ایوان صدر، پارلیمنٹ کا تقدس اور دھرنے، احتجاج و حملوں کی کہانی – از خرم زکی
پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنوں کا کیا اعلان کیا کہ پورے ملک میں نواز شریف کی مغلیہ سلطنت کے حواریوں، اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے حامیوں، دیسی لبرلز اور تکفیری خوارج نے پورے ملک کے طول و عرض میں عدم تشدد پر مبنی طریقہ احتجاج پر ایک بحث کا سلسلہ شروع کر دیا. جب نواز شریف سے لے کر جماعت اسلامی تک کو یاد دلایا گیا کہ جناب احتجاج، دھرنوں اور لانگ مارچ کے ذریعہ حکومتوں کو گرانے کی ریت کوئی نئی نہیں بلکہ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں ماضی بعید سے لے کر ماضی قریب میں ان تمام “جرائم” کی مرتکب ہو چکی ہیں
بلکہ فوجی مداخلت و حمایت اور سول نا فرمانی کا طریقۂ کار بھی اپنا چکی ہیں تو پھر جناب ایک آخری حربہ و دلیل یہ پیش کی گئی کہ ٹھیک ہے جناب احتجاج تو جمہوری حق ہے لیکن ایوان صدر پر حملہ، ریڈ لائن اور حفاظتی رکاوٹوں کو توڑنا تو ایک جرم ہے جس پر قانون ضرور حرکت میں آۓ گا اور اس مقصد کے لیۓ حکومت وقت نے پہلے ہی فوج کو آرٹیکل ٢٤٥ کے تحت بلا رکھا تھا. وزیر داخلہ چودھری نثار نے ایوان صدر، پارلیمنٹ ہاؤس کے تقدس پر لمبی لمبی تقریریں کی، خواتین بچوں کو اگلی صفوں میں رکھنے پر ہیومن شیلڈ بنانے کی پرانی گھسی پٹی اسرائیلی اسکرپٹ بھی سنائی گئی
اور آخر کار محض ایوان صدر و کیبنٹ ڈویژن کی طرف دھرنا دینے کے لیۓ بڑھنے پر کتنے ہی افراد کو قتل اور ٥٠٠ سے اپر افراد کو زخمی کر دیا گیا تو میں نے سوچا کہ اس مغلیہ سلطنت کے وزیر داخلہ کو اس کا اپنا بھیانک اور مکروہ چہرہ دکھایا جاۓ. یہ کہانی کوئی بیسیوں سال پرانی نہیں بلکہ محض دو سال پہلے کی بات ہے جب صدر آصف علی زرداری کے دور میں خود اس چودھری نثار کی قیادت میں مسلم لیگی کارکنان و خواتین نے ایوان صدر کے باہر دھرنا بھی دیا تھا، رکاوٹیں بھی توڑی تھیں اور ایوان صدر کے گیٹ پر بھی حملہ کیا تھا. اور یہ سب کرنے کے بعد اسی چودھری نثار نے جو تقریر کی تھی اس کے الفاظ یہ تھے
“آج ہم نے یہاں تک پہنچنے کے لیۓ دو چیک پوسٹس کو توڑا ہے، تو سوچ لو کہ اگر نواز شریف نے پوری قوم کو احتجاج کی کال دی ہوتی تو کیا نتیجہ نکلتا. صدر اور وزیر اعظم کو قانون، عدلیہ اور اس ملک کے عوام کا احترام کرنا چاہیۓ، ورنہ صدر اور وزیر اعظم کو یاد رکھنا چاہیۓ کہ آج تو ہم نے صرف دو چیک پوسٹس توڑی ہیں کل کو ہم ایوان صدر کے دروازے بھی توڑ سکتے ہیں. کچھ لوگ ہمیں مشورہ دے رہے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ میں آواز اٹھائیں لیکن ہم پارلیمنٹ میں آواز اٹھا کر دیکھ چکے اور اب قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں جگہ آواز اٹھائی جاۓ گی اور احتجاج کیا جاۓ گا
سعودی پٹھو نواز شریف کی مغلیہ سلطنت کے حامی، سرکاری جیو ٹی وی کے لفافہ صحافی، دیسی لبرلز، تکفیری خارجی دہشتگرد، مولوی ڈیزل اور ان کے ہمنوا، ذرا یہ تصویر ملاحظہ فرمائیں، چودھری نثار کے الفاظ پر غور فرمائیں اور بتائیں کہ کیوں نہ چودھری نثار کو، جو آج وزیر داخلہ بنا بیٹھا ہے، ایوان صدر پر حملہ کرنے جرم میں گولی مار دی جاۓ ؟ یا یہ کہ ایوان صدر سے لے کر سپریم کورٹ پر حملہ کرنا صرف مسلم لیگیوں اور ان کے گلو بٹوں کا استحقاق ہے ؟
چودھری نثار کو تو یہ حق ہے کہ ٹھیک ایوان صدر کے باہر دھرنا دے اور اس کے گیٹ کو زبردستی پھلانگنے کی کوشش کرے لیکن اگر یہی کام عمران خان، طاہر القادری اور ان کے کارکن کریں تو گولیاں کھائیں ؟ کیا بتانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ گلو بٹ ہمیں ؟ کیا ان کے علاوہ باقی تمام پاکستانی دوسرے نمبر کے شہری ہیں ؟ یہ کریں تو حلال، ہم کریں تو حرام ہے ؟ یہ کون سی جمہوریت ہے، کون سا آئین ہے،
کون سا قانون ہے جو چودھری نثار کو تو ایوان صدر پر حملے کی، دھرنے کی اجازت دیتا ہے اور کوئی عظمیٰ اور عالیہ اس پر از خود نوٹس نہیں لیتی لیکن اگر یہی کام ان زر خرید ججوں کے آقاؤں کے خلاف ہو تو ان کو آگ لگنے لگتی ہے، آئین اور قانون یاد آنے لگتا ہے ؟ کوئی بتاۓ کہ یہ مسلم لیگیوں کو کیسے ایوان صدر کے گیٹ تک جانے کی اجازت کیسے مل گئی ؟ کیا سارے حقوق گلو بٹوں کے نام کروا دیۓ گئے ہیں ؟ واضح ہے کہ یہ مغلیہ سلطنت اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھتی ہے اور ملک کے دیگر عوام کو اپنا غلام و باندی تصور کرتی ہے. لیکن
~ ایسے دستور کو، صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا