محمود اچکزئی، ملا فضل الرحمن – تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر میں نہیں مانتا – عامر حسینی
کس طرح چهوڑ دوں اسے واعظ
مشکلوں سے ملا ہے مئے خانہ
نواز شریف رجیم کو بچانے اور اس کی مدد کو آنے والوں میں ایک طرف تو تکفیری ایجنٹ ہیں جن کا سیاسی چہرہ میاں نواز شریف ہیں تو دوسری طرف اس رجیم کو بچانے کے لئے محمود اچکزئی ، مولوی فضلو اور حاصل بزنجو جیسے لوگ شاہ سے بهی زیادہ شاہ کے وفادار بنکر سامنے آئے ہیں ملا فضلو کے بارے میں تو مفتی محمود نے مولانا عبدالستار خان نیازی کے سامنے اعتراف کیا تها کہیہ ناہنجار میرا بیٹا ہے اور پیسے لیکر میری مخبری کرتا ہے
اور محمود خان اچکزئی اس باپ کا بیٹا ہے جس نے ساری زندگی یہ درس دیا تها کہ پختون قوم کی آزادی کے لئے آزاد پختونستان کا قیام ضروری ہے اور اگر کچه عرصے کے لئے پختون قوم کو بلوچ، سندهی ، پنجابی ، سرائیکیوں کے ساته رہنا بهی پڑے تو اس کے لئے ریاست کنفیڈریشن پر مبنی ہونی چاہئیے نہ کہ فیڈریشن پر اور یہی وجہ تهی کہ خان عبدالصمد اچکزئی نے 1973ء کے آئین کو تسلیم نہیں کیا تها اور اپنی شہادت تک وہ پختون قوم کے اتحاد ، آزاد مملکت ، سامراج دشمن سوشلسٹ نظریات کے داعی سیاست دان رہے اور اپنی قوم کو بیدار کرتے کرتے انہوں نے شہادت کا جام پیا اور میں ان کی خدمات پر ان کو سرخ سلام پیش کرتا ہوں
لیکن ان کے سیاسی جانشین محمود خان اچکزئی نے اپنے باپ کی نظریاتی سیاست اور ان کے پختون قوم پرستی کے انقلابی نظریات کو تیاگ دیا اور اس گندی پاور پالٹیکس کو قبول کرلیا جس سے عبدالصمد خان اچکزئی سخت نفرت کیا کرتے تهے اور یہ آج غریب لوگوں کو خانہ بدوش تک کہتے نظر آتے ہیں
میں محمود خان اچکزئی کی سیاست میں امریکی سامراجیت کی ایجنٹی کو بهی خاص طور پر کارفرمادیکهتا ہوں اور یہ پشتون قوم کی نسل کشی کے زمہ داروں کے ساته بهی اس لیے بیٹهے ہیں کہ ان کو اقتدار کی لت لگ گئی ہے اور یہ اس لت میں اندهے ہوگئے ہیں میں نے جب محمود خان اچکزئی کو بے نقاب کرنا شروع کیا تو محمد ہمایوں خان کاسی سمیت ان کے کئی ایک ممدوح میدان میں اترے ہیں اور ان کو مجه پر سخت غصہ ہے کہ میں نے ان کے ممدوح محمود خان اچکزئی کو موقعہ پرست ، دلال ، بے غیرت اوردیگر القاب سے کیوں نوازا ہے؟
اصل میں میرا سرمایہ الفاظ کم پڑگیا تها اور تاحال کوئی اس سے بهی زیادہ سخت لفظ میں تلاش نہ کرپایا جو اس محمود اچکزئی کے لئے استعمال کرپاتا ویسے جب جرمن کمیونسٹ کارل کاوتسکی سوشل شاونسٹ بن گئے تو لینن نے کاوتسکی کو “غدار کاوتسکی ” لکهنا شروع کردیا تها اور حمزہ علوی نے ” زرعی سوال “نامی کارل کاوتسکی کی معروف کتاب دوبارہ شایع کی تو اس کے دیباچے میں طنزیہ لکها کہ ایک عرصے تک وہ یہی سمجهتے رہے کہ غدار کاوتسکی ہی نام تها
تو میں برملا کہتا ہوں کہ بلوچ اور پختون قوم پرست سیاست کے وہ علمبردار جو آج میاں نواز شریف کے ساته شریک اقتدار ہیں وہ غدار پختون و غدار بلوچ ہیں اور اگر اس کو نیچے لیکر جائیں تو وہ غدار محمود اچکزئی و غدار حاصل بزنجو وغیرہ ہیں اور ان کا حقیقی ترقی پسند ، سامراج دشمن ، سوشلسٹ قوم پرستی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے
محمد ہمایوں کاسی ! محمود خان اچکزئی کے جس طرح لاکهوں حامی ہیں ، ویسی ہی حمایت نواز شریف کی بهی ہے اور میں ان جیسے عوام دشمن ، موقعہ پرستوں اور اپنے لوگوں کے مفادات کا سودا کرنے والوں کے لئے جو بهی کہوں کم ہے اور میں اپنے موقف پر قائم ہو ، یہ جب غریبوں ، افتادگان خاک کے لئے خانہ بدوش ، دہشت گرد ، فسادی اور دشمن جیسے الفاظ استعمال کرے گا تو اس کو جواب میں اسی طرح کی زبان میں جواب دیا جائے گا ،
یہ خود ملٹری اسٹبلشمنٹ اورپاکستان کی سرمایہ دار کلاس کے لئے افغانستان کی کٹه پتلی حکومت کے لوگوں سے جو سودے بازی کرتا ہے اور یہ امریکیوں سے جو یارانے بڑها چکا ہے اور اپنے ہاں بڑهتی ہوئی دیوبندی تکفیری دہشت گردی پر ابہام کے پردے تانے ہوئے اور آج تک اپنے علاقوں سے تو ان کو نکال نہیں سکا اور قومی اسمبلی میں کهڑے ہوکر وہی زبان بولتا ہے جو ملا فضل الرحمان بولتا ہے ، اچکزئی میں ہمت ہے تو لے کر آئے اپنے دہشت گردوں کو زرا ان مظاہرین میں سے کسی مرد و عورت کو هاته تو لگائے وہی هاته توڑ دیا جائے گا ، ہم نے کوئی چوڑیاں نہیں پہن رکهیں کہ سرکار و دربار سے وزراتوں ، ٹهیکوں اور سمگلنگ سے دولت کے انبار لگانے والے کرپٹ ، بدعنوان ، لٹیرے اپنے حقوق کی آواز اٹهانے والوں کو دهمکیاں دینا شروع کردیں
بزدل اچکزئی کمزوروں پر تو قومی اسمبلی میں چیخ چیخ کر آسمان اٹهائے ہوئے لیکن وہ بلوچستان کے اندر فوجی اسٹبلشمنٹ کی بلوچ کمزور اور بے کس لوگوں کے خلاف کاروائی پر ایک لفظ بهی نہیں بولتا ، بلوچ بیٹیاں اور مائیں جب پیدل مارچ کرکے اسلام آباد پہنچیں تهیں تو وہ جب اسلام آباد پریس کلب کے باہر بیٹهیں تهیں تو یہ کہاں تها ، اس نے آج تک ایک لفظ بهی قبائیلی ایجنیسیوں میں فوجی آپریشنوں میں متاثر ہونے پشتون خاندانوں کے بارے میں نہیں بولا ، جو دهمکیاں یہ نہتے مظاہرین کو دے رہا ہے وہ دهمکیاں زرا پشتون ، بلوچ ، سندهیوں کی نسل کشی میں ملوث هاتهوں والوں کو دے کر دیکهے ، زرا اپنے علاقوں میں دہشت گردی اور انتہاپسندی پهیلانے والے جے یو آئی کے دیوبندی ملاوں کو دے کر دیکهے ، ان سے تو گلے ملتا ہے اور ہنس ہنس کر باتیں کرتا ہے اس لئے کہ طبقاتی اشتراک ہے ،
اچکزئی کا نہ تو کوئی نظریہ ہے نہ ہی کوئی لائن سوائے مال بنانے اور ٹهیکے دار سرمایہ داری کو فروغ دینے کے ،بهٹو کو ایک فنتاسی میں نے نہیں بنایا اسے ایک مته میں اس کی پهانسی کے بعد سنده ، خیبر پختون خوا ، بلوچستان ، گلگت بلتستان ، پنجاب ، سرائیکستان کے کروڑوں عوام نے بدلا تها اور اس کو ایک دیومالائی روپ دیکر اپنی ساری آرزوں کو اس میں مجسم کرڈالا تها اور پهر جمہوریت ، سماجی و معاشی انصاف کی وہ تحریک ضیاء الحق کے خلاف چلائی تهی جب بہت سارے پختون ، سندهی قوم پرست بهٹو دشمنی میں اندهے ہوکر ضیاء الحق کی گود میں بیٹهے ہوئے تهے اور عوام کوڑے کهارہے تهے ، پهانسی چڑه رہے تهے اور جیلوں میں جارہے تهے اقر عوام بظاہر تو یہ سب بهٹو کے نام پر کررہے تهے لیکن لڑ اپنے لئے رہے تهے
میں عبدالصمد خان اچکزئی ، بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو ، نواب خیر بخش مری ، گل خان نصیر اور عطا شاد اور اس سے بهی پہلے میر یوسف علی مگسی وغیرہ کا انتہائی احترام اور ادب کرتا ہوں اور ان کے افکار سے بہت کچه سیکها بهی ہے اور ان کے جذبہ حریت و سامراج دشمنی کی قدر بهی کرتا ہوں اور ان کی اپنے عوام سے محبت پر ان کو سلام بهی کرتا ہوں مگر ان کے مقابلے میں محمود اچکزئی ، حاصل بزنجو ، ڈاکٹر مالک ، چنگیز خان مری اور ان جیسے دوسرے لوگ ننگ ملت افغانیان و بلوچ ہیں اور انہوں نے چند ٹکوں اور مراعات اور سکوں کے بدلے اپنی انقلابیت ، اپنی سامراج دشمنی ، اپنی عوام دوستی ، اپنا خالص نظریاتی ورثہ اور اپنے آباواجداد کی قربانیوں کو فروخت کرڈالا
یہ نیو لبرل اکنامی کے ایجنٹ بن گئے ، ملٹری اسٹبلشمنٹ کے لئے خود کو قابل قبول بنا ڈالا ، دائیں بازو کے ایک گندے سیاست دان نواز شریف کے اتحادی بن گئے ، انہوں نے بلوچستان پر ایف سی ، آرمی ، ایم آئی ، آئی ایس آئی کی یلغار برداشت کرلی ، بلوچستان کے اندر انہوں نے دیوبندی تکفیری گروپ سپاہ صحابہ کو اہلسنت والجماعت کے نام پر برداشت کرلیا ، جماعت دعوہ کے نیٹ ورک کو پهیلنے دیا اور کوئی مزاحمت اس سارے عمل کے خلاف نہ کی صرف بیانات اور وہ بهی آج کل بند ہیں
یہ کل تک موجودہ وفاقی ریاستی نظام کے اندر پشتون ، بلوچ کے حقوق کے حصول کو ناقابل عمل قرار دیتے تهے اور محمود اچکزئی جواب دے کہ ان کے والد نے تو 1973ء کے آئین کو ماننے سے انکار کیا تها اور وہ وفاق پر یقین نہیں رکهتے تهے اور بقول اس کاسی کے ان کو مارا بهی بهٹو نے تها تو یہ اچکزئی اس آئین کے تحت بننے والی اسمبلی میں بیٹه کر اسی آئین کی کاپی لہرا لہرا کر افتادگان خاک کو خانہ بدوش کیسے کہتا ہے اور اس وفاق اور آئین کے لئے اپنی جان تک دینے کی بات کیوں کرتا ہے ؟
کیا اس لئے کہ اس کے خاندان کے آٹه لوگ اس اقتدار اور نظام سے مستفید ہورہے ہیں اور یہ اقتدار کا سٹیک ہولڈر ہے؟
ہمایوں کاسی ! خان عبدالصمد اچکزئی کی شہادت پختون قوم کو آزاد ، باعزت ، معزز ، باوقار اور اس قوم میں طبقاتی تفریق کے خاتمے ، سامراج اور اس کے پٹهو حکمرانوں کو شکست دینے اور پختونستان میں سوشلسٹ نظام کے قیام کے لئے ہوئی تهی اور وہ اگر پنجابی ، بلوچ، سندهی ، سرائیکیوں کے ساته ملکر ایک وحدت میں رہنے پر راضی تها بهی تو ایک کنفیڈریشن میں نہ کہ ایک فیڈریشن میں تم عدیل بن احمد اور کئی ایک نوجوان بچوں کو اپنی جوانی کی اس کم بخت گمراہ کن محبت سے لوگوں کو گمراہ نہیں کرسکتے
جس وقت 70ء کے انتخابات ہوئے تو پاکستان کی ملٹری اور اور سندهی ، پنجابی ، سرائیکی فیوڈل ، پختون خوانین اور بلوچ سردار اور ان اقوام کی پیٹی بورژوا پرتیں شیخ مجیب الرحمان کی عددی اکثریت سے اس لیے خوفزدہ ہوئیں کہ اس کے چهے نکات کے بعد مغربی پاکستان کی بورژوازی ، ملٹری ، پیٹی بورژوازی ، ملا ، جاگیرداری ، سرداری قبائلی اشراف کی مراعات بند ہوجاتی اور اس کا سارا بوجه اور زمہ محض بهٹو کے کندهوں پر ڈالنا درست نہیں ہے اور تم کہتے ہو کہ عمران خان کو اس ملک کے باقی رہنے یا نہ رہنے کی کیا پروا؟
اگر تم عبدالصمد خان اچکزئی کے پیرو ہو تو تمہیں یہ وفاق پرست نعرے زیب نہیں دیتے کیونکہ زرا ہاں نیچے عبداصمد اچکزئی کی تقریروں اور چند ایک تحریروں کے اقتباسات تو نیچے درج کردو تاکہ نئی نسل کو پتہ تو چلے کہ جنوبی پشتون خوا کا بابائے قوم کہاں کهڑا تها اور اس کا بیٹا کہاں کهڑا ہے میں آخری جملے لکه کر ختم کرتا ہوں کہموجودہ سیاسی نظام بهی تو اس ملک کی عسکری و سیاسی قوتوں کے مابین ایک سمجهوتے کا نتیجہ ہے جس میں سب اپنا حصہ وصول کررہے ہیں اور اس نظام کے اپنے اندر بهی تضاد ہیں جوباہمی لڑائی کی صورت ظاہر ہورہے ہیں
اور اس نظام خا مجموعی طور ہر اس ملک کے پیٹی بورژوازی ، لمپن اور ورکنگ کلاس ، کسان طبقات سے واضح تضاد اور لڑائی بنتی ہے کیونکہ یہ ان کو کچهہبهی ڈیلیور نہیں کررہا اور اسی لئے وہ اس سارے نظام کو تہس نہس کرنے کے خواہاں ہیں جبکہ ان کے درمیان عمران خان و طاہرالقادری جیسے لوگ ہیں جو حکمران اشرافیہ کو ریپلیس اس وعدے پر کررہے ہیں کہ وہ پولیٹیکل رجیم گراکر پرانی عدلیہ و ہرانی نوکر شاہی میں اصلاح کر کے افتادگان خاک کی محرومی ختم کرسکتے ہیںجبکہ محمود اچکزئی ، مولوی فضل الرحمان جیسے پولیٹکل رجیم کو باقی رکهنے کے لئے آئینی جمہوری راستہ جیسے نعرے اس لیے بلند کررہے ہیں کہ اس سے ان کو فوائد مل رہے ہیں اور یہ سوائے موقعہ پرستی کے اور کچه بهی نہیں ہے
PMLN Attacked on Prime Minister House – Where… by voicepk
What Is Difference Between Imran Khan And Status Quo Parties? – Hasan Nisar http://fb.me/1sYIyuf3B