بهٹو مائتهالوجی میں ایک اور اضافہ – از عامر حسینی

images

میں نے جب زوالفقار علی بهٹو کی شہادت کے بعد اپنے سماج پر پڑنے والے فکری ، تخلیقی اثرات کا جائزہ لینا شروع کیا تها تو مجهے یہ احساس ہونا شروع ہوگیا تها کہ بهٹو خاندان کے شهیدوں اور بیبیوں کو اس ملک کے شاعروں ، فکشن رائٹرزنے ایک مته میں بدلنے کا کام شروع کردیا تها اور میں اس کی باقاعدہ شروعات کرنے کا سہرہ ستار طاہر مرحوم کے سر باندهتا ہوں جنهوں بڑے منضبط طریقے سے یہ کام شروع کیا تها اور انہوں نےزندہ بهٹو ، مردہ بهٹو آرتهر ملر کے ناول کا ترجمہ احتساب کا جنون مارشل لاء کا وائٹ پیپر اگر مجهے قتل کیا گیا

اور اسی تناظر میں ان گنت چیزیں شایع کیں اور بهٹو مائتهالوجی کوباقاعدہ علم کی ایک شاخ بناڈالنے میں اہم کردار ادا کیا اور پهر اس تناظر میں اختر حسین جعفری ،فیض،استاد دامن ،حبیب جالب ، اشو لال فقیر سمیت درجنوں شاعر و ادیب تهے جنهوں اس سلسلے کو آگے بڑهایا اور اس بارے میں ڈاکومنٹریز بهی سامنے آئیں اور ان میں چینل 4 کے لئے بننے والی فیض پر ڈاکومنٹری کو بهی میں اسی ضمن میں شمار کرتا ہوں اور طارق علی نے فاکس اینڈ لیپرڈ کے نام سے جو ڈاکومنٹری بنائی وہ بهی اور رفیع پیرزادہ نے ایک ڈاکومنٹری بنائی اس سب نے بهٹو مائتها لوجی کا دامن مالا مال کرڈالا

بے نظیر بهٹو شهید کی جب شهادت ہوئی تو میری زندگی کا یہ دوسرا بڑا شدید سانحہ تها اگرچہ شاہ نواز و مرتضی کی شہادتوں نے به جهٹکے کم نہیں دیئے تهے لیکن سچی بات ہے کہ بهٹو صاحب کی جب پهانسی ہوئی تو بچہ تها اور اس وقت اداسی کی ایک فضا اور لوگوں کو کہیں روتے ، سر پیٹتے تو کہیں مٹهائیاں بٹتے دیکهی تهیں لیکن یہ منظر تو روح و دماغ کو هلادینے والا ، بے اختیار چیخیں نکلوادینے والا اور آنسووں کا نہ رکنے والا سلسلہ لانے والا تها ، میرا بس نہیں چلتا تها کہ میں اپنے سینے کی آگ میں سارے سماج کو جلاکر راکه کردینا چاہتا تها اور کئی ماہ تک نارمل نہیں ہوسکا تها

اب علی قائم ، علی نقی اور دیگر نوجوانوں کی ٹیم نے ایک ڈاکومنٹری تیار کی ہے جس میں ایک نظم ہے جو پڑهنے والا پڑهتا ہے اور ساته ساته مناظر چلتے ہیں اور جب میں نے یہ ڈاکومنڑی دیکهی تو یکلخت پرانی کیفیت عود کرآئی اور خود کو سنبهالنے میں کافی وقت لگا اور یہ مجهے بهی علی قائم نے ٹیگ کی تهی مگر ان کے کام کی داد دینے کا مجهے ہوش ہی کہاں رہا تها اور مجهے یقین ہے جنهوں نے اپنی قائد اور بہن بے نظیر بهٹو کے ساته جدوجہد میں ایک عرصہ بتایا تها ان سب کا یہی حال ہوا ہوگا
علی قائم نوجوان ہیں اور اس عمر میں اپنے کام کی داد پانے کا جذبہ کس میں نہیں ہوتا جبکہ ہم میں ہی حرص ابتک باقی ہے تبهی تو اپنی تحریر اپنے لفظ شناس دوستوں کو ٹیگ کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ منتظر تهے کہ میں اور عمار کاظمی اس پر کمنٹس دیتے ،

یقینی بات ہے کہ میرے لئے اور عمار کے لئے اعزازہے کہ نئی نسل کے جیالوں میں سے کچه لوگ ہمارے لکهے لفظوں کی قدر کرتے ہیں اور ہمارے سنکی پن کو اور جنون کو کچه اہمیت دیتے ہیں جس پر ان کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے ورنہ ہم تو پاکستانی سیاست کے قبرستان کے ویرانے میں مثل بهٹکی روح ہیں اور کوئی وقت جاتا ہے جب یہ وحشت اپنے انجام کو پہنچے گی اور قصہ تمام ہوجائے گا اور ہم بهی اپنے قائد اور اپنی بہن کے ساته ملاقات کررہے ہوں گے

میں نے علی قائم کو ان کی اتنی خوبصورت اور جامع تخلیقی کاوش پر جو داد دی وہ ایک طرح سے قرض اتارنے کی کوشش تهی اور اس دوران علی نقی نے بهی احمد شاملو کی ایک نظم شامل کردی اور پهر اختر حسین کی نظم شامل ہوئی اور اس ساری گفتگو کو سوچا ایک مربوط شکل میں اس ویڈیو کو شئیر کرتے ہوئے اپنے حلقہ دوستاں سے شئیر کرلوں

یہ هلادینے والی اور اور ایک غم و اندوہ کے بهانبڑ کو پهر سے مچانی والی ڈاکومنٹری ہے اور خاموشی اس لیے طاری ہوئی کہ ایک تو کل اور آج اپنے سنئیر پی پی پی کے انتہائی سرگرم جیالے کامریڈ خلیل کے گهر پر بیٹهے رہے اور بہت سے پرانے اور نئے ساتهی ان کے جانے کا غم بانٹنے میں لگے تهے اور ظاہر ہے ایسے میں دوران مجلس عزا پربا کرتے ہوئے شهید زوالفقار علی بهٹو ، شاہ نواز ، ادریس طوطی ، ایاز سموں ، زراق جهرنا ، مرتضی بهٹو ، بیگم نصرت بهٹو ، بے نظیر شهید ، نایاب صدیقی اور تاریک راہوں میں مارے جانے والے ان گنت شهیدوں زکر آیا سب کے مناقب و مصائب پڑهے گئے

آپ کی یہ وڈیو جب سے دیکهی بہت سے سارے منآظر آنکهوں میں گهوم گئے ، 5 اپریل انیس سو چهیاسی کو بے نظیر بهٹو کی جلاوطنی سے واپسی ، لیاری گراونڈ میں ان کی شادی کی تقریب ، 88ء کے انتخابی جلسے پهر 90ء سے 93 ء اور 97ء کی انتخابی مہم اور پنجاب سنده کی سرحد ہر اینٹی کالا باغ ڈیم دهرنے میں بی بی کی شرکت ، اور آخری بار ان کا کراچی میں استقبال ، لاڑکانہ میں انتخابی جلسے میں ان کی تقریر کی سماعت نہ کهپے نہ نہ کهپے ق لیگ نہ کهپےاورپهر میر پور خاص میں جلسے کے دوران بی بی کا نعرے لگانا گرتی ہوئی دیواروں کو ایک جهٹکا اور دو اور ایک نوجوان کو مخاطب کرکے کہنا بیٹا اتنی آواز میں تو دیواریں نہیں گرا کرتیں بی بی شهید نے میرپور کے جلسے میں طاہر ناریجو سمیت وہ بہت سے نام لئے جو ایم آرڈیکی تحریک میں میرپور خاص سے ہراول ستہ میں شامل تهےان کو آخری مرتبہ میں نے بہاول پور میں براہ راست دیکها تها

اور ہاں ان کو بہت قریب سے میں نے عاصمہ جہانگیر کے اور ججز کالونی اسلام آباد میں آخری مرتبہ دیکها تها مجهے وہی جذبہ نظر آیا جو میں نے نومبر 1992ء کے لانگ مارچ میں دیکها تها
My dear Ali Qaim first leader which i saw in my early political life as symbol
of democracy and with full devotion that was SMBB .اس میں پس پردہ جو آوازہے اس نے اور الفاظ میں جو

منظر تخلیق کئے گئے اس سے مناسبت رکهنے والے مناظر وڈیو میں جو دکهائے گئے اورغم کا ساز جو بیک گراونڈ میں ہے اس نے ایک اداسی اور غم کی فضا کو paint کردیا ہے اور یہ بے نظیرشناسی میں اور بهٹو ازم کی شناخت میں کیے جانے والے کاموں میں ایک بہترین اضافہ ہے ، علی نقی ، علی قائم اور باقی ساری ٹیم نے اچهی کاوش کی ہے اور اگر ادی نہج پر آپ اختر حسین جعفری کی بهٹو صاحب کی شہادت پر لکهی نظم

یااللہی مرگ یوسف کی خبر سچی نہ ہو
پر ایک وڈیو بنائیں تو بہت بہتر ہوگا…!!!!

اب نہیں ہوتیں دعائیں مستجاب
اب کسی ابجد سے زندانِ ستم کھلتے نہیں
سبز سجّادوں پہ بیٹھی بیبیوں نے
جس قدر حرفِ عبادت یاد تھے، پَو پھٹے تک انگلیوں پر گن لیے
اور دیکھا ___ رحل کے نیچے لہو ہے
شیشئہ محفوظ کی مٹی ہے سرخ

سطر ِ مستحکم کے اندر بست و در باقی نہیں
یاالٰہی مرگِ یوسف کی خبر سچی نہ ہو
ایلچی کیسے بلادِ مصر سے
سوئے کنعاں آئے ہیں
اِک جلوس ِ بے تماشا گلیوں بازاروں میں ہے
تعزیہ بردوش انبوِہ ہوا

روزنوں میں سر برہنہ مائیں جس سے مانگتی ہیں، منّتوں کا اجر،
خوابوں کی زکٰوۃ

سبز سجّادوں پہ بیٹھی بیبیو!
اب کسی ابجد سے زندانِ ستم کھلتے نہیں
اب سمیٹو مشک و عنبر، ڈھانپ دو لوح و قلم
اشک پونچھو اور ردائیں نوکِ پا تک کھینچ لو
کچّی آنکھوں سے جنازے دیکھنا اچھا نہیں..!!!

هيچ کجا هيچ زمان فرياد ِ زنده گي بي جواب نمانده است.
به صداهاي ِ دور گوش ميدهم از دور به صداي ِ من گوش مي دهند
من زنده ام
فرياد ِ من بي جواب نيست، قلب ِ خوب ِ تو جواب ِ فرياد ِ من است.

احمد شاملو
ہر زمان و مکان میں فریاد زندگی مستجاب رہی
میں دور افتادہ صداوں کا سامع رہا ہوں
تو میری صدا کی پرواز بهی کئی مسافتیں طے کرجاتی ہے
میں زندگی سے بهرپور ہوں تو میری صدا کا مستجاب ہونا لازم ٹهرا ہے
اور تمہارے قلب سے جو قوت لازوال کا ظہور ہوا ہے
یہ میری فریاد کا کرشمہ ہے

Comments

comments