دیوبندی ملاؤں کی آپسی لڑائی اور مضاربہ سکینڈل – چند اعتراض اور ان کے جوابات

10356163_940909729259195_5378972563847036464_n

تعمیر پاکستان کے سابقہ ایڈیٹر عبدل نیشاپوری نے اپنے سورسز سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس بات کا انکشاف کیا کہ مولانا مسعود دیوبندیکا قتل دیوبندی ملاؤں کی آپسی لڑائی کا نتیجہ ہے تو اس پر ان کے ایک دوست کاشف نصیر صاحب نے جو اعتراضات اور سوالات اٹھاۓ ان سوالات کے اور جناب عامر حسینی نے جو جوابات دیے ان جوابات کو بھی ہم اس پوسٹ کا حصہ بنا رہے ہیں

اعتراض

اگر یہ مفروضہ درست مان لیا جائے تو یہ مفروضہ بھی تو قائم کیا جاسکتا ہے کہ چند روز قبل علامہ عباس کمیلی کے صاحبزادے کی شہادت بھی اہل تشیعی جماعتوں کے اندرونی اختلافات کا نتیجہ تھا۔ یار عبدل حد کرتے ہیں آپ

جواب

قیاس مع الفارق نہیں ہے بلکہ یہ ماضی قریب کے شواہد پر موجود ہے ، اس طرف شبہ جانے کا سب سے بڑا سبب تو یہ ہے سپاہ صحابہ اور اس کے جتنے بهی دیگر تکفیری گروپ ہیں ان کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ شیعہ و صوفی سنی نسل کشی پر پردہ ڈالنے اور اسے شیعہ -دیوبندی یا شیعہ -سنی لڑائی ثابت کرنے کے لئے اپنے ہی بعض ایسے علماء کا قتل کرتے رہے ہیں جو ان کی لائن کو فالو نہیں کرتے تهے یا ان کی factional fight میں کہیں فریق تهے یا کسی اور پیٹی معاملے پر ان کے کوئی اختلافات رونما ہوئے


اس سلسلے کی روائت بہت پرانی ہے، اس کا آغاز خود جهنگ سے ایثار القاسمی کے قتل سے ہوا تها اور یہ قتل اس وقت سپاہ صحابہ کے اندر شیخ حاکم جو کہ شیخ وقاص کا سسر تها کے ایک ہاکر نے کیا تها جو وقعہ سے فرار ہوتے ہوئے سپاہ کے بعض لوگوں کے هاته چڑه گیا تها


اسی طرح سے 90ء کی دهائی میں سپاہ صحابہ کے بہت سے ضلعی صدور اور مقامی رہنماوں کو لشکر جهنگوی کے گروپوں نے ان کے پولیس کے مخبر ہونے کے الزام میں قتل کردیا اور ان سب کا الزام اس زمانے میں سپاہ محمد پر لگایا گیا اور نائن الیون کے بعد وزیرستان سمیت قبائلی ایجنسیوں میں اور خیبر پختون خوا میں اعتدال پسند دیوبندی علماء کا ایک منظم انداز میں قتل شروع کیا گیا اور اس کی وجہ یہ تهی کہ انہوں نے پاکستان کو دار حرب قرار دینے اور پاکستان می قتال و جہاد کو حرام قرار دے ڈالا تها اور پاکستان میں خود کش حملوں کے حرام ہونے کا فتوی دیا تها ،

اسی سلسلے میں مولانا حسن جان کا قتل ہوا تها اور یہ بهی سب کو معلوم ہے کہ مولانا محمد بنوری جوکہ مولانا یوسف بنوری کے بیٹے تهے کو جعلی پاگل قرار دیکر اور ان کو ان کے گهر میں قتل کرکے خودکشی کا ڈرامہ رچایا گیا تها کیونکہ انہوں نے شیعہ کو کافر قرار دینے سے انکار کیا تها اور یہ بهی سب کو معلوم ہے کہ ملک اسحاق اور محمد لدهیانوی گروپوں کے درمیان جوfactional fight ہےاس میں بهی شمس معاویہ سمیت کئی ایک دیوبندی تکفیر ی لوگ قتل اور زخمی ہوئے ہیں اور منیر معاویہ کے اسلام آباد قتل میں بهی یہی فیکشنل فائٹ ملوث تهی


کراچی میں طالبان ، لشکر جهنگوی اور جیش محمد کے آپس میں اور ایک ہی گروپ کے اندر دهڑوں کی لڑائی کےان گنت ثبوت موجودہیں اور خود آئی جی سنده نے بهی اس کی تصدیق کی ہے مضاربہ اسکینڈل کیس ایک ایسا معاملہ ہے جس کے اندر خود جامعہ بنوریہ کی انتطامی کیمٹی اور اور اس سے باہر کئی ایک دیوبندی مولویوں کے درمیان شدید تضادات اور اختلافات موجود ہیں

، یہ جو مضاربہ کیس کے اہم کردار ہیں اور خود مفتی نعیم کے بارے میں رپورٹس موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ ان کے درمیان ربوں کی لوٹ مار پر خاصی شدید لڑائی بنی ہوئی ہے اور یہ لڑائی محض کراچی تک محدود نہیں تهی بلکہ یہ لڑائی تو اس مضاربہ اسکینڈل کے دوسرے شہروں اور صوبوں کے اندر بہت نیچے تک دیوبندی مولویوں کے درمیان موجود ہے اور اس میں اورنگ زیب فاروقی کے مفتی نعیم سے ہونے والے ایک مالیاتی تنازعے کی رپورٹتو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے زریعے مفتی نعیم کے رشتے دار گورنر سنده عشرت العباد تک بهی پہنچی ہے اور گورنر عشرت العباد کے قریبی زرایع کا کہنا ہے کہ عشرت العباد کو جب مفتی نعیم کے داماد مولانا مسعود کے قتل کی خبر ملی تو اس وقت عشرت العباد چند دوستوں سے ملاقات کررہے تهے اور انہوں نے بتایا کہ عشرت العباد نے خبر سنتے ہی کہا کہ وہی ہوا جس کا مجهے خدشہ تها اور پهر اورنگ زیب فارقی کا نام لیکر غلیظ گالیاں نکالیں


پولیس کے جو افسران مولانا مسعود کے کیس کو هینڈل کررہے ہیں روزنامہ جنگ کے ایک کرائم رپورٹر نے مجهے بتایا کہ انہوں نے جن خطوط پر انوسٹی گیشن کررہے ہیں ان میں ایک پہلو اورنگ زیب فاروقی -مفتی نعیم مالیاتی جهگڑا بهی ہے مفتی نعیم اور اورنگ زیب کے باہمی جهگڑے کی خبریں اس بیٹ میں کام کرنے والے کراچی کے اکثر رپورٹرز کے علم میں ہے لیکن اس حوالے سے میڈیا مالکان کے اندر خوف یا جانبداری کی فضا موجود ہے اور سوائے امت کے کوئی اور گروپ اساسکینڈل پر اپنے انوسٹی گیٹو جرنلزم کو متحرک کرنے کی کوشش نہیں کررہے ،شمس معاویہ کے قتل کے وقت بهی لاہور کے چند ایک رپورٹرزنےجب اس کے پیچهے ملک اسحاق گروپ کے ملوث ہونے کی خبردی تهی تو اس وقت بهی کہا گیا تها کہ یہ کیا بات کی جارہی ہے


طالبان اور جماعت الاحرار کی حالیہ بیان بازی کے دوران بهی خود ان کے منہ سے بہت سےانکشافات ہوئے ہیں ، مال ، دولت ، پاوراور طاقت کی حرص تکفیری ٹولوں کے اندر باہمی خون خرابے کا سبب بنی ہوئی ہے
جن صاحبان کا یہ کہنا کہ علامہ کمیلی کے بیٹے علی اکبر کا قتل بهی شیعہ مولویوں کے باہمی اختلاف کا نتیجہ ہوسکتا ہے تو پہلے تو شیعہ کے اندر organised terrorist wing and violence norm and any factional fight between that Shia militant group ثابت کرنااور شواہد و ثبوت اور ماضی سے امثال لانا پڑیں گی اگر ایسا ہوا جائے تو یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں ہوگا کہ کمیلی کا قتل شیعہ کی باہمی گروہ بند لڑائی کا نتیجہ ہے

اعتراض

مجهے اس قیاس سے اتفاق نہیں ہے. معاملے کو تعصب کی نگاہ سے دیکهنے کے بجائے اگر کهلے ذہن سے دیکها جائے تو نہ یہ “نسل کشی” والا فقرہ ایک سیاسی نعرے کے سوا کچه نہیں ہے، یہ درست ہے کہ ایران اور سعودیہ کے تعاون سے لڑے جانے والی فرقہ ورانہ لڑائی کا سب سے زیادہ نقصان شیعہ عقیدہ رکهنے والوں کا ہوا ہے لیکن ایسا نہیں ہے ہہ دوسرے عقائد کے لوگ اس فرقہ ورانہ لڑائی میں محفوظ ہیں. حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ہر مکتب فکر کے اندر مسلح جتهے موجود ہیں، چاہے سنی مسالک (سنی/بریلوی/اہل حدیث) ہوں یا شیعہ مسالک (امامیہ/اسماعلیہ) ہوں.
افغان جنگ اور پختونخوا کے قبائلی رنگ کی وجہ سے دیوبندی مسلک میں مسلح جتهے زیادہ ہیں، لیکن یہ کہنا کہ شیعوں میں مسلح گروپ موجود نہیں، حقائق، منطق، پولیس ریکارڈ، حساس اداروں کی رپورٹ، غیر ملکی رپورٹ، میڈیا رپورٹ اور عدالتی ریکارڈ کے سراسر خلاف ہے. صرف کراچی میں 300 سے زائد سنی علماء قتل کئے گئے جبکہ ملک خمیں مجموعی طور پر سب سے زیادہ علماء دیوبند مسکل کے قتل کئے گئے ہیں، اور جن جن کے قاتل پکڑے گئے ان سب کا تعلق اہل تشیع مکتب فکر کے مسلح جتهوں سے تها.حقیقت سے انکار کا رویہ درست نہیں ہے.
ہمیں قبول کرنا چاہئے کہ ہمارے معاشرے میں سنی اور شیعہ دونوں جانب ایسے شر پسند موجود ہیں جو فرقہ ورانہ ہم آہنگی خراب کرتے ہیں. اب وقت آگیا کہ ہم مشترکہ طور جنداللہ، سپہ محمد، لشکر جهنگی کے مکمل انسداد کے لئے جبکہ فرقہ ورانہ شناخت پر سیاست اور نفرت کرنے والی جماعتیں جیسے سپاہ صحابہ، سنی تحریک، سنی اتحاد کونسل، مجلس ملی وحدت وغیرہ وغیرہ کو مکمل سائڈ لائن کرنے کے لئے کام کریں. اگر الیکشن کو معیار بنایا جایا تو میرا یہ ماننا ہے کہ ہمارے یہاں مسلک یا فرقے کی بنیاد پر ووٹ دینے کا کبهی بهی رجہان نہیں رہا اور کوئی بهی فرقہ ورانہ جماعت کبهی اسمبلیوں میں نہیں پہنچ سکی ماسوائے ایک یا دو بار جهنگ اور کوئٹہ سے ایسا ہوا. اگر فرقہ ورانہ جماعتیں عوام کی طرف سے مسترد ہونے کے باوجود اگر کام کررہی ہیں تو ادکی وجہ غیر مکی مداخلت، لاء اور ملکی اسٹیبلشمینٹ کی ملی بهگت کے سوا کچه نہیں ہے.
جواب
اس قیاس سے اتفاق ہرہی نہیں سکتے اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے اور اس پر میں کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتا اور جہاں تک تین سو دیوبندی مولویوں کے قتل کا تعلق ہے ان میں کتنے خود دیوبندی دہشت گرد تنظیموں نے مارے ان کاتذکرہ نہ کرنا ہی آپ کے تعصب کی سب سے بڑی مثال ہے اور اس میں آپ نے غور نہیں کیا کہ میں نے یہ کہا تها کہ شیعہ یا صوفی سنیوں میں کوئی بهی organised taget killing and attack کرنے والے اور دہشت گردی کو بطور norm کے قبول کرنے کے شواہد نہیں ملے اور کراچی کی سی آئی ڈی اور کرائم برانچ سے آپ کو رجوع کرنا چاہئیے وہ آپ کو بتائیں گے مفتی نظام الدین شامزئی ، مولانا مختار ، مولانا یوسف لدهیانوی سمیت کئی ایک جید دیوبندی مولویوں کے قاتل کون تهے اور ان کے قتل کت پیچهے محرکات کیا تهے، 90ء کی دهائی کے آخر میں سپاہ محمد کے خاتمے کے بعد شیعہ میں کبهی بهی دہشت گردی کی کوئی ملیشیا نہیں بن سکی کیونکہ شیعہ کی جو مذهبی اور پولیٹکل قیادت ہے اس نے اس کی حمایت نہیں اور اسی طرح بریلویوں کی اکثریت نے بهی مسلح دہشت گردی کا جواب مسلح دہشت گردی سے دئیے جانے کو بطور norm adopt کرنے اور اس کی کسی طرح سے بهی تائید کرنے سے گریز کیا

جو آدمی دیوبندی تکفیری دہشت گردی کی ٹائم لائن ، اس کے پهیلاو ، دیوبندی مدارس اور عام دیوبندی نوجوانوں پر اس کے اثرات اور اس حوالے دیوبندی تنظیموں کی جید قیادت کے رویوں ، موقف اور ان کے اقدامات پر غور کرے گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ وہاں جہاد و قتال کے نام پر دہشت گردی کو قبول عام ہوگیا اور اس کے خلاف دیوبندی مولویوں میں مزاحمت جہاں سے کی گئی وہاں اس قدر بربریت کا سلوک ہوا کہ مخالفانہ آوازیں دب گئیں ، دیوبندی حلقوں میں اب کوئی ایسی آواز موجود نہیں ہے جو اعلانیہ سپاہ صحابہ ، تحریک طالبان پاکستان ، جماعت الاحرار وغیرہ کے خلاف بولے اور ان پر اپنی مساجد و مدارس کے دروازے بند کرے ، بلکہ وفاق المدارس کی کانفرنسیں ہوتی ہیں تو وہاں بهی لدهیانوی و اورنگ زیب فاروقی ، ملک اسحاق جیسوں کا استقبال کیا جاتا ہے ،

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.