نجدی وہابیوں کا کربلا پر حملہ – تاریخ کے آئینے میں

tumblr_maxxkewugk1rste5to1_500

اسلام کی حالیہ تاریخ میں وہابی نجدیوں کا کربلا پر حملہ یقیناً ایک سیاہ باب کی حثیت رکھتا ہے اٹھارہ سو دو میں ہونے والے کربلا پر حملے کے بارے میں مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت لا علمی کا شکار ہے جس پر سے پردہ اٹھانا موجودہ حالت کے تناظر میں بہت ضروری ہے  کہ جب اسلام کا لبادہ اوڑے تکفیری وہابی اور دیوبندی گروہ مساجد ، انبیا و اولیا کے مزارات پر حملہ کر کے انھیں زمین بوس کرنے میں مصروف ہیں –

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس وقت کے وہابی نجدی بھی موجودہ تکفیری وہابیوں کی طرح دولت و اقتدار کی لالچ کے ساتھ ساتھ تکفیری خیالات سے متاثر تھے جیسے آج کل کے تکفیری دیوبندی اپنے متشد نظریات کے پرچار کرتے ہوے دہشت پھیلا رہے ہیں –

اٹھارہ سو دو میں محرم کے مہینے سے پہلے کربلا میں ہونے والا قتل عام ایک سیاہ باب کی حثیت سے وہابی نجدی سامراج کے سیاہ چہرے سے پردہ اٹھاتا رہے گا جب کربلا میں دنیا بھر سے محرم کے لئے جانے والے مسلمانوں کے خون سے زمین کربلا کو رنگین کیا گیا – اس بارے میں تاریخ میں دو گواہیاں ملتی ہیں – ایک فرانسیسی غیر مسلم چشم دید گواہ اور دوسرا ایک وہابی پراپنگنڈہ مشین کا سرغنہ –

جے بی راو سو کے مطابق وہابی درندگی کی اس سے بڑی مثال نہیں مل سکتی جس میں انہوں نے مزار امام حسین پر حملے کرنے کے بعد وہاں موجود مال و اموال لوٹ لیا جس میں سالوں سے مزار کو عطیات میں ملنے والے سونے چاندی کے لاکھوں سکے اور مقدس مذہبی اشیاء کو لوٹ لیا گیا – بر صغیر سے نادر شاہ کے ہاتھ لگا قیمتی سامان بھی امام حسین مسجد سے وہابی نجدیوں نے لوٹ لیا اور وہ یقیناً اس لوٹ مار کی منصوبہ بندی ایک لمبے عرصے سے کر رہے تھے جس کے لئے وہ ہمیشہ سے سوچتے چلے آرہے تھے کہ کربلا کی دولت کو لوٹ کر وہ اپنے خواب پورے کر سکیں –

اور پھر وہ دن آگیا جب بارہ ہزار کے لگ بھگ وہابی نجدیوں نے کربلا پر حملہ کیا اور بوڑھے جوان عورتیں اور بچے سب ان کی خون کی پیاسی تلواروں کا نشانہ بن گیے یا وہابی نجدیوں کی طرف سے لگایی گیی آگ میں جل کر شہید ہوگے – اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک حاملہ عورت کو قتل کرنے کے بعد اس کے شکم سے بچے کو نکال کر شہید کرنے کے بعد ماں کے جسم پر ڈال دیا گیا – تقریبن چار ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد بھی ان درندوں کی پیاس نہیں بجھی اور انہوں نے چار ہزار اونٹوں پر لوٹا گیا اموال لاد کے کربلا کو خون کے دریا میں تبدیل کر کے واپسی کا سفر باندھا – مزار کے گمبند اور میناروں کو بھی اس لالچ میں منہدم کیا گیا کہ شاید یہ سونے کے بنے ہیں 

ایک اور بیان جو وہابی تاریخ دان عثمان بن عبد الله البشیرنے لکھا ہے بھی اسی قسم کے حالات بیان کرتا ہے – اٹھارہ سو دو میں ابن سعود نے کربلا کی جانب سفر شروع کیا جس میں اسے اونٹوں پر لدے نجدی قبیلے کے افراد کی بڑی مدد حاصل تھی اور انہوں نے کربلا پہنچنے پر ایک بہت بڑی تعداد کو قتل کر کر گھروں اور مکانات تک کو تباہ کر دیا – امام حسین کے مزار کے گمبند کو بھی شہید کر دیا – مزارات اور قرب و جوار میں موجود ہر چیز کو لوٹ لیا گیا ، سونے چاندی ، زمرد اور ہیرے جواہرات سے مزین چیزوں کو لوٹ کر اپنے خزانے میں شامل کر دیا گیا – اور اس سب کے بیچ میں لگ بھگ دو ہزار لوگوں کو قتل کیا گیا – اس دور کے مزید سورسز نے بھی اسی قسم کے حالات کو بیان کیا گیا لیکن ایک بات اہمیت کی حامل ہے کہ وہابی تکفیریوں کی درندگی کے ساتھ ساتھ دولت کی ہوس اور مزاروں کو تباہ کرنے کی روایت ان کے ساتھ ساتھ ہی چلی ہے – سعودی خاندان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جنت البقی اور جنت المعلی کو بھی زمین بوس کر دیا گیا –

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sabir Hussain
    -
  2. Sabir Hussain
    -
  3. umair
    -
  4. Rafique Farooqi
    -
  5. https://harportconsulting.zendesk.com/entries/34832195-One-Word-Phytolacca-Berry-Tablets-Price
    -