عراقی تکفیری خارجی گروہ داعش کی سعودی حمایت و سرپرستی کا پردہ چاک – از خرم زکی

 یہ ٢٠١٤ کے اوائل  جنوری کی بات ہے، امریکی سینیٹر جان مک کین سعودی بادشاہت اور بندر بن سلطان کا شکریہ ادا کرتے نہ تھکتے تھے اور ان دو “عظیم نعمتوں” پر الله کے آگے سربسجود تھے. اگلے ماہ میونخ سیکورٹی کانفرنس کے موقع پر انہوں نے ایک بار پھر سعودی بادشاہت، بندر بن سلطان اور قطری حکمرانوں جیسی نعمت غیر مترقبہ  ملنے پرالله کا شکر ادا کیا

سینیٹر جان مک کین در حقیقت بندر بن سلطان، جو اس وقت سعودی انٹیلیجینس کے سربراہ تھے اور اس سے پہلے کئی سال امریکہ میں سعودی بادشاہت کے سفیر بھی رہ چکے تھے،  کی تعریف میں رطب اللسان تھے اور اس بے تحاشہ تعریف کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں تھی کہ بندر بن سلطان سوریا میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف دہشتگردوں کو مسلح کرنے کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے. سینیٹر مک کین اور سینیٹر لنڈسے گراہام اس سے پہلے بندر بن سلطان پر شامی دہشتگردوں کو مسلح کرنے اور ان کی مدد کرنے کے لیۓ دباؤ ڈال چکے تھے اور اس حوالے پہلے ان کی آپسی ملاقاتیں ہو چکی تھیں

مگر جان مک کین کے ان تشکرانہ الفاظ کو ادا کیۓ ہوۓ ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ سعودی بادشاہ عبد الله نے بندر بن سلطان کو شام میں مسلح بغاوت اور دہشتگردی کے حوالے سے تفویض کی ہوئی خفیہ ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا. اب یہ ذمہ داری سعودی وزیر داخلہ محمد بن نائف کے کندھوں پر آن پڑی تھی. اپریل کے وسط میں، جب سعودی بادشاہ سے صدر اوباما کی ٢٨ مارچ کو ہونے والی ملاقات کو محض دو ہفتے ہی گزرے تھے، بندر بن سلطان کو سعودی انٹیلیجینس کے سربراہ کے عہدے سے بھی فارغ کر دیا گیا.کہا اگر چہ یہی گیا کہ ایسا خود بندر بن سلطان کی درخواست پر ہوا ہے لیکن حقیقت یہ تھی کہ بندر بن سلطان کو نکالا گیا تھا اور اس کی وجہ شام میں سعودی خارجہ پالیسی کی ناکامی تھی. شائد بندر کو خود بھی اس ناکامی کا احساس تھا اور وہ پہلے بھی مستعفی ہونے کی پیشکش کر چکے تھے جس کو رد کر دیا گیا تھا

فری سیرین آرمی، جس کو معتدل جنگجو گروہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا،کو بین الاقوامی ذرائع  ابلاغ میں کافی جگہ ملی،لیکن جس بات کا تذکرہ کم ہی کیا گیا، بلکہ چھپایا گیا، وہ یہ حقیقت تھی کہ بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والے دو اہم ترین دہشتگرد گروہ در حقیقت تکفیری خوارج پر مشتمل تھے؛ جبہ نصرہ اور داعش. یہ دوسرا گروہ وہی تکفیری دہشتگرد ہیں جو اب عراق میں “اسلامی ریاست” کے نام پر لوٹ مار اور خون خرابہ کر رہے ہیں اور پورے خطّےمیں بد امنی اور بے چینی کا سبب ہیں. اس گروہ کی کامیابی کی وجہ خلیج فارس کے دو ملکوں، سعودی عرب اور قطر، سے ملنے والی فوجی اور مالی امداد ہی ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو دبیز پردوں کے پیچھے چھپا کر رکھنے کی کوشش کی گئی

قطر کی مالی و فوجی امداد کا بیشتر حصہ شام میں جبہ نصرہ کو جا رہا تھا اورقطر کی جانب سے اس دہشتگرد تکفیری گروہ کی سپورٹ کی صورتحال اس حد تک گہری اور وسیع تھی کہ ایک قطری سرکاری اہلکار کا کہنا تھا کہ وہ شام میں موجود جبہ نصرہ کے ایک ایک کمانڈر کو اس کے نام، جن بلاکس پر وہ قابض ہے اور دیگر تفتفصیلات کے ساتھ جانتا ہے. داعش کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ یہ سعودی پروجیکٹ ہے اور ان کی ہینڈلنگ سعودی حکام کر رہے ہیں جبکہ سعودی حکام دوسری طرف دنیا کو یہ تاثر دینے میں مصروف تھے کہ جیسے وہ خود ان تکفیری خوارج سے نالاں ہیں. یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے کینڈین تھنک ٹینک اور ایڈورڈ اسنوڈن کا تجزیہ اور انکشاف منظر عام پر آ چکا ہے جس کے مطابق داعش کی تشکیل اور امداد کے پیچھے صیہونی ریاست اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی خلیجی ملکوں کا ہاتھ ہے

داعش (یا “اسلامی خلافت”) دراصل شام میں بندر بن سلطان کے دہشتگردی پر مبنی تزویراتی منصوبے کے بڑے حصے پر مشتمل ہے. بظاہر سعودی حکومت ان حقائق سے انکار ہی کرتی چلی آ رہی ہے اور نور المالکی کے ان بیانات کی بھی تردید کرتی رہی ہے جن میں عراقی وزیر اعظم نے اپنے ملک میں جاری بد امنی کا ذمہ دار سعودی عرب اور قطر کی حکومتوں کو ٹہرایا اور بتایا کہ داعش کے تکفیری خوارج کی سپورٹ یہی دونوں خلیجی ممالک کر رہے ہیں اگر چہ حال میں سعودی حکومت  نے بعض نام نہاد “معتدل” دہشتگردوں کو بھی سپورٹ کرنا شروع کیا ہے البتہ “غیر سرکاری” ذرائع سے ان انتہا پسند تکفیری خارجی دہشتگردوں کی مالی و فوجی سپورٹ کا سلسلہ ویسے ہی جاری ہے 

افغان “مجاہدین” کی طرح جنہوں نے امریکی فوجی اور مالی امداد سے سوویت یونین کے خلاف جنگ میں ابتداء میں بھرپور فائدہ اٹھایا اور بعد میں انہی “مجاہدین” نے القاعدہ کی شکل میں اپنی توپوں کا رخ مغرب اور امریکہ کی طرف کر لیا (جس کا اعتراف سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن ریکارڈ پر کر چکی ہیں)، داعش نے بھی یہ تمام فوجی کامیابیاں سعودی عرب کی امداد سے حاصل کیں لیکن اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ یہ تکفیری خوارج بھی جلد یا بہ دیر  اپنی دہشتگردی کا رخ سعودی حکومت کی طرف موڑ لیں گے جس کی جانب حزب الله کے سربراہ سید حسن نصر الله نے بھی اپنے ایک بیان میں اشارہ کیا تھا کہ جادو جلد ہی خود جادوگر کے سر پر چڑھ کر بولے گا

بندر بن سلطان نے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں میں داعش نامی جس عفریت اور درندے کی پرورش کی جلد ہی وہ پورے خطّے کے لیۓ وبال جان بننے والا ہے، سینیٹر جان مک کین کو بندر بن سلطان کو گلے لگانے سے پہلے اس حقیقت کا پیشگی اندازہ ہونا چاہیۓ تھا

 

 

 

Comments

comments

Latest Comments
  1. Taj
    -
  2. review carpet cleaners Victoria BC
    -
  3. siteporno.Biz
    -