نواز شریف کی نام نہاد جمہوریت پر ایک تبصرہ – از تنویر اختر
دو اڑهائی ماہ قبل لاہور میں صوبائی حکومت کی پولیس گردی کا شکار ہونے والے 14 سیاسی کارکنوں کے قتل کیس میں اپنے خلاف درج ایف آئی آر اور اپنے بهائی کی مرکزی حکومت کیلئے مہلت کے کسی معاہدے کے تحت قربانی کا بکرا بننے والا شہبازشریف جب اپنی سیٹ بچانے کی خاطر آرمی چیف کے منت ترلے کرنے جی ایچ کیو جا پہنچتا ہے تو یہ “ہوشیاری” ریاست پاکستان اور اس کی موجودہ سیاسی صورتحال کو کئی حوالوں سے عریاں کرتی نظر آئی ہے .. ایک طرف تو یہ اس “میثاق جمہوریت” کی دھجیاں اڑا رہی ہے، پیپلزپارٹی جس کے حوالے سے موجودہ “شہنشائی بندوبست” کی حفاظت کیلئے بے چین ہے جبکہ دوسری جانب ایک صوبائی وزیراعلی کی، کسی بهی بہانے، مسلح افواج کے سربراہ سے “غیر آئینی” یہ ملاقات اس غبارے سے بهی ہوا نکال دیتی ہے کہ اسلام آباد میں جاری دهرنوں کو کسی ریاستی ادارے کی خفیہ تائید حاصل ہے .
باقی رہا کسی “بین الاقوامی سازش” کا مقبول عام نظریہ، تو یاد کریں میں گذشتہ کئی ماہ سے کہتا چلا آرہا ہوں کہ عمراں خان کی اینٹی رگنگ موومنٹ کا ٹارگٹ دراصل الیکشن 2013 کے “انجینئرز” کو اس انڈرسٹینڈنگ کی یاد دہانی کرانا ہے کہ نواز شریف نامی بادشاہ سلامت کی مدت دسمبر 2014 میں ختم ہورہی ہے اور بین الاقوامی ضامنین، اگر واقعی ملوث ہیں، صرف یہی “تبدیلی” یقینی بنانا چاہتے ہیں .. اس تناظر میں میری رائے بہرحال حتمی ہے کہ کشمیری شہزادوں کی حکومت کو اگر جیو، جنرل شریف اور جاوید ہاشمی ابھی بچا لے بهی گئے تو یہ جنوری 2015 کا سورج کسی صورت نہیں دیکھ پائے گی، جس کے ساتھ ہی ان کی “تاجرانہ سیاست” کا سورج بهی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوتا دکھائی دے رہا ہے .واللہ عالم بالصواب
“ڈنڈا بردارشریعت قبول نہیں”، یہاں صرف خودکش بمبار جمہورت چلے گی ساجد میر . “سیاسی طالبان کے ساته سختی سے نمٹا جائے”، کیونکہ نتیجہ خیز مذاکرات صرف دہشت گرد طالبان کے ساته ہی ممکن ہیں .”دهرنوں سے مطالبات نہیں منوائے جاسکتے”، خودکش حملہ ہی ان مقاصد کے حصول کا موزوں ترین راستہ ہے”پروفیسر” صاحب اپنے طالبان نواز محسن کی بادشاہت بچانے کی کوشش میں سجائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ مجرے میں عظیم الشان “ٹهمکے” فرما رہے تھے .
بیگانی شادی میں “خورشید شاہ” دیوانا . شاہ جی، آپ کو پاگل کتے نے کاٹا تها کہ بهڑوں کے چهتے میں ہاتھ ڈال کر زبان دراز کینیڈین بابے کو بھٹو شہید اور بی بی شہید بارے بدزبانی پر اکسایا؟؟. آپ نے کبهی سنا تو ہوگا کہ “کسی کے جھوٹے خدا کو گالی مت دو، ورنہ جواب میں آپ کے سچے خدا کو گالی پڑ سکتی ہے”؟؟. محترم، یاد رکهیں کہ یہ جنگ سپریم کورٹ اور پی ٹی وی پر حملے کرنے والوں کے درمیان “آپسی” معاملہ ہے، آپ کے دل میں آخر سپریم کورٹ “فتح” کرنے اور پهر پوری ریاست خرید لینے والے عیار “بیوپاری” کیلئے اتنا درد یکدم کیوں سمٹ آیا ہے؟؟..
یارو موجودہ بدعنوان اور دھاندلی زدہ “نظام” کو بچانے کیلئے، نواز لیگی ارکان سے کہیں بڑھ کر اعتزاز احسن اور پھر سب سے زیادہ خورشید شاہ کی بے تابی دیکھ کر سچ پوچھئے تو میری یہ رائے پختہ تر ہوتی چلی جارہی ہے کہ پنجابی عدلیہ، پنجابی فوج اور ان کے پالتو دہشت گردوں اور انہی کے تراشیدے سیاست دانوں کی مشترکہ سازش کے ہاتھوں ذہین بھٹو و اس کی فطین بیٹی کے جسمانی خاتمے اور خود اپنے سابق 5 سالہ دور میں انہی قوتوں کے ہاتھوں شدید ترین ذہنی اذیت برداشت کرنے والے، سابق صدر آصف زرداری نے ملک کی اہم ترین وفاق پرست پارٹی کا پنجاب سے بستر بوریا فی الحال لپیٹ لینے کی صورت میں “بڑے بھائی” کو سزا دینے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔۔ اس تاثر کو تقویت بدترین دھاندلی کا بڑا شکار ہونے کے باوجود کسی قسم کے احتجاج سے پہلو تہی اور پھر اس صوبے میں سسکتی اس پارٹی کا شکنجہ منظور وٹو جیسے “پیر تسمہ پا” کے شکنجے میں مُسلسل دئے رکھنے کی ناقابل فہم پالیسی سے بھی ملتی ہے؟
کہتے ہیں جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے پارلیمانی پارٹیز کی “شرمناک” حمایت کے باوجود کبھی اپنے حلیف محمود اچکزئی سے فوج بارے ذومعنی جملہ بازی اور کبھی اپنے “بهونپو” حامد میر کے پروگرام میں سٹهیائے گئے “باغی” کے جھوٹے سچے حوالوں کی مدد سےخاکیوں کو حالیہ احتجاج کا پشت بناہ ثابت کرنے والی لڑکهڑاتی حکومت کے حامی ذرا یہ تو بتائیں کہ جو “نظام” فوج کی مدد کے بغیر پی ٹی وی عمارت تک کی حفاظت نہ کرسکے، اسے گرانے کیلئے خاکی پوشوں کے پاس اس کے سربراہ کی پارلیمان میں کذب بیانی کے بعد آخر مزید کس جواز کی حاجت باقی رہ جاتی ہے؟؟.میرا تجزیہ یہ ہے کہ اگر آئی ایس آئی واقعی اخلاقی و قانونی، ہر جواز سے محروم اس بدعنوان ٹولے کو گهر بھجوانا بهی چاہتی ہے تو جنرل راحیل شریف ہی اسے اب تک بچائے ہوئے ہیں، لیکن تابکے؟؟
ان کی باتوں میں مت آنا میاں صاحب، یقین مانئے ان میں سے کوئی بهی آپ کے ساتھ مخلص نہیں .. ان پر بهروسہ مت رکهئے .. محمود اچکزئی اپنے بهائی کی گورنری بچانے، فضل الرحمان حسب سابق ڈیزل کوٹہ قائم رکهنے، ایم کیو ایم عمران خان سے دشمنی نبھانے اور پیپلز پارٹی .. ہاں پی پی پی آپ سے پرانے حساب چکانے کے چکر میں آپ کو پهنسا رہی ہے … ایسا نہ ہو کہ پہلے کی طرح اس بار بهی آپ یہ پکارتے رہ جائیں کہ “مجهے کہتے تهے کہ قدم بڑهاو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں، میں نے قدم بڑهانے کے بعد پیچهے مڑ کر دیکھا تو دور دور تک کوئی نہ تها” … ہم نیک و بد حضور کو سمجھانے دیتے ہیں .. اگے تیرے پاگ لچهئے
بس اتنا کہا تها میری آنکه دیکھ سکتی ہے
کہ مجه پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا
چند ماہ قبل جب ہم نے “عیار لیگ” اور جنگ / جیو کی مشترکہ پروڈکشن “حامد میر ایپی سوڈ” کی حقیقت کو بے نقاب کیا تو بہت سے “جمہوریت پسند” دوستوں نے ہمارے خلاف آئی ایس آئی کے ہاتھوں بک جانے کے فتوے جاری کرنا شروع کر دیئے، لیکن وقت نے بالآخر ہمارے موقف کو درست ثابت کردیا .. بالکل اسی طرح “اب نہیں تو کب؟” کے اصول کے تحت جاتی عمرا کی “تاجرانہ شہنشاہیت” سے پیچھا چھڑانے کی حالیہ موو کے بنیادی مطالباٹ کی حمایت پر چند دوستوں کی طرف سےکسی “نئے پاکستان میں چھلانگ” کے طعنوں پر مجهے بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے .. گمان غالب ہے کہ اگر طالبان کی بدمعاشی اور عدلیہ کی دھاندلی کے زور پر ہم پر مسلط اس شاہی خاندان کو گهر بھیجنے کے موجودہ موقع سے فائدہ نہ اٹھایا جاسکا تو ہمیں اپنی آئندہ نسل کو کل شہنشاہ حمزہ شریف یا ملکہ مریم شریف کے کاروباری مفادات کی بھینٹ چڑھانے کیلئے تیار رہنا ہوگا کیونکہ ہمارا آئین ایسے غلط کاروں کو حکومت میں لانے کی گنجائش تو نکال لیتا ہے لیکن عدلیہ اور نیب سمیت تمام ریاستی اداروں کو خرید لینے میں ماہر ان کشمیری شہزادوں کے ” احتساب” کی صلاحیت سے بہرحال عاری ثابت ہوچکا ہے …
جاوید ہاشمی بابا، آپ کو نصف صدی کے سیاسی تجربے نے اتنا بهی نہیں سکھلایا کہ سیاسی معرکہ کے نازک ترین لمحاٹ میں پارٹی قیادت کے فیصلوں کے خلاف پریس کانفرنس کرنے کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں سمجها جائے گا کہ آپ فریق مخالف کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، خواہ یہ کسی مارشل لاء کے ڈراوے کیلئے کی جا رہی ہو یا پهر معصوموں کی مظلومیت کا رونا رونے کیلئے؟؟.. اس سے کہیں بہتر یہ تها کہ آپ پارٹی سے مستعفی ہونے پر مشتمل دوسطری بیان میڈیا کو جاری کرکے ایک طرف جا خاموش بیٹه رہتے ..
“جمہوریت” نامی چرس سے “بهرے” سگریٹ کا گہرا کش لگا نے کے بعد ناک سے “جمہوری” دھواں چهوڑتے ہوئے، بالکل جائز مطالبات کو لے کر پہلے 15 ماہ کی قانونی جنگ اور پهر 15 روزہ پر امن دھرنے کے بے نتیجہ ثابت ہونے کے بعد شاہی محلات کی جانب مارچ کو، ملک و قوم کی سلامتی کیلئے خطرہ اور دھاندلی کے ذریعے مسلط بادشاہ سلامت کے استعفے کے مطالبے کو غیرآئینی قرار دینے والے “جمہوری مجاہدین” سے استدعا یہ ہے کہ کهلی آنکهوں سب دیکھتے ہوئے بهی جاتی عمرا کی بدمعاش اور بدعنوان شہنشاہیت کو آپ کس منہ سے جمہوریت کا نام دئے جا رہے ہیں؟.. جی ہاں، گذشتہ 15 ماہ کی “بزنس گوورننس” اور گذشتہ 2 روز کے حالات کی روشنی میں، دل پر ہاته رکه کر یہ بهی بتاتے جائیے کہ کیا بدترین مارشل لاء بهی موجودہ فسطائیت زدہ نام نہاد جمہوریت سے بہتر نہیں رہے گا؟
اسلام آباد میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، بد ترین دھاندلی کے نتیجے میں ملک پر قابض ہونے کے بعد پارلیمنٹ میں دروغ گوئی اور 14 قتل کی ایف آئی آر کے باوجود مستعفی ہونے یا خود اپنے ساتھیوں کی تجویز کے باوجود رخصت پر نہ جانے والے مغل شاہزاروں کی ہٹ دهرمی کے سوا اس کی ذمہ داری بهلا اور کس پر ڈالی جا سکتی ہے؟؟.. خدارا، اب اس “جمہوریت” کی دہائی دینا مت شروع کر دیجئے گا، جس کے ساتھ گذشتہ 14 ماہ سے سرعام زنا بالجبر جاری ہے اور جس کا “سہولت کار” بهی شہنشاہ معظم کی پارلیمنٹ میں کذب بیانی اور ان کے نائب کی “افلاطونی تاویل بازی” کے بعد توبہ نائب ہوکر فی الوقت ایک خاموش تماشائی کی تصویر بنا بس صرف تماشا دیکھا کئے
دو اڑهائی ماہ قبل لاہور میں صوبائی حکومت کی پولیس گردی کا شکار ہونے والے 14 سیاسی کارکنوں کے قتل کیس میں اپنے خلاف درج ایف آئی آر اور اپنے بهائی کی مرکزی حکومت کیلئے مہلت کے کسی معاہدے کے تحت قربانی کا بکرا بننے والا شہبازشریف جب اپنی سیٹ بچانے کی خاطر آرمی چیف کے منت ترلے کرنے جی ایچ کیو جا پہنچتا ہے تو یہ “ہوشیاری” ریاست پاکستان اور اس کی موجودہ سیاسی صورتحال کو کئی حوالوں سے عریاں کرتی نظر آئی ہے .. ایک طرف تو یہ اس “میثاق جمہوریت” کی دھجیاں اڑا رہی ہے، پیپلزپارٹی جس کے حوالے سے موجودہ “شہنشائی بندوبست” کی حفاظت کیلئے بے چین ہے جبکہ دوسری جانب ایک صوبائی وزیراعلی کی، کسی بهی بہانے، مسلح افواج کے سربراہ سے “غیر آئینی” یہ ملاقات اس غبارے سے بهی ہوا نکال دیتی ہے کہ اسلام آباد میں جاری دهرنوں کو کسی ریاستی ادارے کی خفیہ تائید حاصل ہے .. باقی رہا کسی “بین الاقوامی سازش” کا مقبول عام نظریہ، تو یاد کریں میں گذشتہ کئی ماہ سے کہتا چلا آرہا ہوں کہ عمراں خان کی اینٹی رگنگ موومنٹ کا ٹارگٹ دراصل الیکشن 2013 کے “انجینئرز” کو اس انڈرسٹینڈنگ کی یاد دہانی کرانا ہے کہ نواز شریف نامی بادشاہ سلامت کی مدت دسمبر 2014 میں ختم ہورہی ہے اور بین الاقوامی ضامنین، اگر واقعی ملوث ہیں، صرف یہی “تبدیلی” یقینی بنانا چاہتے ہیں .. اس تناظر میں میری رائے بہرحال حتمی ہے کہ کشمیری شہزادوں کی حکومت کو اگر جیو، جنرل شریف اور جاوید ہاشمی ابھی بچا لے بهی گئے تو یہ جنوری 2015 کا سورج کسی صورت نہیں دیکھ پائے گی، جس کے ساتھ ہی ان کی “تاجرانہ سیاست” کا سورج بهی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوتا دکھائی دے رہا ہے
چینی صدر کا دورہ پاکستان اسی وقت ملتوی ہو گیا تها، جب نوازشریف نے پاک چین دوستی کے معمارثانی آصف زرداری کی طرف سے حالیہ سیاسی میچ میں “فرسٹ ایمپائر” بننے کی پیشکش ٹھکرا کر، 140 ملین ڈالرز کے بدلے دہشت گردوں سے خالی شمالی وزیرستان میں “ضرب عضب” کے پردے میں دراصل نئے امریکی وار پلان کی ریہرسل کرنے والے جرنیل کو براہ راست “تھرڈ ایمپائر” مقرر کر دیا تها .. یاد کریں، چند روز قبل شہبازشریف کی ہر قسمی ضمانت مسترد کرکے، چینی حکومت نے پاکستان میں اپنی نئی سرمایہ کاری کیلیے سابق صدر زرداری کو دورے کی دعوت دے کر جن یقین دہانیوں کی ان سے “ضمانت” طلب کی تهی، ان میں حالیہ سیاسی خلفشار سے بخوبی نمٹنے کے علاوہ پهر سے امریکی گود میں سمٹتی “پاک فوج” کی طرف سے مملکت کے سیاسی و اقتصادی امور میں “عدم مداخلت” کی گارنٹی بهی شامل تهی
کیا حالیہ سیاسی بحران کے دوران پیپلزپارٹی کی پالیسی کا منتہا چین سمیت بین الاقوامی برادری کو یہ پیغام دینا تها کہ جمہوریت اور نظام کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا یا طالبان کی بدمعاشی اور عدلیہ کی دهاندلی کے ذریعے مسلط کی گئی بادشاہت کو ہر قیمت پر بچانا مقصود تها؟؟. چودھری اعتزاز احسن اور سید خورشید شاہ جیسے لوگوں کی “شاہ سے زیادہ، شاہ سے وفاداری” دکهانے والی پهرتیوں کے جواب میں چودهری نثار اور اس سے پہلے شہبازشریف اور احسن اقبال نے پی پی پی کو جو آئینہ دکهایا، اس میں ہمیں اعتزاز احسن اور خورشید شاہ جیسوں کی وہ ننگی “فراست” جهانکتی نظر آتی ہے جس نے کبھی پارٹی، اس کی حکومت اور منتخب صدر کو انتشار چودھری جیسا “لاثانی تحفہ” عطا کیا تها جبکہ آج انہی “نابغوں” نے تیزی سے لڑکهڑاتی بادشاہت کو اپنی غیر ضروری جذباتی تقریروں کا سہارا دے کر خود اپنے ہی منہ پر خاک مل دی
جناب اعتزاز احسن اور قبلہ خورشید شاہ، آپ نے سنا تو ہوگا کہ “جو مکا موقع ہاته سے نکل جانے کے بعد یاد آئے، اسے خود اپنے منہ پر مار لینا چاہئے”؟.. جناب من، پارٹی نے آپ کو “سسٹم” ڈی ریل ہونے سے بچانے کی ذمہ داری سونپی تهی لیکن آپ دونوں حضرات رضا ربانی اور قمرالزماں کائرہ کی طرح غیرجانبداری کا تاثر قائم رکهنے کی بجائے سانپ کو ذاتی وفاداری کا دوده پلا پلا کر اس سے انسانیت کی توقع لگائے بیٹھے رہے؟؟.. اور پهر “افعی” اپنا کام نکلوانے کے بعد آپ کو “ماموں” بنا گیا .. اب آپ کے مقدر میں اس کے سنپولوں کی پهنکار پر جوابی کوسنے اور ان پر خود ہی تالیاں بچاتے رہنا باقی رہ گیا ہے .. یاد رکھیں، چودھری نثار نے آپ کے ساتھ جو کیا ٹھیک کیا، بیگانی شادی میں دیوانے بننے والے ہر “عبداللہ” کو آپ لوگوں سے عبرت پکڑنی چاہئے
حالیہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے مجهے کامل یقین ہے کہ دل کا جانا ٹهہر گیا ہے، صبج گیا یا شام گیا .. بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی؟؟.. افسوس البتہ صرف اس امر پر رہے گا کہ پی پی پی نے اپنے کارڈز غلط لوگوں کے ہاتھوں، غلط موقع پر اور انتہائی غلط طریقے سے کهیلے
Very informative article, nicely presented.Regarding the present political turmoil in the country , it seems that these ‘ Dharnas’ & ‘ azadi march’ are nothing but to delay the real , inevitable revolution of the labor class which has been suffering for too long.Their basic rights, their freedom & even their lives have been snatched away by these vultures , called the capitalists. I wonder how long can they resist the tide of real revolution which is going to rub them off from the face of this country for ever.It is only the economic system which has to be changed. All the other changes are pseudo- changes, only to misguide the poor labor class.Imran Khan & Qadri Sb. should rethink on their agenda.Any reform , in this rotten capitalist system, will only strengthen the status co which is capitalistic.