Pakistan’s Supreme Court has the power, but not the courage to curb illegal activities of the ISI – by Dr Abdul Qadeer Khan

Some key points from Dr AQ Khan’s article:

1. Pakistani courts have formal constitutional and legal powers but they lack courage to curb illegal activities of the ISI.

2. The political and illegal use of the ISI was institutionalized by General Ayub Khan but became widespread during General Zia’s and General Musharraf’s military regimes.

3. The ISI is not good at what they are supposed to (e.g., espionage of the nuclear facilities of India) and remain instead involved in illegal activities in the country (e.g., kidnapping the prisoners released by the Supreme Court).

4. The ISI has no respect for any Pakistani citizen of any stature including Dr AQ Khan. They bugged private bedrooms in Dr AQ Khan’s house; the court failed to take any action.

5. Many retired officials are re-hired by the ISI to conduct such illegal activities. However, the ultimate responsibility of such misconduct lies with the chief of the ISI and the chief of Pakistan army.

6. Internal reforms in the ISI bringing them in line with the rule of law will not only be good for the ISI’s own performance but will also help Pakistan restore its image which is currently tarnished by the illegal activities of the ISI. (Abdul Nishapuri)

جاسوسی ادارے اور بے چارہ قانون
ڈاکٹر عبدالقدیرخان

پچھلے دنو ں لاہور ہائی کورٹ نے مشرف پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار گیارہ ملزمان کو رہا کرنے کے احکامات جاری کئے۔ یہ ملزمان پنڈی میں اڈیالہ جیل میں رکھے گئے تھے۔ قبل اس کے کہ یہ لوگ آزادی کی نعمت سے فیضیاب ہوتے ان کو کچھ لوگ جیل سے اُٹھا کر لے گئے اور یہ آج تک غائب ہیں۔ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا اور چیف جسٹس نے اس لاقانونیت کا نوٹس لے کر اٹارنی جنرل اور جیل کے حکام کی خاصی خبر لی۔ سب کو یقین ہے کہ ان کو آئی ایس آئی کے کارندے اُٹھا کر لے گئے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے حسب توقع لکھ کر دے دیا کہ کسی بھی انٹیلی جنس کے کارندوں نے ان کو نہیں اُٹھایا اور یہ لوگ ان کے پاس نہیں ہیں۔ لیکن ابھی ایک بم ناگہانی آگرا کہ پنجاب کے چیف سیکرٹری نے صاف طور پر واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ ان لوگوں کو واقعی آئی ایس آئی کے کارندے ہی اُٹھا کر لے گئے ہیں۔

یہ نہایت ہی پریشان کن بات ہے اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فوج میں اب بھی مشرف کی باقیات اس قدر طاقتور اور با اثر ہیں کہ وہ اس کی حمایت میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر سپریم کورٹ کے احکامات کی پروا نہ کریں گے۔ یہ وہی بتا سکتے ہیں کہ ان کو اس عمل سے کیا فائدہ پہنچا ہے البتہ عوام کو ایک اور ثبوت مل گیا ہے کہ حکومت و فوج کے یہ ادارے قانون سے بالاتر ہیں اور من مانی کرنے سے نہیں ڈرتے۔

ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ جونہی ایوب خان نے حکومت پر قبضہ کیا اس نے فوراً تمام سرکاری جاسوسی ادارے اندرون ملک استعمال کرنا شروع کردئیے۔ اس وقت سے یہ روایت پڑی کہ فوج کے سربراہ نے ایم آئی اور آئی ایس آئی کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا۔ ان پر جو کثیر رقم خرچ ہوتی رہی ہے وہ اگر صنعتی ترقی پر خرچ کی جاتی تو ہمارے ملک کی حالت دوسری ہوتی۔

اس قسم کی کارروائی ضیاء الحق اور مشرف کے دور میں عروج پر پہنچ گئی اور بجائے اس کے کہ یہ ادارے ملک دشمن ملکی اور غیر ملکی عناصر پر نظر رکھتے اور احتیاطی اقدام اُٹھاتے تمام توجہ بے ضررملکی سیاست دانوں پر مبذول کردی گئی۔ 11مئی1998 کو جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کئے اور میاں نواز شریف نے ڈیفنس کمیٹی آف دی کیبنٹ کی 13مئی کو میٹنگ بلائی تو میں نے سخت الفاظ میں تنقید کی کہ ہم سے آئی ایس آئی والے یہ دعوے کراتے رہے کہ اُنہوں نے پوکھران کے گھرگھر اپنے جاسوس بٹھارکھے ہیں جونہی ہندوستان نے ایٹمی دھماکوں کی تیاری کی ہمیں اطلاع دیدی جائے گی۔ اگر واقعی وہ یہ کام کردیتے تو ہم بھی ہر چیز تیار کرکے رکھ دیتے اور ہندوستانی دھماکوں کے ایک دو گھنٹوں بعد اس کا منہ توڑ جواب دے دیتے۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ان اداروں کی کارکردگی اور شہرت بہت داغدار رہی ہے۔ یہ ہمیشہ اپنے آپ کو دستور اور قانون سے بالاتر سمجھتے رہے ہیں اور ان کے اس رویّہ اور کردار کی پوری ذ مّہ داری نہ صرف حکمرانوں بلکہ عدلیہ پر بھی عائدہوتی ہے۔ ادارے قانون کی کھلّم کھلّا خلاف ورزی کرتے ہیں۔ عدلیہ کے احکامات کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں مگر عدلیہ سوائے تھوڑا شور مچانے کے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اُٹھاتی۔

مشرف کے دور میں ایک جنرل اور آئی ایس آئی کے ایک کرنل نے میرے گھر میں ہمارے بستر میں، بیٹی کے بستر میں، نواسی کے بستر میں، ڈرائنگ روم میں، ڈائننگ روم میں سننے والے آلات نصب کردیے تھے اور ہمیں جبراً گھر کے باہر بھیج دیا تھا۔کتنی شرمناک حرکت ہے ۔ آپ اپنے خاندان کا تصور کیجئے اور بتائیں کیا اس سے خراب کوئی حرکت ہو سکتی ہے؟؟ یہ احسان فراموش اورکم عقل لوگ بھول گئے تھے کہ میں پی ایچ ڈی انجینئر تھا، پندرہ سال یورپ میں رہ کرصرف اور صرف اپنے وطن کے لیے آیا تھااور25 سال اتنے اہم ادارہ کا سربراہ تھا۔

میرے لیے کیا یہ سمجھ لینا اور ان آلات کو تلاش کرلینا اور ناکارہ بنانا مشکل تھا؟ مجھے اس شرارت کا فوراً اندازہ ہو گیا تھا اور میں نے فوراً ہی ان آلات کی موجودگی اور جگہ کا تعین کرلیا مگرکیا کر سکتا تھا !!ہم نے ان کو چھوڑ دیا کہ یہ لوگ اس غلط فہمی میں مگن رہیں کہ ہمیں ان کا علم نہیں ہے۔ بعد میں ان آلات کو نکال کر میں نے اخبار اور ٹی وی کے نمائندوں کو دکھادیا تھا۔

اس قانون شکنی کے باوجود افسوس! عدلیہ نے ان لوگوں کی طرف انگلی بھی نہیں اُٹھائی۔ ایک مہذّب معاشرہ اور اسلامی تہذیب میں یہ غیر قانونی حرکتیں ناقابل ِقبول اور قابلِ نفرت ہیں اور ہماری عدلیہ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اس شَر کا فوراً سر کچل دیں۔ عدلیہ کے پاس بے حد اختیارات ہوتے ہیں صرف استعمال کرنے کی ہمّت ہونا چاہیے۔ جب تک ہمارے یہاں اس قسم کے غیر قانونی کام ہوتے رہیں گے یہ ملک دنیا میں بدنام رہے گا اور کبھی تہذیب یافتہ نہ کہلائے گا۔ ان اداروں کی وجہ سے ہماری افواج کو دنیا میں لاقانون ادارے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔

یہاں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان اداروں کی خراب اور بدنام زمانہ حرکتوں کی خاص اور اہم وجہ یہ ہے کہ یہ ادارے پرانے، ریٹائرڈ لوگ بھرتی کرلیتے ہیں۔ ان گھسے پٹے سکوں کی تمام کوشش اپنی اہمیت اور ضرورت جتانے میں صرف ہوتی ہے۔ صبح سے شام تک غلط کام کرنا، جھوٹی خبریں تیار کرنا، عوام کو ناحق پریشان کرنااپنا وطیرہ بنا لیتے ہیں۔

ان اداروں کے سربراہوں کے لئے یہ بہتر ہوگا کہ ان ناکارہ فالتو بوجھ کو نکال پھینکیں اور نئے، تعلیم یافتہ تجربہ کار، محب ِوطن اور ایماندار کارکن بھرتی کریں تاکہ پوری دنیا میں ان اداروں کی جو بدنامی ہے اور عوام میں اعتماد کا فقدان ہے اس کا ازالہ ہوسکے۔ یہ ان اداروں اور ملک کے لئے بھی بہتر ہوگا۔

Source: Jang, 6 December 2010

Intelligence agencies and law
December 06, 2010

The Lahore High Court recently acquitted 11 people accused of involvement in an attack on Gen Musharraf and ordered their release from Adiala Jail. Before they could even taste their freedom they were, according to jail authorities, whisked away by agents of the intelligence agencies. To give it all a bizarre twist, the advocate general, Maulvi Anwar-ul-Haq, presented an affidavit from the intelligence agencies stating that these people were not in their custody. Then the bombshell came from the chief secretary of Punjab, who informed the Supreme Court that the men in question had indeed been taken away by ISI sleuths.

This is a very disturbing matter, as it more or less confirms the universal belief that our intelligence agencies are rogue agencies, and are above the law and the Constitution. Equally disturbing is the impression created that the army and the ISI still have Musharraf stooges who are willing to do anything for him, even if that means breaking the law. Only these organisations can tell us what the advantages of their actions are. It is an undeniable fact that such actions give a very bad name to our most august institution, the army.

Ever since Ayub Khan’s coup, our intelligence agencies have been used as servants for personal use and against political opponents. Their main task – gathering information for national security and safety – was superseded. It is said that our most expensive and extensive networks, like the ISI and the MI, are run by the army and take orders from the army chief, not from the civilian government. This has led to all the coups staged in this country.

Unfortunately, in our country the performance of the intelligence agencies is anything but commendable and is not something to be proud of. They have been the extended arm of dictators and been widely branded as rogue organisations. They operate outside the law, are least bothered about the judiciary and totally ignore court orders.

During Gen Musharraf’s time, a general, an ISI colonel and eight subordinates forcibly sent us to Bannigala and kept us there for 10 hours. During that time our house was totally ransacked, bedrooms, clothes, books, files, etc., searched and many things taken away – all this without any official warrant or court order to do so. To-date many of the things taken away have not been returned. During the process our house was also bugged with cameras and – how low can you get – listening devices placed behind our bed and in the bedroom of our granddaughter, as well as in the drawing room, dining room and other places. They totally ignored that fact that, with my background, I was not ignorant of such affairs. I immediately realised the mischief they had done, traced their devices but left them in place (until years later) to let them remain under the illusion that we were unaware.

The courts did not take any action against this blatant violation of our fundamental rights and privacy. In any civilised society such despicable acts are totally unacceptable and are dealt with severely by the courts.

Our courts have wide powers and could, if they so desired, deal with such mischief effectively and immediately in one way or another. Unfortunately, such action is always lacking and the rogue agents of the rogue agencies are left to follow the law of the jungle. As long as they are allowed a free hand, we will be branded as a lawless, corrupt country.

It is my personal opinion that these activities are mostly carried out by retired and re-employed army personnel, who then try to be more loyal than the king and indulge in all kinds of mischief to justify their continuity in service. In doing so, they give a bad name to their agencies and to the government. The heads of the intelligence agencies would be better off not carrying such excess baggage and to utilise the services of young, educated, honest and capable people. (The News)

Comments

comments

Latest Comments
  1. Zalaan
    -