سپریم کورٹ کا پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے مظاہرین سے شاہراہ دستور خالی کروانے کا حکم : ایک تبصرہ – خرم زکی

140825094751_supreme_court_624x351_afpmp
سپریم کورٹ آف پاکستان نے نواز شریف حکومت کو حکم دیا ہے کہ اسلام آباد میں شاہراہ دستور کو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں نواز حکومت کے خلاف دھرنا دینے والے ہزاروں لوگوں سے خالی کرا لیا جائے – اس سیاسی اور جانبدارانہ فیصلے سے ایک بات پھر واضح ہو گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سمیت پاکستانی عدلیہ اب محض نواز شریف اور نون لیگ کی زر خرید باندی بن کر رہ گئی ہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس الزام کی صداقت ایک بار پھر واضح ہو گئی ہے کہ نواز شریف چمک اور بریف کیسوں کی بدولت عدلیہ کے ججوں پر اثر انداز ہوتے ہیں

سپریم کورٹ کے نواز یافتہ ججز کو شاہراہ دستور پر کپڑے مظلوم پاکستنیوں کے ٹنگے کپڑے تو نظر آ رہے ہیں اور پورے اسلام آباد کو جو نواز انتظامیہ نے کنٹینر لگا کر بند کیا ہوا ہے وہ نظر نہیں آ رہا ؟ گویا آزادانہ نقل و حرکت صرف ججز کا حق ہے ؟ باقی سارے پاکستانی کیا غلام ہیں ان کے ؟ ججز کو شارہ دستور سے گزرنے کی جگہ نہ ملے تو ان کا بنیادی حق متاثر ہو رہا ہے اور لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے چودہ بے گناہ افراد کو شہباز شریف انتظامیہ نے قتل کر دیا، ہفتوں گزرنے کے باوجود ایف آئ آر نہیں کاٹی جا رہی اس سے کسی کا بنیادی حق متاثر نہیں ہوتا ؟

y9

کیا ان ججوں کو آج سے دو روز قبل اسلام آباد کی سڑکوں پر عمران کتا، قادری مشرک، اور شیعہ کافر کے نعرے سنائی نہیں دیے؟ کیا انہیں نظر نہیں آیا کہ ایک کالعدم تکفیری دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ (نام نہاد اہلسنت والجماعت) کھلم کھلا اسلام آباد کی سڑکوں پر برادر اسلامی ملک ایران، اس ملک کی سنی صوفی بریلوی اکثریت اور شیعہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگا رہی ہے، تقریریں کر رہی ہے، کیا دس ہزار سنی بریلوی اور بائیس ہزار سے زائد شیعہ مسلمانوں اور ہزاروں فوجیوں، پولیس والوں اور شہروں کو قتل کرنے والے تکفیری گروہ سپاہ صحابہ (اے ایس ڈبلیو جے) جو کہ طالبان کا ہی ایک دوسرا نام ہے پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا؟ کیا ان کے ساتھ نواز لیگ کے گٹھ جوڑ پر بھی عدالت کبھی کوئی فیصلہ سنائے گی؟

کیا یہ عدلیہ نواز شریف کو دوسرا “ریمنڈ ڈیوس” بننے کا موقع دے رہی ہے؟ لیکن چودہ افراد کا قتل عام دہشتگردی کی دفعات کے تحت آتا ہے جس میں “راضی نامہ” ممکن نہیں. یہ ججز جا کر نواز شریف کی اتفاق فاؤنڈری میں ملازمت کر لیں تو بہتر ہے، اس طرح عدالتوں میں بیٹھ کر عدالتوں کا مذاق نہ اڑائیں. اور یہ بار بار دہری شہریت پر لا یعنی تنقید کے بہانے لوگوں کے بنیادی حقوق نظر انداز کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ دنیا بھر میں احتجاج کی وجہ سے ٹریفک متاثر ہوتا ہے اور اس صورت میں حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے متبادل راستہ فراہم کرنا، یہاں ججز کے پاس متبادل راستہ موجود ہے، اس معاملے کا قادری صاحب کی دہری شہریت سے کیا تعلق ؟ کیا آئین دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو سیاست کا حق نہیں دیتا ؟ کیا دہری شہریت کے حوالے سے عدلیہ کے ججز پر بھی کوئی پابندی ہے؟ باقی قائد اعظم کا بطور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا حلف پڑھا ہے ان ججز نے؟ تو کیا قائد اعظم کو بھی پاکستانی مانے سے انکار کر دیں گے ؟ یا یہ ججز اس وقت موجود ہوتے تو ان سے بھی سیاست کا حق چھین لیتے. صاف نظر آ رہا ہے کہ عدلیہ خود ایک پارٹی بن گئی ہے اور کھل کر نواز شریف کی سعودی حمایت یافتہ تکفیری نواز “مغلیہ سلطنت” کی حامی ہے اور ان عدالتوں سے نواز شریف کے مظالم کے خلاف کسی فیصلہ کی توقع نہیں کی جا سکتی.

1404679167-1863j j2sn

سپریم کورٹ کا شاہراہِ دستور خالی کروانے کا حکم
شہزاد ملک
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
آخری وقت اشاعت: پير 25 اگست 2014

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کو شاہراہ دستور خالی کرنے کا حکم دیا ہے کہا ہے کہ منگل چھبیس اگست کو سپریم کورٹ کے جج شاہراہ دستور سے عدالت آنا چاہیں گے۔ یاد رہے کہ تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے کارکن اسلام آباد کے ریڈ زون میں تقریباً ایک ہفتے سے پارلیمان کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ وزیرِ اعظم نواز شریف کا استعفیٰ لیے بغیر یہاں سے نہیں جائیں گے۔

چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ممکنہ ماورائے آئین اقدام اور شہریوں کے حقوق سے متعلق دائر سات درخواستوں کی سماعت کی۔ یاد رہاہے کہ نواز لیگ، سپاہ صحابہ، جمیعت علما اسلام اور اے این پی کے کچھ ٹاوٹس نے عدالت میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے احتجاجی دھرنوں کے خلاف درخواستیں دائر کی ہوئی ہیں

چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شاہراہ دستور پر احتجاجیوں کا قبضہ ہے اور وہ گاڑیوں کو چیک کر رہے ہیں جبکہ یہ ذمہ داری پولیس کی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ شاہراہ دستور بند ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ کے جج دوسرے راستے سے آ رہے ہیں اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے عملے کی حاضری بھی گذشتہ ایک ہفتے سے بہت کم رہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سٹاف نے شکایت کی ہے کہ مظاہرین اُنھیں ہراساں کر رہے ہیں۔

عدالت میں ایک تصویر بھی پیش کی گئی جس میں مظاہرین نے سپریم کورٹ کے بورڈ پر کپڑے ڈالے ہوئے تھے اس پر بیچ میں موجود جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ’جہاں سے انصاف ملتا ہے وہاں پر کپڑے سُکھائے جارہے ہیں۔

بینچ میں موجود جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ طاہرالقادری کینیڈین شہری ہیں اور وہاں پر وفاداری آئین سے نہیں بلکہ برطانیہ سے ہوتی ہے۔

اس سے پہلے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کی طرف سے سپریم کورٹ میں جواب جمع کروایا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ احتجاج ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس میں عدالت کو مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن کی جماعت کے کارکن پرامن ہیں اور کسی صورت کسی بھی سرکاری یا ریاستی عمارت میں داخل نہیں ہوں گے۔

جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ ان سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اُن کے کارکن پرامن ہیں’تو پھر ان احتجاجی مظاہروں میں ڈنڈے کسی شادی میں ڈانڈیا کھیلنے کے لیے لائے گئے ہیں؟‘

سماعت کے دوران ایک اور درخواست گزار اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ اگر وزیر اعظم مستعفی نہ ہوئے تو پھر تھرڈ امپائر آجائے گا جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کے مطابق عمران خان تھرڈ امپائر شاید فوج کو سمجھ رہے ہیں۔ اس پر تحریک انصاف کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ تھرڈ امپائر سے مراد ’اللہ میاں‘ ہیں۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ نواز اور اس کے ٹاوٹس اس پراپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ طاہر القادری اور عمران خان کے احتجاجی دھرنوں کے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے – یہ لوگ اس حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں کہ عمران خان الیکشن ٢٠١٣ میں دھاندلی کی پڑتال کروانا چاہتے ہیں جبکہ ڈاکٹر قادری کے حامی اپنے چودہ کارکنوں کی شہادت پر انصاف چاہتے ہیں – انصاف ملنا نورا ججوں کی موجودگی میں محا ل نذر آتا ہے

الیکشن ٢٠١٣ میں سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے انتہائی جانبدارانہ اور متنازع کردار اور شریف خاندان کے حق میں مسلسل فیصلوں، ان کے خلاف کیسز کی عدم سماعت، سپاہ صحابہ اور طالبان کے تکفیری خوارج کے حق میں فیصلوں اور بیانات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ملک کی اعلی عدالتیں اپنے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ کردار کو نبھانے کے قابل نہیں – ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ عدالتوں کی بھی تنظیم نو کی جائے، نئے غیر جانبدار جج بھرتی کیے جائیں جبکہ پی سی او زدہ اور دیگر تمام متنازع ججوں کو خواہ وہ ریٹائرڈ ہی کیوں نہ ہوں کسی بھی قسم کی عدالت یا کمیشن کے لیے نا اہل قرار دیا جائے ایسا کیے بغیر نہ انصاف کی فراہمی ممکن ہے اور نہ ہی غیر جانبدارانہ الیکشن اور امن و استحکام

 

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Sarah Khan
    -
  3. Sarah Khan
    -
  4. Sarah Khan
    -