تصویری نمائش اور مقابلہ کہانی نویسی – از عامر حسینی
posted by Shahram Ali | September 14, 2014 | In Original Articles, Urdu Articlesعمران خان ،ڈاکڑ طاہر القادری اور حامد رضا نے شیعہ نسل کشی پر بہت واضح موقف اختیار کیا اور ساته یہ وہ تصویریں جن میں شیعہ اور صوفی سنی نسل کشی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اب تک اگر آپ پاکستان کے اندر عقیدے اور مذهبی شناخت کی بنیاد پر قتل کیے جانے اور عبادت گاہوں ، مذهبی جلوسوں ، ریلیوں اور مقدس ایام کے دن کی تقریبات پر ہونے والی دہشت گردی کودکهانے والے مناظر پر مبنی تصویروں کو جمع کرکے ان کی نمائش کرنے کا پروگرام بنالیں تو اس ملک میں آپ کو پہلے تو قذافی اسٹیڈیم یا کراچی کرکٹ گراونڈ کا انتخاب کرنا پڑے اور اس میں جو سب سے لمبی اور طویل تصویری گیلری بنے گی وہ پاکستان کے محض شیعہ ہونے کی وجہ سے مارے جانے والے شیعہ ، ان لے مذهبی جلوسوں ، مجالس عزاء اور چہلم وغیرہ کے جلوسوں پر حملوں سے پیدا ہونے والی تباہی کی ہوگی
ایک اندازے کے مطابق 22 ہزار ٹارگٹ کلنگ میں ، خود کش بم دهماکوں میں مارے جانے والے مرد ،عورتوں ، بچوں اور بوڑهوں کی تصاویر ہوں گی اور اگر آپ نے یہ گیلری ان کے پروفیشن کے اعتبار سے بنائی تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کتنے زهین دماغ اور پروفیشنل مڈل کلاس جن میں ڈاکٹر اول نمبر پر پهر وکیل ، پهر صحافی ، پهر درمیانے اور چهوٹے درجے کے کاروباری لوگوں کی تصویریں سامنے آئیں گی
دوسری بڑی گیلری صوفی سنیوں کی بنے گی جن کے ایک اندازے کے مطابق دس ہزار لوگ صوفی سنی ہونے کی وجہ سے ماردئے گئے اور اگر آپ ان صوفی سنیوں کی پروفیشن کے حساب سے گیلری بنائیں گے تو سب سے طویل گیلری چهوٹے دکانداروں ، ریڑهی بانوں اور معمولی نچلی سطح کی انڈسٹریل لیبر کلاس سے ان کا تعلق ہوگا اور دوسری بڑی تعداد علماء و مشائخ کی ہوگی
تیسری بڑی لائن اس ملک کے کرسچن اور چوتهی گیلری احمدیوں کی اور پانچویں گیلری ہندوں کی بنے گی اور اگر آپ اپنے سیکولر لبرل خیالات کے باعث مارے جانے والوں کی تصویریں ایک گیلری میں رکهیں تو یہ بهی بہت طویل گیلری بنے گی
اب زرا اس تصویری نمائش میں اگر ان مارے جانے والوں کے کیسوں پر ہونے والی پیش رفت کی سمری بهی ساته لگادی جائے تو آپ ہو بہت آسانی سے معلوم ہوجائے گا کہ اس نسل کشی اور مذهبی پراسیکوشن اور کمیونٹیز کے کلچر کو برباد کرنے والوں کی شناخت اور بیک گراونش کیا ہے
آپ کو پتہ چلے گا کہ 99 فیصد کیسز میں دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکهنے والے تکفیری دہشت گرد اس کے زمہ دار ہیں
ایک اور طریقہ بهی ہے اس سارے عمل کے پیچهے لوگوں کی شناخت کرنے کا اور وہ یہ ہے کہ کرائسز منیجمنٹ سیل کی جانب سے کالعدم تنظیموں کی فہرست نکالیں آپ کو پتہ چل جائے گا کہ کونسے مکتبہ فکر کے تکفیری منظم دہشت گردی میں ملوث ہیں اور مارے جانے والوں کا تعلق کس مسلک سے ہے
ایک اور قسم کی تصویریں اس نمائش میں رکهی جانی چاہئیں اور وہ تصویرہں وفاقی اور چاروں صوبوں ، گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر سے مذهبی و فرقہ پرست بنیادوں پر مطلوب دہشت گردوں کی تصویریں یا خاکے ہوں اور ان کی مسلکی وابستگی کی سمری بهی موجود ہو تو معلوم ہوجائے گا کہ منظم دہش گردی اور انتہاپسندی کون پهیلارہا ہے اور اگر آپ اس میں مڈل ایسٹ کے مطلوب اور مارے جانے والے دہشت گردوں کا مسلکی بیک گراونڈ بهی دیکه لیں تو یہ سوال آسانی سے حل ہوجائے گا
لیکن کونسی آرٹ گیلری اس تصویری کہانی کو نمائش کے طور پر پیش کرنے کی ہمت کرے گی اور کیا آرٹ ، فنون لیطفہ کی دهائی دینے والے اس نمائش کا مطالبہ کریں گے؟اب میں آتا ہوں اپنے ادب کی طرف ، شیعہ نسل کشی ، صوفی سنیوں پر حملے اور اقلیتوں کے خلاف منظم دہشت گردی ان کے شیعہ ، صوفی سنی ، عیسائی ، ہندو ، احمدی ہونے کی بنا پر ہورہی ہے ، شناختی کارڈ پر نام دیکه کر مار دیا جاتا ہے ، شیعہ ہونا بہت بڑا جرم بنادیا گیا ہے ،یہ جو اتنا بڑا سماجی المیہ ہے جس میں شناخت کا ایک المیہ ہے تو دوسرا اس میں سماجی سٹیٹس کے پہلو ہیں کہ کیسے ڈاکٹرز اس سماج میں بےدردی سے مارے جارہے ہیں جہاں ڈاکٹر پہلے ہی کم ہیں تو اس نسل کسی سے ابهرنے والا جو شناخت اور برین ڈرینج اور اس پہلے برین کلنگ کا جو مظہر ہے اس پر ہمارے ہاں کتنے افسانے ، کہانیاں ،کتنی اپیک نظمیں لکهی گئی ہیں ؟
مجهے تو لے دیکر ایک ساجد رشید کا ، ایک حمید شاہد کا اور ان دونون سے بڑهکر کہیں زیادہ معاملے سے کنسرن افسانہ مسعود اشعر نے لکها کیا نام تها اس کا”ہمارا تو ادب اس معاملے میں ایسی زمین کی طرح ہوگیا ہے جہاں سالوں سے بارش نہ ہو اور لوگ ترس رہے ہوں بوند بوند کو پاکستانی پرنٹ میڈیا اور الیکڑانک میڈیا نے اس حوالے سے حساب برابر رکهنے کی کوشش کی ہے اور یہ بیماری ترقی پسندوں کے ہاں تقسیم ہند کے وقت ہونے والے فسادات پر افسانے ، کہانیاں لکهنے والوں کے ہاں در آئی تهی کہ پانچ ہندو اگر مرتے دکهائے تو پانچ مسلمان مرتے دکهاو ضرور تاکہ بیلنس رہے اور ایک منٹو تها جو اس سے بهاگ نکلا تها اور اس نے بہت جم کر حقیقت لکهی اور اپنے افسانوں کو اس حوالے سے امر کرڈالا تها
آج شیعہ و صوفی نسل کشی کے منظم دہشت گرد جتهے کی صاف شناخت کو نظر انداز کرکے اسے کمیونل اور فرقہ وارانہ تناظر میں دیکها جاتا ہے اور اسے چند ایک کمیونیٹز کی جو نسل کشی جاری ہے اس نسل کشی کو بطور حقیقی مقدمہ ماننے سے انکار اور حساب برابر کرکے چلنے پر اصرار ہوتا ہے اور جو اس فعل ناروا کی جانب اشارہ کرے بڑا گستاخ گردانا جاتا ہے