کراچی میں کچھ پرانے دوستوں سے ملاقاتیں – از عامر حسینی
15 اگست سے کراچی میں ہوں اور اس دوران بہت سے پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی ہے اور 19 اگست یعنی ایک دن پہلے رفیق سے فیکا اور پهر بلو بهائی کے نام سے معروف ہونے والے عالمی شہرت کے مالک کارٹونسٹ ،مصور سے ملاقات سب سے یادگار ملاقات ٹهہری
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری کے استاد ڈاکٹر ریاض احمد ، گلگت بلتستان ایکشن کمیٹی کے چئیرمین و گلگت بلتستان بار ایسوسی ایشن کے صدر احسان علی ایڈوکیٹ اور یحیحی سلطان کوئٹہ والے بهی فیکا کے ساته ہونے والی اس یادگار ملاقات میں موجود تهے
ہم چاروں دوست ڈاکٹر ریاض احمد کی کار میں نارته کراچی میں ایک دفتر میں پہنچے اور ابهی ہم جاکر بیٹهے ہی تهے کہ ایک منحنی سا آدمی دفتر میں داخل ہوا اور ہم سب سے هاته ملایا اور حال احوال کرنے لگا فیکا کو میں ایک کارٹونسٹ کے طور پر اس وقت سے جانتا تها جب فرنٹیر پوسٹ اور پهر دی مسلم میں ان کے کارٹون چهپا کرتے تهے جو بہت ریڈیکل ہوتے اور جنرل ضیاء الحق اور اس کی خون آشامی کو ایکسپوز کرتے تهے ،پهر وہ روزنامہ ڈان ،ڈیلی سٹار اور هیرالڈ کے لئے کارٹون بنانے لگے اور میں ان کی باغی طبعیت کے اندر سے برآمد ہونے والے تخلیقی وفور سے بهرپور کارٹون وہاں چهپتے دیکهتا رہا اور اپنے طور پر فیقا کے آرٹ کی پرستش کرتا رہا اور کبهی بهول کر بهی یہ خیال نہ آیا کہ یہ آرٹ کی یہ مہان شخصیت کسی دن میرے سامنے ہوگی اور اپنا آپ کهولے گی اور اپنے اپنے اندر موجود سارے امکانات اور گزرے لمحات کی داستان بهی بیان کرنے بیٹه جائے گی
ہماری یہ ملاقات چهے گهنٹوں پر محیط تهی اور اس دوران محمد رفیق فیقا ثم بلو بهائی ہی زیادہ بولے اور ہم تو بس درمیان ،درمیان کہیں لقمہ دینے والے بنے رہے
سوچتا ہوں کہ چهے گهنٹے کی اس ملاقات میں ان کی داستان کے کون سے حصے آپ کو سناوں اور کون سے ترک کروں سب هی کمال کے ہیں اور اپنی جگہ مکمل باب ہیں فیکا جی نے بتایا کہ ان کا تعلق ایک نیم متوسط طبقے سے تعلق رکهنے والے کسان گهرانے سے تها اور یہ کل دس بهائی ،بہن تهے اور ان کا نمبر درمیان میں تها اگرچہ ریجیکشن کا احساس تو نہیں تها لیکن ڈیجیکٹڈ ہونے کا ضرور تها ،ابتدائی تعلیم کا سلسلہ انہوں نے مسلم هائی اسکول ملتان سے شروع کیا جہاں تعلیم سے زیادہ ان کو کرکٹ اور ڈرائنگ سے شغف تها اور باقی مضامین کی جانب ان کا دهیان ہی نہیں جاتا تها ،ایک دن اسکول کے هیڈ ماسٹر نے ان کے والد کو بلاکر کہا کہ ان کے بچے کو کچه آتا جاتا نہیں ہے اور اس اسکول کا ریکارڈ ہے کہ وہاں کوئی بچہ فیل نہیں ہوا اور اس بچے نے کسی مضمون میں پاس ہونا نہیں ہے اس لیے اسکول کا ریکارڈ خراب ہونے سے بچانے کے لیےضروری ہے اسے کہیں اور داخل کراڈالیں اور یوں فیکا جی کو ان کے والد نے ان کے ماموں کے پاس کمالیہ بهیج دیا اور وہاں بہت محنت اور ٹیوشن کی وجہ سے وہ پاس ہوئے اور اچهی ڈرائنگ کی بنیاد پر این سی اے لاہور داخل ہوگئے
این سی اے میں گزارے دنوں کی یاد جب سنانے لگے اور انہوں نے بتایا کہ ستر کی دهائی کے آخر میں وہ این سی اے گئے تهے تو میں نے پوچها کہ کیا خالد اقبال کے زمانے میں وہ وہاں پہنچے تهے تو ایک دم گهور کر مجهے دیکها اور پهر رسانیت سے کہا کہ ہاں جیسے ہی ہم این سی اے پہنچے شاکر علی کا انتقال ہوگیا اور خالد اقبال وہاں آگئے تهے اور میں نے فورا پوچها تو کیا وہاں تقی نایاب سے بهی کبهی ملے تهے؟
میرا یہ پوچهنا ہی اس ملاقات کو چهے گهنٹوں پر محیط کرگیا ،میں نے دیکها کہ فیکا کی آنکهیں بیک وقت فرط جوش و جذبات و اندوہ سے چمکنے لگیں اور کہنے لگے تم نے تقی نایاب کا نام کہاں سنا ؟ میں نے بتایا کہ میرے ایک ماموں ان کے ہم جماعت اور میرے سیاسی گرو اعظم خان سمیت میرے کئی ایک سنئیر کامریڈز کا انقلابی شعور اور جہد انقلاب تقی نایاب کی تربیت اور دروس کی مرہون منت رہی اور وہ آج تک اس کی باتیں کرتے نہیں تهکتے
فیکا جی کہنے لگےمیں جب این سی اے پہنچا تو ایک سنئیر طالب علم کتاب بغل میں دابے میرے پاس آکر بیٹه گیا اور اس نے اتنی شفقت اور لگاو میرے ساته برتا کہ میں اس کا گرویدہ ہوگیا اور اس دوران مجهے پتہ چلا کہ اس کے بغل میں دبی کتاب کارل مارکس کی لکهی ہوئی ہے اور ہم بہت اچهے دوست بن گئے تهے اور وہ بہت تجربہ کار اور بہت ہی علم والا مارکسی ایکٹوسٹ تها ،اس نے مجهے انقلابی فکر سے روشناس کیا اور یہ انقلابیت ہی میرے اندر کے آرٹسٹ کو پوری طرح سے بیدار کرنے کا سبب بن گئی اور میں نے اپنے فن سے انقلاب ،سماج کی محرومیوں ،ظالم سرمایہ دار کو تصویر کرنےکا کام شروع کردیا
میں غریب گهر سے تعلق رکهتا تها اور میری اتنی استعداد نہ تهی کہ اپنے فن کو کنیوس پر منتقل کرنے کے لئے مہنگے رنگ اور دیگر لوازمات خرید کرسکتا تو وہاں پر جو امیر گهر کے لڑکے اور لڑکیاں اپنے فن کو نکهارنے کے لئے جو سامان استعمال کرتے میں ان کی جهوٹن اکٹها کرتا اور بہت سا رنگ اکٹها کرلیتا اور یہ اتنا زیادہ ہوجاتا کہ میں اسے دوسرے ضرورت مندوں کو دیتا
اسی دوران مجه پر یہ عقدہ منکشف ہونے لگا کہ میں سکیچ اور کارٹون میں زیادہ طمانیت محسوس کرتا ہوں اور ایک دن خالد اقبال میرے پاس آئے اور مجهے گلے سے لگانے کے بعد کہنے لگے کہ رفیق تم کارٹون میں خداداد صلاحیت رکهتے ہو بس اسی میں آگے بڑهو ،میں نے فٹ سے جواب دیا کہ یہ تو میں پہلے سے جانتا ہوں اور اس طرح سے میں اپنے فن میں ڈوب گیا میں نے جب اپنا تهیسس پیش کیا جس میں ،میں نے جنرل ضیاء کو ایک قسائی کے روپ میں پیش کیا تها جو گوشت کے درمیان بغدا لیکر بیٹها ہوا تها
یہ تهیسس میں نے جب سامنے لگایا تو بہت سے لوگ مجه سے فاصلے پر رہے لیکن تقی نایاب اور چند اور میرے جگری یار میرے قریب رہے میں نے پوچها تقی نایاب کے ساته کیا ہوا تها تو کہنے لگے ایک رات فوجی آئے اور اسے پکڑ کر لے گئے اور شاہی قلعہ میں اسے سخت ترین ازیتوں کا نشانہ بنایا جس سے وہ اپنے حواس کهوبیٹها تها اور جب ہمارے پاس آتا تو بہت کهویا کهویا رہتا تها اور ایک دن وہ غائب ہوگیا ہے ،مجهے اپنے زرایع سے معلوم ہوا کہ اسے فوجیوں نے گولی مار کر هلاک کیا اور بہانہ یہ بنایا کہ تقی نایاب واہگہ باڈر کراس کرنے کی کوشش کررہا تها کہ فوج نے گولی ماردی
اس کی لاش کبهی نہ ملی اور نہ ہی اس کے قتل یادوبارہ گرفتاری کا اعتراف فوج نے کیا ،اس کا والد لاہور آیا تها مگر بیچارہ ایڑیاں رگڑتا اور ایک در سے دوسرے در گیا لیکن اس کو کچه بهی تقی نایاب کے حوالے سے نہیں بتایا گیا میں نے پوچها کہ جن دنوں کی یہ بات ہے ان دنوں ایک اور شخصیت بهی وہاں ضرور انہوں نے دیکهی ہوگی اور وہ این سی اے میں ڈاکٹر پیں سے مشہور ڈاکٹر سلیم واحد سیلم کی تهی اور وہ اس پر اور زرا پرجوش ہوئے اور کہنے لگے ڈاکٹر سلیم واحد سلیم پر ایوب خان نے شدید تشدد کرایاتها اور اس وجہ سے وہ خاصے ڈسٹرب رہتے تهے لیکن وہ زهنی طور پر شعر کہنے کے معاملے میں چاک وچوبند تهے اور ان کے بے اختیار دو اشعار پڑهے جس نے واقعی طبعیت کو خوب رومان سے بهری انقلابیت سے بهرڈالا –
خواب دیکهے تهے محبت کے ،مگر خواب نہ تهے کچه حقائق تهے جو اب خواب نظر آتے ہیں امیر شہر کوضد ہے کہ غریب شہر کی کٹیا میں چاندنی نہ ہو فیکا جی ڈاکٹر سلیم واحد سلیم سے ایم او کالج کی کنٹین پر ملتے تهے این سی اے سے فارغ ہونے سے پہلے زمانہ طالب علمی کے دنوں کی بات سناتے ہوئے فیکا جی نے کہا کہ بهٹو صاحب کی حکومت کے آخری دن تهے اور ایک رات بهٹو صاحب لمبی سی پرائم منسٹر والی گاڑی میں این سی اے کے سامنے سے گزر رہے تهے اور میں گیٹ سے بهاگتا ہوا آیا اور دونوں هاته لہرانے لگا ،بهٹو صاحب نے یہ دیکه لیا اور گاڑی کا شیشہ نیچے کیا ،رانی توپ کے اس سرے پر ان کی گاڑی پہنچ چکی تهی اور دوسرے سرے پر میں کهڑا بازو لہرا رہا تها تو بهٹو صاحب سے پورا بازو باہر نکال کر لہرایا اور آنکهوں کی جنبش سے میرے جذبہ محبت کی ستائش کی اور بس بهٹو سے یہ میری پہلی اور آخری ملاقات تهی اور اس دوران ان سے جو ایسوسی ایشن پیدا ہوئی ہمیشہ قائم رہی
پهر جب مارشل لگا اور میں نے این سی اے سے ڈگری حاصل کرلی تو سب سے پہلے مجهے فرنٹئیر پوسٹ میں اپنے فن کو پالش کرنے کا موقعہ ملا اور وہاں سے مجهے مشاہد حسین اور ملیحہ لودهی دی مسلم میں لے گئے اور انہوں نے جنرل ضیاء اور اس کی آمریت کے خلاف مجه سے خوب کارٹون بنوائے
جنرل ضیاء اور اس کے حواری میرے کارٹونوں سے بہت ناراض تهے اور وہ مجه غریب آدمی میں اور تو کوئی عیب و جرم تلاش نہ کرسکے بس ایک رات جب میں دختر انگور سے شغف کرکے دی مسلم اخبار کے دفتر سے گهر جارہا تها تو مجهے تهام لیا اور میرا منہ سونگها ،مجهے پولی کلینک لے گئے ،وہان ڈاکٹر سے میڈیکو لیگل بنوایا اور مجه پر مئے نوشی کا مقدمہ کر کے اندر کردیا ،میں چار دن وہاں رہا اور جیل کے اندر سے بهی کارٹون بناکر بهیجتا رہا اور جیسے ہی جیل سے باہر آیا تو پهر ایک کارٹون سید المنافقین ،دجال زمان جنرل ضیاء الحق کابنایا
ضیاء کا خیال تها کہ وہ مجه جیسے ناتواں و منحنی آدمی کو پولیس سے زلیل کرے گا تو یہ بغاوت ترک کردے گا لیکن ہم تو اس کی گرفتاریوں اور مقدموں کو اعزاز خیال کرےے تهے اور اپنی ڈگر پر لگے رہے فیکا جی کے اندر ایک جمال پرست اور رعنائی خیال کے عروج پر پہنچا ہوا شخص بهی بیٹها ہوا ہے اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب انہوں نے اپنی واردات ہائے قلبی کا زکر کرنے لگے
این سی اے میں ایک لڑکی دوست بنی جسے سب کچه آتاتها بس یہ فائن آرٹ اس کے بس کی بات نہیں تهی ،وہ ملنسار تهی ،پرجوش تهی ، پر جمال تهی،نفیس تهی ، اثر تها اس کے وجود میں ،میرے پاس بیٹهتی تو مجهے لگتامیراارد گرد چمکنے لگا اور میں جو ایک چهوٹے شہر سے دیہاتی روح لیکر آیا تها اس کے لئے یہ توجہ اور قربت بہت بڑی نعمت تهی بس اس کی محبت ، قربت اور دوستی کے بدلے میں نے اپنا فن اس کی نذر کرڈالا اور میرے ساته وہ بهی این سی اے سے فارغ التحصیل ٹهہری
دلی گیا تو ریلوے اسٹیشن کے ساته ہی بنی ہندوستانی ٹبی گلیوں میں چلا گیا ،
وہاں کچه دیر کی تلاس و جہد کے بعد ایک تیسرے بالا خانے پر ایک حسین ،جازب پری و معصوم چہرہ نظر آیا ،اسے گوہر مقصود جانا اور جب تنہائی میسر آئی تو اس کی ڈیمانڈ کے مطابق دو سو روپے نذر کئے وہ احسان مند نظر آنے لگی ،جب میں نے اسے پانچ سو روپے دئے تو اس کے چہرے سے خوشی کی لہریں پهوٹتی نظر آرہی تهیں اور جب مراحل قرب و وصال طے ہونے لگے تو جب میں نے اسے بتایا کہ میں پاکستانی کارٹونسٹ فیکا ہوں تو اس نے کہا محمڈن ہو میں نے سر اثبات میں ہلایا تو بے اختیار کہنے لگی
Me Too Muhammadon
مجهے تب پتہ چلا کہ چهوری کچه پڑهی لکهی بهی تهی کہنے لگی بابو آگرہ کی ہوں اور میرا ماموں مجهے یہاں بٹهاگیا ہے اور میری کمائی سے سارا گهر چلتا ہےرخصت ہونے لگا تو بولی بابو پهر کب آو گئے ؟ میں نے کہا ابهی تو کلکتہ جانا ہے وہاں سے آوں گا تو ملوں گا
اس نے میرے جهوٹ کو پکڑ لیا مگر اظہار نہ کیا بس تاسف کا تاثر زرادیر کو چہرے پر آیا اور آہستہ سے کہا کہ ہاں زندگی کے تهپڑے سنبهلنے دیں گے تو کوئی لوٹے گا نا میں فیکا کی داستان کو یہاں پر زرابریک لگارہا ہوں بہت جلد اس کا دوسرا حصہ بهی لکهوں گا کیونکہ اب سے کچه دیر بعد مجهے اپنے ایک ناراض دوست کو منانے حسن اسکوائر جانا ہے اور پهر ایک اور میری مہربان دوست نے مجهے موقعہ فراہم کیا ہے کہ 25 سال کی ریاضت کے بعد عاشقان امیر خسرو سامی برداران کی قوالی کے سرور میں ڈوب جاوں