی کوشش کی ہے سرنجن فرقہ وارانہ فساد کے زمانے میں بلکہ ہندؤں پر مسلمان بنیاد پرستوں کے حملوں کے زمانے میں کہنا زیادہ درست ہوگا گھر نہیں بیٹھتا اور وہ اپنے دوستوں کی خیرخیریت جاننے چل پڑتا ہے ، اسی طرح ایک دن وہ اپنے ایک دوست کے ہاں پہنچتا ہے تو وہاں اس کے بہت سے دوست جمع ہوتے ہيں اور ان میں ایک کے سوا باقی سب ہندؤ ہوتے ہیں اور اس میں ایک کردار کجل دا کا ہے

جس نے ترقی پسند ہونے کے باوجود ایک ہندؤ – بدھسٹ -کرسچن ایسوسی ایشن بنالی ہوتی ہے سرنجن کو کجل دا اور اس کے ساتھیوں کا یہ فعل کمیونل لگتا ہے اور وہ کہتا ہے کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ تم ایک نان کمیونل گروپ بناتے ؟ اور اس میں سعید الرحمان کیوں نہیں ہے؟ اس گفتگو میں شریک ایک اور کردار جیتن چکر ورتی سرنجن کو جواب دیتا ہے سعید الرحمان کا اس گروپ میں نہ ہونا ہماری ناکامی نہیں ہے بلکہ یہ ان کی ناکامی ہے جنھوں نے بنگلہ دیش کا قومی مذھب اسلام ہونے کا آئیڈیا پیش کیا جب تک ایسا نہیں ہوا تھا تو ہمارے پاس ایسا گروپ بنانے کا جواز نہیں تھا لیکن اب کیوں ہے ؟ تو اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ بنگلہ دیش خود بخود تو وجود میں نہیں آیا تھا بلکہ یہ مسلمان ، ہندؤ ، بدھسٹ اور کرسچن سب نے ملکر بنایا تھا مگر اس کے برعکس اس ملک کا قومی مذھب محض اسلام کو قرار دینا دوسری مذھبی برادریوں سے زیادتی ہے ، وطن سے محبت ہر ایک آدمی کی ہوتی ہے جو اس ملک میں رہتا ہے اور یہ ایک سے دوسرے کے ہاں محض مذھب کی وجہ سے بدل نہیں جاتی اور مذھب کی بنیاد پر اس حوالے سے کسی سے کوئی امتیاز برتا نہیں جاسکتا –

وطن سے محبت تو عالمگیر احساس ہے تو جب بعض مذھبی برادریاں یہ دیکھتی ہیں کہ ان کی ریاست کا قومی مذھب ایک ایسے مذھب کو قرار دے دیا گیا ہے جس سے ان کا کوئی تعلق نہ ہے تو ان کو بہت واضح یہ احساس ہوتا ہے کہ ریاست کے نزدیک ان کا مذھب شاید دوسرے بلکہ تیسرے درجے کا ہے اور ریاست کے نزدیک وہ بھی دوسرے یا تیسرے درجے کے شہری ہیں جب وہ دوسرے ، تیسرے درجے کے شہری بنائے جاتے ہیں تو ان کی عزت نفس پر بہت کاری ضرب پڑتی ہے تو ایسے میں اگر ان کا نیشنلزم کمیونل ازم میں بدل جائے تو ان کو کیسے الزام دیا جاسکتا ہے سرنجن اس پر کہتا ہے کہ ایک جدید ریاست میں کمیونل ایسوسی ایشن کا جواز کیسے پیش کیا جاسکتا ہے ؟

اس پر جیتن چکرورتی کہتا ہے اقلیتوں میں کمیونل ازم کا احساس پیدا کرنے کا زمہ دار کون ہے ؟ تم خود ہی تو کہتے تھے کہ اس کی زمہ داری کسی ایک مذھب کو ریاست کا قومی مذھب بنانے والوں پر عائد ہوتی ہے ، جب کسی ایک کمیونٹی کے مذھب کو اس ریاست کا قومی مذھب قرار دے دیا جاتا ہے تو اس ریاست کی قومی یک جہتی کی ساخت مسمار ہوجاتی ہے اور ایسا ملک تھیوکریٹک ریاست قرار پاتا ہے یہ ملک بتدریج کمیونل ہوتا جارہا ہے اور اس وقت قومی یک جہتی کی بات تو مذاق لگتی ہے ،آٹھویں ترمیم اقلیتوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے اور یہ اقلیتیں ہیں جنھوں نے اس کا خمیازہ بھگتا ہے اور اب انھوں نے یہ سمجھنا شروع کردیا ہے سرنجن یہ سنکر کہتا ہے کہ تو کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ اس ترمیم سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچے گا ؟ جیتن چکرورتی کہتا ہے ہرگز نہیں لیکن اس بات کو سمجھنے میں مسلمانوں کو ابھی بہت دیر لگے گی اسی جگہ ناول کا ایک اور کردار کہتا ہے کہ جب تک سیکولر ازم مکمل طور پر ریاست نہیں اپنائے گی اس وقت تک کمیمونل ایشو حل نہیں ہوگا

اور اس کا ایک مطلب تمام مذاہب کی جانب یکساں اور برابری کے سلوک کو آئینی تحفظ دینا بھی ہوتا ہے اور سیاست سے مذھب کی مکمل چھٹی کا نام ہے تسلیمہ نسرین نے فیمنزم ، سیکولر ازم ، انسانی حقوق اور جمہوریت کے حواہے سے بہت شاندار شروعات کیں تھیں اور بنگالی سماج کی منافقتوں کو بہت زبردست تکنیک کے ساتھ بے نقاب کرنے کی صلاحیت حاصل کی تھی لیکن 1993ء میں ان کے ناول کی اشاعت کے بعد ان کے خلاف جو ردعمل شروع ہوا اور ان کے گرد جس طرح سے گھیرا تنگ ہوا اور جن مصائب کا انھیں سامنا کرنا پڑا وہ چونکہ مذھب کے ٹھیکے داروں نے کئے تھے اور مسلم بنیاد پرستی کا اس میں سب سے بڑا ہاتھ تھا تو وہ خود بھی ایک اور انتہا پسندی کا شکار ہوئے بغیر نہ رہ سکیں اور اپنی جلاوطنی کے دنوں میں انھوں نے اسلام ، قران ، پیغمبر اسلام کے بارے ميں جن خیالات کا اظہار کیا اس نے خود ان کی مشکلات کو بھی بڑھایا بلکہ پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں خود سیکولر ، لبرل ، فیمنسٹ حلقوں کے لیے بھی کافی مشکل حالات پیدا کرڈالے اور ان کا دفاع بھی کسی طرح سے کیا نہیں جاسکتا

اس کا سب سے بڑ نقصان یہ ہوا کہ ان کی شاعری ، ان کے لجاء تک کے ادبی سرمایہ میں عورتوں ، مذھبی اقلیتوں اور سیکولر روایت کے شیدائیوں کے لیے سیکھنے اور شعور حاصل کرنے کے جو بے پناہ امکانات تھے وہ تسلیمہ کی انتہائی ردعمل کے ردعمل میں سامنے آنے والے تنازعات اور ان کے شور میں گم اور دب گئیں اگر انھوں نے حوصلے اور تحمل اور اعتدال پسندی سے کام لیا ہوتا تو آج بنگلہ دیش میں عوامی ليگ مذھبی فاشزم اور جماعت اسلامی کی بنیادوں کے خلاف جو سیکولر جدوجہد کررہی ہے وہ اس کی نظریاتی رہنماء ہوتیں اور ان کا پیغام پاکستان کی عام پسی ہوئی ، مظلوم عورت کی ڈھارس بھی بندھواتا انیس سو بانوے میں ان کی ایک تحریر ” میں قیدی ہوں ” سامنے آئی اور یہ اس وقت لکھی گئی تھی جب بنگلہ دیش کی حکومت نے ان کو ائرپورٹ پر اس وقت کلکتہ میں شاعری پر ہونے والی کانفرنس میں شرکت سے اس وقت روک دیا تھا جب وہ بلال چودھری ، شمس الرحمان جیسے بنگلہ دیشی معروف شاعروں کے وفد کی قیادت کرتے ہوئے جہاز میں سوار ہونا چاہتی تھیں ، ان کی کتابیں جو وہ کلکتہ اپنے دوستوں کو ارسال کررہی تھیں ائرپورٹ کا عملہ ان کے پیرا گراف پڑھ رہا تھا اور کچھ کو نشان زد بھی کررہا تھا اس وقت جس کیفیت کا وہ شکار تھیں اسے انھوں نے لکھا اور اس کے آخری جملے یہ تھے

 

If my death helps uniting the Bengalees, to be citizens of a single country, I would climb up to the gallows smilingly. I am willing to give up my life—not in exchange for money but for rationality and humanism.

تسلیمہ نسرین کس قدر شدید شاک سے گزریں اپنی قید تنہائی میں اور کم سن بچیوں ، عورتوں پر مرد جاتی کے مظالم سے ان کی ذھنی کیفیات کیا تھیں ؟ اور اپنی آزادی کے سلب ہوجانے پر ان کے خیالات کیا تھے ،میں یہاں ان کی نظمیں اپنے پڑھنے والوں کی نظر سے گزار رہا ہوں – یہ ان کی کتاب “محبت کی نظمیں ” سے لی گئی ہیں -ان نظموں کو پڑھ کر ہم اندازہ کرسکتے ہیں ان کے جذبات ، خیالات ، فکر اور نظریات کس بھونچال کا شکار ہوئے

Freedom Let all of you together find a fault with me, at least a fault you all jointly work out, or else, a harm shall befall you. Let you all combine speak out why you’ve sent me in exile. Say: Taslima, you’re at the root of a pestilence, infant deaths or you’ve committed as atrocious a crime as rape or genocide; Say something like this, at least two or three of the stigmas to substantiate my banishment. Until you detect a suitable blemish in me, until you make me stand in the witness box, to raise your accusing fingers in spiteful wrath at your black sheep, how can you pardon yourselves?

Had you been able to say where I’m wrong, the pangs of banishment wouldn’t have engulfed me so harrowingly. I’m eager to see you detect my wrong, so that I can embrace you as my well-wishers. Name my fault that made you ostracize me, specify at least a loophole in my character. By apportioning a blame on me, you ensure your own acquittal. Why should you let the history frown at you? Why have you eclipsed the light of civilization, by rooming with the darkness of medievalism? Establish a cause for your action, and if you can’t, then set me free, not to save me, but for your own survival.

Can’t I Have A Homeland To Call My Own? Am I so dangerous a criminal, so vicious an enemy of humanity, Such a traitor to my country that I can’t have a homeland to call my own? So that my land will snatch away from the rest of my life my homeland? Blindly from the northern to the southern hemisphere, Through mountains and oceans and rows and rows of trees, Blindly in the heavens, in the moon, in the mists and in sunshine, Blindly groping through grass and creepers and shrubs, earth and mankind, I have gone Searching for my homeland. Once I had exhausted the world,

I touched the shores Of my homeland to exhaust my span of life, Only to have the sense of security of an utterly exhausted thirsty soul Brutally uprooted, and you throw away the little water cupped in my hand, And sentence me to death, what name can I have for you, land? You stand on my chest like an enormous mountain, You stamp on my throat with your legs in boots, You have gouged out my eyes, You have drawn my tongue out and snapped it into pieces,

You have lashed and bloodied my body, broken both my legs, You have pulverized my toes, prized open my skull to squash my brain, You have arrested me, so that I die, Yet I call you my homeland, call you with infinite love. I’ve uttered a few home truths, hence I am a traitor to my homeland. I’m a traitor because you’ve chosen to walk shoulder to shoulder with liars in procession. You’ve warned me with raised fingers to give a damn to humanity, And whatever else I may have or not, I can’t have a homeland to call my own. My land, you dug into my heart and hacked out of my life my own homeland.

At The Back Of Progress The fellow who sits in the air-conditioned office is the one who in his youth raped a dozen or so young girls, and, at cocktail parties, is secretly stricken with lust, fastening his eyes on lovelies’ bellybuttons. In five-star hotels, he tries out his different sexual tastes with a variety of women, then returns home and beats his wife because of an over-ironed handkerchief or shirt collar. In his office Mr. Big puffs on a cigarette, shuffles through files, rings for his employee shouts, demands tea, drinks, and returns to writing people’s character references.

His employee speaks in such a low voice that no one would ever suspect how, at home, he also raises his voice, is vile to his family but with his buddies on the porch or at a movie indulges in loud harangues on politics, art, literature, and how some female – his mother, grandmother, or great-grandmother – committed suicide. Bidding goodbye to his buddies, he returns home, beats his wife over a bar of soap or the baby’s pneumonia. Next day, at work, he pleasantly brings the tea, keeps the lighter in his pocket, receives a tip of a couple of taka, and tells no one that he divorced his first wife for her sterility, his second for giving birth to a daughter, his third for not bringing a sufficient dowry. Now, with wife number four, he again has someone: To beat over a green chili or a handful of rice.

Source:

http://aamirfiction.blogspot.com/2014/09/blog-post_20.html

Comments

comments

Latest Comments
  1. Umair
    -