عمران خان اور طاہر القادری کے پر امن کارکنوں کے خلاف نواز شریف حکومت کا بد ترین ریاستی تشدد – عامر حسینی
اس وقت اتوار اکتیس اگست، رات کے ڈھائی بج رہے ہیں اور میں اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر جاری ہنگامے کو مسلسل مانیٹر کررہا ہوں- گزشتہ شب نو بجے سے پولیس پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے نہتے مظاہرین عورتوں، مردوں اور بچوں پر شیلنگ ، ربڑ کی گولیاں اور اصلی گولیاں چلا رہی ہے اور تین سو سے زائد مظاہرین زحمی ہوئے ہیں جن میں رفیع اللہ نامی ایک چوبیس سالہ نوجوان کے دماغ میں گولی لگی ہے اور ایک اور شخص کے پیٹ میں گولی لگی ہے اور ان دو افراد کی حالت شدید نازک ہے اور دونوں کی موت واقع ہوسکتی ہے – اے آر وائی نیوز چینل کے مطابق چند افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاع بھی ہے
تمام ٹی وی چینلز کے رپورٹرز نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پولیس نے مظاہرین کے پرامن ہونے کے باوجود لانگ رینج اور شارٹ رینج آنسو گیس کے شیل اور ربڑ کی گولیاں فائر کرنا شروع کردیں اور اس دوران مردوں ، عورتوں اور بچوں میں کوئی تمیز نہیں کی گئی
پولیس نے عمران خان اور طاہر القادری کے کینٹنر اور گاڑی پر بھی سیدھے شیل فائر کئے اور بزرگ سیاسی رہنما چوہدری شجاعت بھی آنسو گیس کی شیلنگ کا شکار ہوکر نازک حالت میں ہسپتال میں پہنچے ہیں
سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا شدید شیلنگ کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے ہیں، معروف گلوکار ابرار الحق بھی بے ہوش ہو کر ہسپتال میں داخل ہیں جبکہ عمران خان کے کنٹینر پر شدید شیلنگ جاری ہے – سید ناصر عباس شیرازی مرکزی سیکرٹری امور سیاسیات ایم ڈبلیو ایم پاکستان شیل لگنے سے زخمی ہوئے ہیں – جیو ٹیلی ویژن اور کچھ دوسرے چینلز پر دیوبندی مولوی طاہر اشرفی، مفتی نعیم، کمرشل لبرلز، کچھ پشتون دیوبندی رہنما اور مسلم لیگ نواز کے طبلہ ساز سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ لاہور سے کراچی اور پشاور سے فیصل آباد تک جگہ جگہ تحریک انصاف، عوامی تحریک، مجلس وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل کے کارکن غم و غصے کی حالت میں گو نواز گو کے نعرے بلند کرتے ہوۓ سڑکوں پر آ چکے ہیں
ابھی کچھ دیر قبل ٹیلی ویژن پر ایک ایک ویڈیورپورٹ دیکھی جب چوہدری نثار پولیس کا معائنہ کرنے کیلئے ریڈزون پہنچے تو وہاں عام پولیس اہلکاران دوڑ دوڑ کر اس سے ہاتھ ملا رہے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں – ایک عام پروفیشنل پولیس اہلکار کے لیے ایسی رسائی ممکن نہیں کہ ایک عام پولیس اہلکار اس طرح وزیر داخلہ سے ہاتھ ملائے یا ان کے نعرے مارے ایسا لگتا ہے کہ پولیس کے پردے میں نون لیگ نے گلوبٹ اور سپاہ صحابہ کے دہشت گرد بھرتی کیے ہوۓ ہیں
لاہور میں نواز شریف کے لیے 1100 پولیس والے حفاظت پر مامور ہیں، ابھی مزید پولیس دستوں کو رائیونڈ پہنچنے کی ہدایت کر دی گئی ہے – تخت لاہور بری طرح لرزاں ہے
پولیس کے اہلکار اس موقعہ پر انتہائی فحش اور ننگی گالیاں دیتے نظر آئے اور پولیس کی وردیوں میں لوگ انتہائی غیر پروفیشنل انداز میں نظر آئے – نواز حکو مت کے وزیر داخلہ نہتے مظاہرین پر پولیس تشدد کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں اور وزیراعظم نواز شریف کے احکامات کی روشنی میں پولیس کو بربریت کی تلقین کر رہے ہیں – پولیس اہلکار چودھری نثار زندہ باد اور نواز شریف زندہ باد کے نعرے لگا کر پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں پر شدید تشدد کر رہے ہیں
ایک طرف اسلام آباد میں سینکڑوں لوگ زخمی ہیں تو دوسری طرف پنجاب بھر میں پولیس پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکنوں کے گھروں ميں چھاپے ماررہی ہے اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں ، چادر اور چاردیواری کی پامالی کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے
یہ بنیادی طور پر ریاستی بربریت اور انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزی ہے جس کی کسی بھی طرح سے حمائت نہیں کی جاسکتی اور یہ کسی بھی جمہوری اور منتخب حکومت کا طریقہ کار نہیں ہوتا
میاں نواز شریف اور ان کے حواریوں نے ریاستی بربریت اور تشدد کی بدترین مثال پیش کرکے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا ہے کہ ان کے ںزدیک نہ تو جمہوریت کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی اس کے نزدیک انسانی حقوق کی کوئی عزت اور احترام نہیں ہے
میاں محمد نواز شریف کا جو ٹریک ریکارڑ ہے وہ اس بات کی نشاندھی کرتا آیا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی سیاسی احتجاج اور اور پرامن مظاہرین کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا – 1988ء میں نواز شریف جب پنجاب کے چیف منسٹر تھے تو انھوں نے پنجاب کے اندر اپنی واحد اپوزیشن پی پی پی کے کارکنوں کے خلاف سیاسی بنیادوں پر پرچے دینے کی تاریخ کو مات کردیا ، پنجاب میں حزب اختلاف کے لیڈر سلمان تاثیر شہید کو گرفتار کرکے تھانہ سـبزہ زار لیجایا گیا اور ان کو وہاں الٹا لٹکا کر مارا گیا اور پورے پنجاب میں پی پی پی کے کارکنوں کے خلاف تھانوں میں مقدمات قائم کئے اور اس دوران کسی جگہ بھی نواز شریف کے اقتدار کو چیلنج کیا اور ان کے مظالم کے خلاف احتجاج کیا تو اس کو زبردست ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا گیا
میں 90ء کی دھائی میں خود بھی پنجاب میں نواز شریف کی جابرانہ اور آمرانہ طرز حکومت کی آنچ سے متاثر ہوتا رہا اور پھر 93ء میں میں نے بے ںظیر بھٹو کے لانگ مارچ میں پارلیمنٹ کے سامنے پولیس کے نہ صرف وحشیانہ تشدد کا نظارہ کیا بلکہ خود بھی اس کا نشانہ بنا ، میرا بون کالر بھی ٹوٹ گیا اور اس دوران پنجاب پولیس نے خواتین کو بھی انتہائی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کو انتہائی غلیظ گالیاں دی گئیں اور ویسے تو نواز شریف کے جومیڈیا مینجرز تھے وہ اخلاقیات کا بے نظیر بھٹو شہید کے معاملے میں بھی کوئی خیال نہیں کرتے تھے لیکن خواتین کارکنوں کے ساتھ جو سلوک نواز شریف کی حکومتیں کرتی رہیں اس کی مثال میں نے مشرف دور میں بھی نہیں دیکھی تھی
اس کے بعد 97ء سے لیکر 99ء تک بھی نواز شریف نے سیاسی مخالفین کے ساتھ بہت برا سلوک کیا اور جب 2008ء میں پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت بنی تو 5 سالوں کے دوران چاہے سیاسی احتجاج تھا یا مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں نے احتجاج کیا ان کے خلاف پنجاب پولیس ضرور استعمال کی گئی اور اب 2013 کے دھاندلی زدہ الیکشن کے بعد 17 جون 2014ء میں سانحہ ماڈل ٹاؤن سے لیکر اب دھرنے کے شرکاء کے خلاف ریاستی تشدد کی نئی مثالیں قائم کی گئیں ہیں
ریاستی تشدد اور بربریت کی مذمت کے معالے میں جب میں سول سوسائٹی کے بعض سیکشنز کو دیکھتا ہوں تو وہ بھی بے نقاب ہوئے ہیں میں نے انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی رہنماء عاصمہ جہانگیر کو دیکھا کہ وہ نجم سیٹھی کے ساتھ اپنی ذاتی دوستی میں اندھی ہو کر نواز حکومت کے ریاستی تشدد اور انسانی حقوق کی پامالی کی مذمت کرنے کی بجائے سارا زور عمران خان اور قادری کی مخالفت پر مصر تھیں اور انھوں نے بالواسطہ طور دھرنے میں شریک تمام شرکاء کو مذھبی جنونی اور انتہا پسند قرار دینے کی کوشش کی جبکہ انسانی حقوق کی پامالی اور ریاستی تشدد پر ایک لفظ بھی نہیں بولا اور انھوں نے ہزاروں لوگوں کو فوج کا ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کی اور غلط طور پر پرامن اور معصوم لوگوں کو عسکری اسٹبلشمنٹ کی پراکسی اور آلہ بتلانے کی کوشش بھی کی جو کہ قابل مذمت کوشش ہے
اصل میں جب سے یہ سیاسی بحران شروع ہوا بہت سے کمرشل لبرلز اور جعلی سول سوسائٹی اور نام نہاد سرخوں نے نواز شریف کے کرونی کیپٹلزم پر مبنی خاندانی اقتدار کو جمہوریت اور ان کی سیاست کو اینٹی اسٹبلشمنٹ بتانے کی کوشش کی ہے اور نواز شریف کو اینٹی اسٹبلشمنٹ بناکر دکھانے کی سعی بھی کی – اب مجھے نہیں معلوم کہ جس طرح سے صحافیوں میں ڈھائی ارب تقسیم کرنے کی خبریں جو آئی ہیں ان میں کتنی صداقت ہے اور یہ جو وکلاء میں بعض حلقوں کو پیسے بانٹنے کا جو الزام لگا اس میں کہاں تک صداقت ہے لیکن اتنا جانتا ہوں کہ نواز شریف قیمت لگانے کے کلچر کو پھیلانے کا موجد ہے
نواز شریف کی حکومت آج 31 اگست کو تین سو زائد لوگوں بشمول 12 بچوں اور 58 خواتین کو ریاستی تشدد کرکے زخمی کرچکی ہے جو اس حکومت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے
نوٹ: میں نے فیس بک پر سب سے پہلے یہ سٹیٹس اپ ڈیٹ کیا
عاصمہ جہانگیر جیسی عورت بے نقاب ہوگئی ہے اور ریاستی تشدد کی مزمت کرنے کی بجائے سارا زور عمران خان اور طاہر القادری کے خلاف لگارہی ہیں اور دوسری طرف طاہر اشرفی اور مولوی فضل الرحمان اپنی فرقہ پرستانہ گندی ذهنیت کا اظہار بار بار کررہے ہیں
تیسری طرف نواز شریف 19 بکسوں ، باورچیوں ، خانسماوں کے ساته رائے ونڈ محل منتقل ہوگئے اور وہاں بیٹه کر عوام پر بدترین ریاستی تشدد کا مظاہرہ کیا جارہا ہے
لبرل فاشسٹ ، دیوبندی تکفیری اور نازو اینڈ کمپنی کا اتحاد پاکستان میں کرونی کیپٹلزم کی محافظ نام نہاد جمہوریت کا بهی بیڑاغرق کرگیا ہے
ہم نے بہت پہلے لکها تها کہ پاکستان کی سول سوسائٹی فیک ہے ، یہاں کے نام نہاد جمہوریت پسند بهی جعلی ہیں ، انسانی حقوق کمیشن کی عاصمہ جہانگیر سمیت بہت سے لوگ نواز شریف کے هاتهوں بک گئے ہیں
ریاست کے نام پر عام لوگوں پر تشدد ہی نہیں بلکہ عام آدمیوں کو سرے سے ماردینے کی باتیں وہ کررہے ہیں جو خود کو انسانی حقوق کے چمپئین کہتے ہیں
میں نے اسقدر تشدد اور اسقدر بے رحمی کا اس قدر گندی میلاپ جس میں نام نہاد جمہوریت اور سیکولر لوگ بهی شامل ہیں ،اس طرح تو ایم آر ڈی کی تحریک میں بهی نہیں تها
تو اس پر امر سدھو ، فاطمہ احسان نے یہ تبصرہ کیا جو کہ میرے لئے کچھ حیرانی اور صدمے کا سبب بنا کیونکہ یہ تبصرہ کمرشل لبرلز اور بکے ہوئے صحافیوں اور تکفیری انتہا پسندوں کے ساتھ اتحاد بنائے ہوئے لبرل فاشسٹوں کے موقف جیسا تھا
میں اختلاف رائے کا احترام کرتا ہوں آپ کو حق ہے کسی کے بهی ساته کهڑے ہونے کا ، عاصمہ جہانگیر کا تو مجهے پتہ تها کہ وہ پاکستان کی کارپوریٹ سرمایہ دارانہ اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرنے والی ریاست اور اس کی کرونی کیپٹلسٹ ڈیموکریسی کی حمایت کرنے والی ہیں لیکن اپنے کچھ دوستوں کو میں مارکسسٹ خیال کرتا تها جو ریاست کو بچانے یا ریاست کی رٹ جیسے ایشوز سے کوئی دلچسپی نہیں رکهتی ہوگی اور جو ہر حال میں ریاستی تشدد کی مخالفت کرے گی ، لیکن چلیں آج آپ نے واضع کردیا کہ آپ کو لوگوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ، اور ان پر ریاستی تشدد کی پرواہ نہیں بلکہ ریاست کی نام نہاد رٹ کی فکر ہے ، آپ کو حق ہے جو چاہیں کہہ ڈالیں
ویسے ابهی جب میں یہ سطور لکه رہا ہوں کہ دنیا نیوز ٹی وی چینل کا بمائیندہ عیسی نقوی بتارہا ہے کہ پولیس نے پہلے لوگوں کو کنٹنیر کے دوسری جانب آنے دیا گیا پهر ان پر زبردست شیلنگ بنا کسی اشتعال کے کی گئی ، پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کرنا تو سرمایہ داروں کی جمہوریت میں بهی ریاست پر حملہ خیال نہیں کیا جاتا ،
، میں عمران خان اور طاہر القادری کے موقف کے کلی طور پر غلط یا درست ہونے کی بات نہیں کررہا ، میں حکومتی تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی مذمت کررہا ہوں اور یہ حامد میر، طلعت حسین، انصار عباسی، مجیب الرحمن شامی، عمر چیمہ سمیت بہت سے صحافی تهے جو بار بار ریاست کو احتجاجیوں کو کچلنے کا مطالبہ کررہے تهے ، ان کو دہشت گرد قرار دے رہے تهےاور کالعدم تنظیموں کے لوگوں کو اپنے پروگرام میں بلاکر ان سے کہلوا رہے تهے کہ دهرنے دینے والے فرقہ پرست ہیں ، مذهبی جنونی ہیں ، میں اس مقدمے کو غلط کہتا ہوں ، اور ا ب اسی مقدمے کی روشنی میں ریاستی دہشت گردی ہوئی ہے
میرے نام نہاد لبرل دوستوں کو نواز شریف کی دھاندلی زدہ جمہوری حکومت کا دفاع، ماڈل ٹاؤن لاہور کے چودہ شہیدوں کے خون سے خیانت اور لدھیانوی، انصار عباسی، طاہر اشرفی اور فضل الرحمن کا ساتھ مبارک ہو، میں سرمایہ داری، دھاندلی اور خونریزی کی بنیاد پر استوار ڈھکوسلے کی حمایت نہیں کی سکتا
او پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کی زندہ بے ضمیر لاشو مجھے بتاو آج منور حسن خورشید شاہ اور آصف زرداری میں کیا فرق رہ گیا ہے؟ او سرمایہ دار کے غلام ذہنو، بادشاہت کو جمہوریت کہنے والو، نواز کے زرخرید لوگو، پیسے والے بڑے لوگوں کی مفت میں نوکری کرنے والو، بے زبان جانورو۔۔۔۔
اب تو بولو، اب تو جاگو، کچھ تو بولو
عمار کاظمی
A disastrous turn of events
Editorial (Dawn)
LAST evening the political crisis that has captivated this country for three weeks boiled over.
First, there were indications that somehow the government had acceded to the most extraordinary and wretched of capitulations: Prime Minister Nawaz Sharif was, according to feverish rumour, to go on a month-long enforced vacation while a senior minister ran the government and the Supreme Court-led judicial commission investigated the allegations of so-called widespread fraud in last year’s election.
If the allegations were found to be true, again according to the mooted deal, the National Assembly would be dissolved and fresh elections would be held. That the deal was rumoured to have been reached just hours after Mr Sharif had spoken scornfully of the protesters and their number and impact in Islamabad suggests that the government had already lost all control of the situation.
Then, late into the evening, came another spectacular, shocking turn of events. Imran Khan, Tahirul Qadri and their respective protesting camps decided to move from their venue outside parliament towards Prime Minister House.
Know more: PTI, PAT protesters clash with security forces
That suggested a deal – any kind of deal – was off and that the government’s foes were going for the political kill. In retaliation, the government bared its teeth against the protesters and mayhem ensued as tear gas shells were fired and the civilian-run police – not the military – were used to repulse the protesters onwards movement. Never – never – has the capital witnessed such scenes in its history and events, at the time of writing these lines, could well end up as a disaster.
Surely though the events of Saturday evening were highly choreographed and scripted by some power other than Imran Khan and Tahirul Qadri.
The very idea that a few thousand baton-wielding protesters can march towards Prime Minister House without some explicit assurances behind the scenes is absurd. Quite what those assurances are and what the endgame ultimately is will be known soon, perhaps overnight or in a day or two.
The biggest question: can Nawaz Sharif survive? The answer, in these frantic hours, must surely be a miserable, despondent no.
If that is in fact the case – if Mr Sharif’s third term as prime minister is at or near an end – what does that say about the PML-N supremo? Is he a failed leader or a political martyr? Piecing together the events over the last year and especially over the past few months, the answer seems to be Mr Sharif is a failed leader.
This was a political crisis that was mishandled from the outset. Too much confidence, too much scorn, too much arrogance – and very little nous. For five years, from 2008 to 2013, Mr Sharif mostly said and did the right things.
The democratic project had apparently – and thankfully – become larger than Mr Sharif’s whims. But one year into his term, in his handling of the forces determined to undo the project, Mr Sharif has proved himself a leader very much out of his depth.
Published in Dawn, August 31, 2014
http://www.dawn.com/news/1128894
Pakistan: 294 Injured, 7 Dead as Protesters Break Down Parliament House Gate – Yahoo News UK https://uk.news.yahoo.com/pakistan-294-injured-7-dead-protesters-break-down-223338935.html#wWt9Bhg