دیوبندی ملاؤں کی آپسی لڑائی اور مضاربہ سکینڈل – چند اعتراض اور ان کے جوابات
تعمیر پاکستان کے سابقہ ایڈیٹر عبدل نیشاپوری نے اپنے سورسز سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس بات کا انکشاف کیا کہ مولانا مسعود دیوبندیکا قتل دیوبندی ملاؤں کی آپسی لڑائی کا نتیجہ ہے تو اس پر ان کے ایک دوست کاشف نصیر صاحب نے جو اعتراضات اور سوالات اٹھاۓ ان سوالات کے اور جناب عامر حسینی نے جو جوابات دیے ان جوابات کو بھی ہم اس پوسٹ کا حصہ بنا رہے ہیں
اعتراض
اگر یہ مفروضہ درست مان لیا جائے تو یہ مفروضہ بھی تو قائم کیا جاسکتا ہے کہ چند روز قبل علامہ عباس کمیلی کے صاحبزادے کی شہادت بھی اہل تشیعی جماعتوں کے اندرونی اختلافات کا نتیجہ تھا۔ یار عبدل حد کرتے ہیں آپ
جواب
قیاس مع الفارق نہیں ہے بلکہ یہ ماضی قریب کے شواہد پر موجود ہے ، اس طرف شبہ جانے کا سب سے بڑا سبب تو یہ ہے سپاہ صحابہ اور اس کے جتنے بهی دیگر تکفیری گروپ ہیں ان کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ شیعہ و صوفی سنی نسل کشی پر پردہ ڈالنے اور اسے شیعہ -دیوبندی یا شیعہ -سنی لڑائی ثابت کرنے کے لئے اپنے ہی بعض ایسے علماء کا قتل کرتے رہے ہیں جو ان کی لائن کو فالو نہیں کرتے تهے یا ان کی factional fight میں کہیں فریق تهے یا کسی اور پیٹی معاملے پر ان کے کوئی اختلافات رونما ہوئے
اس سلسلے کی روائت بہت پرانی ہے، اس کا آغاز خود جهنگ سے ایثار القاسمی کے قتل سے ہوا تها اور یہ قتل اس وقت سپاہ صحابہ کے اندر شیخ حاکم جو کہ شیخ وقاص کا سسر تها کے ایک ہاکر نے کیا تها جو وقعہ سے فرار ہوتے ہوئے سپاہ کے بعض لوگوں کے هاته چڑه گیا تها
اسی طرح سے 90ء کی دهائی میں سپاہ صحابہ کے بہت سے ضلعی صدور اور مقامی رہنماوں کو لشکر جهنگوی کے گروپوں نے ان کے پولیس کے مخبر ہونے کے الزام میں قتل کردیا اور ان سب کا الزام اس زمانے میں سپاہ محمد پر لگایا گیا اور نائن الیون کے بعد وزیرستان سمیت قبائلی ایجنسیوں میں اور خیبر پختون خوا میں اعتدال پسند دیوبندی علماء کا ایک منظم انداز میں قتل شروع کیا گیا اور اس کی وجہ یہ تهی کہ انہوں نے پاکستان کو دار حرب قرار دینے اور پاکستان می قتال و جہاد کو حرام قرار دے ڈالا تها اور پاکستان میں خود کش حملوں کے حرام ہونے کا فتوی دیا تها ،
اسی سلسلے میں مولانا حسن جان کا قتل ہوا تها اور یہ بهی سب کو معلوم ہے کہ مولانا محمد بنوری جوکہ مولانا یوسف بنوری کے بیٹے تهے کو جعلی پاگل قرار دیکر اور ان کو ان کے گهر میں قتل کرکے خودکشی کا ڈرامہ رچایا گیا تها کیونکہ انہوں نے شیعہ کو کافر قرار دینے سے انکار کیا تها اور یہ بهی سب کو معلوم ہے کہ ملک اسحاق اور محمد لدهیانوی گروپوں کے درمیان جوfactional fight ہےاس میں بهی شمس معاویہ سمیت کئی ایک دیوبندی تکفیر ی لوگ قتل اور زخمی ہوئے ہیں اور منیر معاویہ کے اسلام آباد قتل میں بهی یہی فیکشنل فائٹ ملوث تهی
کراچی میں طالبان ، لشکر جهنگوی اور جیش محمد کے آپس میں اور ایک ہی گروپ کے اندر دهڑوں کی لڑائی کےان گنت ثبوت موجودہیں اور خود آئی جی سنده نے بهی اس کی تصدیق کی ہے مضاربہ اسکینڈل کیس ایک ایسا معاملہ ہے جس کے اندر خود جامعہ بنوریہ کی انتطامی کیمٹی اور اور اس سے باہر کئی ایک دیوبندی مولویوں کے درمیان شدید تضادات اور اختلافات موجود ہیں
، یہ جو مضاربہ کیس کے اہم کردار ہیں اور خود مفتی نعیم کے بارے میں رپورٹس موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ ان کے درمیان ربوں کی لوٹ مار پر خاصی شدید لڑائی بنی ہوئی ہے اور یہ لڑائی محض کراچی تک محدود نہیں تهی بلکہ یہ لڑائی تو اس مضاربہ اسکینڈل کے دوسرے شہروں اور صوبوں کے اندر بہت نیچے تک دیوبندی مولویوں کے درمیان موجود ہے اور اس میں اورنگ زیب فاروقی کے مفتی نعیم سے ہونے والے ایک مالیاتی تنازعے کی رپورٹتو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے زریعے مفتی نعیم کے رشتے دار گورنر سنده عشرت العباد تک بهی پہنچی ہے اور گورنر عشرت العباد کے قریبی زرایع کا کہنا ہے کہ عشرت العباد کو جب مفتی نعیم کے داماد مولانا مسعود کے قتل کی خبر ملی تو اس وقت عشرت العباد چند دوستوں سے ملاقات کررہے تهے اور انہوں نے بتایا کہ عشرت العباد نے خبر سنتے ہی کہا کہ وہی ہوا جس کا مجهے خدشہ تها اور پهر اورنگ زیب فارقی کا نام لیکر غلیظ گالیاں نکالیں
پولیس کے جو افسران مولانا مسعود کے کیس کو هینڈل کررہے ہیں روزنامہ جنگ کے ایک کرائم رپورٹر نے مجهے بتایا کہ انہوں نے جن خطوط پر انوسٹی گیشن کررہے ہیں ان میں ایک پہلو اورنگ زیب فاروقی -مفتی نعیم مالیاتی جهگڑا بهی ہے مفتی نعیم اور اورنگ زیب کے باہمی جهگڑے کی خبریں اس بیٹ میں کام کرنے والے کراچی کے اکثر رپورٹرز کے علم میں ہے لیکن اس حوالے سے میڈیا مالکان کے اندر خوف یا جانبداری کی فضا موجود ہے اور سوائے امت کے کوئی اور گروپ اساسکینڈل پر اپنے انوسٹی گیٹو جرنلزم کو متحرک کرنے کی کوشش نہیں کررہے ،شمس معاویہ کے قتل کے وقت بهی لاہور کے چند ایک رپورٹرزنےجب اس کے پیچهے ملک اسحاق گروپ کے ملوث ہونے کی خبردی تهی تو اس وقت بهی کہا گیا تها کہ یہ کیا بات کی جارہی ہے
طالبان اور جماعت الاحرار کی حالیہ بیان بازی کے دوران بهی خود ان کے منہ سے بہت سےانکشافات ہوئے ہیں ، مال ، دولت ، پاوراور طاقت کی حرص تکفیری ٹولوں کے اندر باہمی خون خرابے کا سبب بنی ہوئی ہے
جن صاحبان کا یہ کہنا کہ علامہ کمیلی کے بیٹے علی اکبر کا قتل بهی شیعہ مولویوں کے باہمی اختلاف کا نتیجہ ہوسکتا ہے تو پہلے تو شیعہ کے اندر organised terrorist wing and violence norm and any factional fight between that Shia militant group ثابت کرنااور شواہد و ثبوت اور ماضی سے امثال لانا پڑیں گی اگر ایسا ہوا جائے تو یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں ہوگا کہ کمیلی کا قتل شیعہ کی باہمی گروہ بند لڑائی کا نتیجہ ہے
اعتراض
جو آدمی دیوبندی تکفیری دہشت گردی کی ٹائم لائن ، اس کے پهیلاو ، دیوبندی مدارس اور عام دیوبندی نوجوانوں پر اس کے اثرات اور اس حوالے دیوبندی تنظیموں کی جید قیادت کے رویوں ، موقف اور ان کے اقدامات پر غور کرے گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ وہاں جہاد و قتال کے نام پر دہشت گردی کو قبول عام ہوگیا اور اس کے خلاف دیوبندی مولویوں میں مزاحمت جہاں سے کی گئی وہاں اس قدر بربریت کا سلوک ہوا کہ مخالفانہ آوازیں دب گئیں ، دیوبندی حلقوں میں اب کوئی ایسی آواز موجود نہیں ہے جو اعلانیہ سپاہ صحابہ ، تحریک طالبان پاکستان ، جماعت الاحرار وغیرہ کے خلاف بولے اور ان پر اپنی مساجد و مدارس کے دروازے بند کرے ، بلکہ وفاق المدارس کی کانفرنسیں ہوتی ہیں تو وہاں بهی لدهیانوی و اورنگ زیب فاروقی ، ملک اسحاق جیسوں کا استقبال کیا جاتا ہے ،