چاکلیٹ کے زمانے میں پرانا گُڑ – از عمار کاظمی

aa

چوہدری اعتزاز احسن جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نواز حکومت کے بخیے ادھیڑ رہے تھے تو یہ اُمید کی جا سکتی تھی کہ مسلم لیگ نواز کی طرف سے جلد یا بدیر اس کا جواب ضرور آءے گا۔ اعتزاز احسن نے اپنے خطاب میں تحریک انصاف کے دھاندلی کے موقف کی تاءید کے ساتھ نواز حکومت پر بد عنوانی کا الزام بھی لگایا تھا۔ چنانچہ شریف برادران نے چوہدری اعتزاز کے بھرپور ڈرامے کے جواب میں ایک تھیٹر چوہدری نثار کے ذریعے بھی لگا دیا۔

نواز لیگ کی طرف سے جواب آنا کوءی اچنبے کی بات نہیں تھی مگر ان حالات میں فوری ردعمل کی اُمید شاید اعتزاز احسن بھی نہ کر رہے ہونگے۔ بہر حال چوہدری نثار نے چوہدری اعتزاز کی تقریر کے جواب میں کہا کہ ۔ “میں جانتا ہوں کہ وہ کہاں سے بول رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے قبضہ گروپ کے سہولت کار اور نماءندے ہیں۔ میری نظر میں اعتزاز احسن جیسے شخص کی کوءی عزت نہیں۔ ہم ایل پی جی کوٹہ اسکینڈل سے بھی بخوبی واقف ہیں”۔

چوہدری نثار کے ردعمل پر زیر عتاب وزیر اعظم اور وزیر اعلی نے فوری طور پر اعتزاز احسن کو فون کر کے ان سے معذرت کر لی۔ یہاں تک تو یہ معاملہ ویسا ہی تھا جیسا کہ ہمارے پھول نگر کے رانا صاحبان [ رانا پھول خان مرحوم کی فیملی ] اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کرتے ہیں کہ پہلے انھیں کسی کمی، چیلے یا بچے سے جوتے پڑوا دیے اور بعد میں خود معافی مانگنے ان کے گھر پہنچ گءے۔ دو پیار بھرے تھپڑ اور چند گالیاں اپنے بندے کو دیں اور اس سے معافی منگوا کر معاملہ رفع دفعہ کروا دیا۔ مگر یہاں معاملہ کچھ مختلف ہے۔

دونوں طرف چودھراہٹ کے دعوے دار چوہدری ہیں۔ اور پھر آج جو اعتزاز احسن نے دوبارہ چوہدری نثار کو جواب دیا تو اب ایک نیا شور جیو اور کیپیٹل ٹی وی پر ایک نیا شور شروع ہو گیا ہے۔ ان دونوں نجی چینلز کی حکومت کے لیے جانبداری آزاد میڈیا کے حوالے سے کافی باعث شرم محسوس ہو رہی ہے۔ چوہدری نثار اور چوہدری اعتزاز کے درمیان موجودہ تنازع دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میاں صاحبان نے انپی بدلہ لینے والی انتقامی طبیعت اور مزاج کو بدلے بغیر پھول نگر کے رانا خاندان کا روایتی طریقہ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ موجودہ صوتحال میں یہ طریقہ کار اور ڈرامہ ان کے لیے آگے چل کر کافی مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ بہر حال طرفین کے ایک دوسرے کے لیے تحفظات اور الزامات کچھ زیادہ غلط بھی نہیں ہیں۔ اس لیے زیادہ امکان تو یہی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔

ڈی چوک میں بیٹھی عوام مستقبل کے انتخابات میں ان دونوں کے لیے ایک خوفناک حقیقت بن کر ابھرنے والی ہے۔ پارلیمان کے سر پر سوار جمہور کو دیکھ کر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ یہ سرمایہ دار، روایتی سیاست اور کالعدم تنظیموں کا اتحاد کمرشل میڈیا اور این جی اوز کے تمام تر تنخواہ دار سرویز کے باوجود مستقبل میں شدید خطرات سے دوچار ہے گا۔ سینیر تجزیہ نگار ہارون رشید جو چند مہینے پہلے تک عمران خان کے بڑے معتقد اور حکومت کے بڑے نقاد نظر آتے تھے چند روز پہلے ٹی وی پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوءے فرما رہے تھے کہ جتنے بریلوی تھے وہ طاہرالقادری کے ساتھ ہیں۔ پتا نہیں ہارون رشید کے اس کمزور تجزیے کو ان کا بغض کہا جاءے یا کچھ اور مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ اگر پاکستان میں موجود بریلوی اکثریت کی بات کی جاءے تو ڈی چوک والے شاید اس کا صفر اشاریہ ایک فیصد بھی نہیں ہیں۔ یقینا دھرنوں، جلسوں اور لانگ مارچز میں عوام یا ووٹر کی وہ شمولیت نظر نہیں آتی جو انتخابات کے روز دیکھی جاتی ہے۔

یہاں محض ان کے بہت قریبی رفقاء، ساتھی، نظریاتی کارکن اور عقیدت مند موجود ہیں۔ اب اگر ہارون رشید یا دوسرے تجزیہ نگار دھرنے میں شامل لوگوں کو ہی طاہرالقادری، حامد رضا اور مجلس وحدت المسلمین کی تمام سپورٹ سمجھ رہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ان کی تجزیہ نگاری کا یہ انداز بد دیانتی پر مبنی ہے۔ اگر ہارون رشید صرف گیارہویں شریف پر دودھ کے ناغے کو ہی ذہن میں رکھ لیتے تو انھیں بریلویوں کی اکثریت کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہو جاتا۔ باقی جب پاکستان کے تمام درباروں اور رجسٹرد غیر رجسٹرد پیر شامل کر لیے جاءیں تو وہ سب کے لیے شاید اکیلے ہی کافی ہوں۔ تاہم ڈاکٹر قادری کی اکثریت کے لیے اس بنیاد پر ضرور سوال اُٹھایا جا سکتا ہے کہ آج بھی مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی تحریک انصاف، ق لیگ وغیرہ میں بھی بہت سے بڑے گدی نشین شامل ہیں۔ اور ان کے علاوہ بھی ہر گلی، محلے، گاوں قصبے اور شہر کے علیحدہ علیحدہ پیر مرید ہیں۔ تاہم ریاستی نا انصافیوں ڈاکٹر قادری، صاحب زادہ حامد رضا اور مجلس وحدت المسلمین کے ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی وجہ سے اب ان کی پسماندگی بتدریج کم ہو رہی ہے۔ اولیا اللہ کے مزاروں پر حملے اور الیٹرانک میڈیا پر ان حملوں کی کوریج بھی ان کی بیداری کی وجہ بن رہی ہے۔

دوسری طرف لاہور کراچی اور بعض دیگر بڑے شہروں کو چھوڑ کر [ جہاں عمران خان کو مکس سپورٹ حاصل ہے ] پنجاب کے بعض دیہی علاقوں میں انھیں دیوبند وہابی بھی کافی بڑی تعداد میں ان کے ساتھ ہیں۔ اس کے علاوہ کے پی کے میں ان کے پاس بہت بڑا لبرل اور دیوبند ووٹ بیس ہے جو انھوں نے مولانا فضل الرحمن اور اے این پی سے چھینا ہے۔ غلام احمد بلور کی ضمنی انتخابات میں شاندار واپسی کے بعد اے این پی کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر مولانا شاید اپنا ووٹ کافی حد تک کھو چکے ہیں۔ عمران خان کے ووٹ بیس کا ایک اچھا حصہ دیو بند وہابی ہے جو طاہرالقادری اور عمران خان کے اتحاد کو آنے والے وقت میں روایتی سیاست کے خلاف بڑی کامیابی دلا سکتا ہے۔

اور شاید یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے اعتزاز احسن عمران خان کو سیاست کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ شاید انھیں روایتی سیاسی دکانداری ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ لیکن چوہدری صاحب اگر دکان میں بیچنے کے لیے نیا سامان نہیں ہوگا اور دکاندار باہر بیٹھا ہوگا تو گاہک بھی ایسی دکان پر کیوں کوءی آءءے گا؟ ایسی دکان میں چور تو آ سکتا ہے مگر گاہک نہیں۔ ویسے بھی چاکلیٹ کے زمانے میں آپ کا میو گُڑ [ پرانا گڑ جو بھینسوں کو کھلایا جاتا ہے ] کون کھاءے گا؟ پہلے ہی بہت سے نوجوان یہ پرانا گڑ کھا کھا کر بیمار ہوچکے ہیں۔ اگر دکان چلانی ہے تو معیاری، جدید سامان اور نءے سیلز مین رکھو۔ عمران خان کے پاس نءی دکان، نیا سامان اور نءے سیلز مین ہیں۔ آپکے پاس کیا ہے؟ باقی چوہدری صاحب جسے آپ پاکستان کی سیاست کے لیے خطرناک سمجھ رہے ہیں میری ناقص راءے میں وہ پاکستان کے مختلف مسالک، مذاہب اور قومیتوں کے درمیان ایک نیا عمرانی معاہدہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ یقین سے تو مستقبل کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا مگر،ابتدا، آثار اور اُٹھان دیکھ کر اچھے مکان کے امکان کی امید ضرور کی جا سکتی ہے۔ اب آپ ان دونوں کے اتحاد کو کسی کا سرپٹ کہیں یا دکان کے خلاف سازش مگر حقیقت تو یہی ہے کہ آپ کی پرانی کہانی سے لوگ اب بیزار ہو چکے ہیں۔

ان دنوں میڈیا پر ایک اور کمزور دلیل اور ناقص تجزیہ جو سننے کو ملتا ہے وہ این جی اوز اور کمرشل میڈیا چینل سرویز کی بنیاد پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اول تو یہ سرویز اس قابل نہیں ہوتے کہ ان پر اعتماد کیا جاءے۔ دوءم یہ کہ ان کا داءرہ بہت محدود ہوتا ہے۔ ان میں حصہ لینے والوں کی تعداد بیس پچیس ہزار افراد سے زیادہ نہیں ہوتی۔ تاہم اگر نیوز چینلز اور این جی اوز کے سرویز میں پیش کیے گءے اعداد و شمار درست مان لیے جاءیں تو بھی ان سرویز کے مطابق نواز لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان مقبولیت کے لحاظ سے اتنا بڑا فرق ہرگز نہیں ہے کہ جتنی بڑی سیاسی قیادت اس وقت نواز لیگ کو سپورٹ کر رہی ہے۔ کل جب یہ تمام جماعتیں یا ان مین سے کچھ جماعتیں اپنی علیحدہ حیثیت کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیں گی تو عمران خان اور طاہرالقادری کا اتحاد نواز لیگ سے یقینی طور پر آگے نکل جاءے گا۔

باقی وکیل چوہدری اور جی ایچ کیو کے پس منظر والے چوہدری کی لڑاءی میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے یہ دو ایک دن میں سامنے آ جاءے گا۔ مگر ٹی وی پر بیٹھے تجزیہ نگار دانشور حضرات سے گزارش ہے کہ بدر صاحب کی طرح “دانش وڑی کی تجڑبہ نگاڑی نہ کریں”۔ جو حقیقت نظر آ رہی ہے اور جو وہ دل اور دماغ سے سچاءی کے ساتھ محسوس کرتے ہیں وہی عوام تک پہنچاءیں۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر راءے سازی کی بجاءے حقیقت پسندی سے تجزیہ نگاری کریں۔

Comments

comments