دیوبندی نواز حکومت کے ہاتھوں شہید ہونے والی ایک سنی صوفی کارکن عورت کے نام ایک نظم – از عامر حسینی

BqrIuJ-CAAAwdKS.jpg large

images

مجهے تمہارا نام نہیں معلوم
مجهے تمہارے وچاروں کی بهی خبر نہیں
جانتا ہوں لوگ
تم جیسی عورتوں کے میدان میں نکل آنے
انقلاب انقلاب کے نعروں پہ ہنستے ہیں
پرانے خرانٹ ہوئے کچه گدھ بن جانے والے
جو کبهی مارکس، لینن، سٹالن کی کوٹیشنیں
بات بے بات لوگوں کے کانوں میں اتاردیتے تهے
چی گیویرا و بهگت سنگه ، کے سانگ پہن کر
انقلاب انقلاب کی الٹی کرتے پهرتے تهے
جنرل ضیاء کے خلاف ایسے انقلابیوں نے
بس آخری معرکہ لڑا تها
اس کے بعد سب آہستہ آہستہ
جیسے گوربا چوف کے ہاتھوں سویت یونین ڈهے گیا
یہ سب بهی ڈهتے چلے گئے

اب میٹروپول کلچر کے کسی بڑے ہوٹل کے کافی ہال میں
هلکی سی ائیر کنڈیشن کی خنک فضا میں
پینٹ کوٹ ، نکٹائی لگائے جون کے مہینے میں
کافی کے ہلکے ہلکے سپ لیتے ہوئے
سامنے بڑی سی سکرین پر
ریاست کی پولیس کے جوانوں کے هاته سے چلی گولیاں کهاتے
تمہیں زمین پر سینے سے بهک بهل خون کے ساته گرتے دیکه کر کہتے ہیں
بیوقوف ،احمق جعلی انقلاب کی دیوانی
اسے کیا پتہ انقلاب کیا ہوتا ہے

ارے ہم سے پوچهتی
بتاتے کیا فرماتے ہیں حضرت مارکس دریں اس مسئلہ کے
چلو اس بہانے
ہم گرد آلود ،دیمک کهائی جلدوں سے
چند بهولی بسری عبارتیں
پهر سے یاد کرتے
تمہیں سنادیتے
گریڈ 20 میں گیا ایک سابق سرخا
اپنی لیموزین میں بیٹها کہتا ہے

ارے تم 15 لاشوں کے گرنے پر یوم شهداء منانے چل نکلے
سہارتو نے دس لاکه سرخے تہہ تیغ کرڈالے
وہاں آج بهی انقلاب کی فصل نہیں اگتی
ایک پرانا جیالا جو اب مشیر صاحب مفاہمت لگا بیٹها ہے
رسان سے کہتا ہے
میری پیٹھ پر ضیاء کے دس کوڑے پڑے تهے
ابهی تک تو ان کے بدلے جو من و سلوی میرا حق بنتا ہے
وہ نہیں ملا
تم کہاں سے شریک کیک ہونے چلی آئی تهیں

انقلاب اور تحریک ،مزاحمت ہماری پروڈکٹ ہیں
ان کو ہم نے پیٹنٹ کرایا ہے
چاہے ان کو ہم نے 88ء میں ڈمپ کردیا
لیکن ہم ہی لغت انقلاب کے قارون ہیں
یہ کہاں سے آئے
انقلاب و تبدیلی کی بات کرنے والے
سالی دہشت گرد
قانون ہاته میں لینے والی
سسٹم ڈی ریل کرنے والی
آتنک پهیلانے والی

جاتی عمرا کا ایک پرانا نمک خوار کہتا ہے
سرکار محض طاہر اشرفی دیوبندی کی لفظی بمباری کافی نہیں
ان انقلابیوں کے پاس مثل قیامت کوئی چلتا پهرتا بم بهیجے
اور اس انقلاب کو زمین بوس کرڈالے
خاک و خون میں نہانے والی
او سہیلی (کامریڈ) سن میری بات
یہ سب جو تم پر ہنستے ہیں
تاریخ خود کئی بار ان پر ہنسی
جب ان کا انقلاب
کسی نوکری، کسی ٹهیکے ، کسی پلاٹ کی رشوت کے عوض بک گیا
تو جو اپنے کاز کی سچائی کی راہ میں
اپنے خون سے زمین کو رنگین کرگئی

اتنے حبس اور سخت حدت میں
تم نے اپنے لہو سے دهرتی کی پیاس بجھائی
تمہیں اس پر فخر ہونا چاہئیے
کیا نام دوں تیرے قاتلوں کو
یزید کہوں تو
تاریخ سامنے آتی ہے
وہاں بس سب مردوں کے لاشے گرائے گئے تهے
کسی بهی حور اہل بیت کی سانسوں کی ڈور توڑنے کی ہمت نہ کرسکے
لیکن عصر کے نواز و شہباز نے تو
61 ہجری کے یزید کو بهی مات دے ڈالی
او میری شهید سہیلی غم نہ کر
حیرت تو تکلیف سے زرا کهل جانے والے منہ کو بند کرلے
دیکه یہ آنکهیں موند لے
کهلی آنکهوں میں جو پیغام جهلکتا ہے
مجهے مشتعل کرتا ہے

آگ لگاڈالوں
بهسم کرڈالوں
اس دیوبندی نواز جمہوریت کو
جو سنی صوفی، شیعہ، مسیحی اور احمدی کا قتل عام کرنے والوں سے تو مذاکرات کرتی ہے لیکن
آزادی و عزت نفس کی مانگ کرنے والوں کی
سیسہ بهری گولیوں سے نوازتی ہے

11324134 43

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Sarah Khan
    -
  3. Sarah Khan
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.