…داعش نے شام اور عراق میں ظلم اور بربریت کی بد ترین مثال قائم کی مگر فلسطین
آپ ایسے خلیفہ تل مسلمین کے بارے میں کیا کہیں گے جس کے سر ہزاروں معصوموں اور بے گناہوں کا قتل ہو؟اور ایسا خلیفہ جس کے دل میں اولیا ء اللہ اور اصحاب رسول تو کیا انبیا علیہ السلام کا بھی احترام نہ ہو؟ جو مسلمان تمام انبیاء پر ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں کہلایا جا سکتا اور یہاں اُن کے مزارات کو بم دھماکوں سے اُڑانے والے خود کو خلیفہ کہہ رہے ہیں۔
خبروں کے مطابق شام اور عراق میں قابض داعش نے حضرت یونس علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کے مزارات سمیت اب تک پینتالیس مزارات کو تباہ کر دیا ہے، جن میں مساجد اور امام بارگاہوں سمیت اصحاب رسول اور اولیا ء اللہ کے مزارات بھی شامل ہیں۔ داعش جو خود کو ’’سنی جماعت‘‘ کہلواتی تھی اب اس کے ان اقدامات نے اُس کی حقیقت کو واضح کر دیا ہے۔ کون ایسا مسلمان یا سنی ہے جو انبیا کرام علیہ السلام اور اصحاب رسول کے مزارات کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے۔اور اسی دہشت گرد تنظیم نے اب تک 12 سے زائد سنی علماء کوبھی شہید کر دیا ہے جنہوں نے ان کے اس ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی۔اس تنظیم کے ان اقدامات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ان کا اصل مقصد فتنہ اور فساد کے سوا کچھ نہیں۔
اس تنظیم کے بارے میں شروع میں جو قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں اب ان میں شدت آتی جا رہی ہے۔شواہد اُن کو سچ ثابت کر رہے ہیں۔داعش کو امریکی اور اسرائیلی پشت پناہی ہے اور اس کے سربراہ ابو بکر البغدادی بھی انہی کا لانچ کیا گیا۔ ابو بکر البغدادی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اُنہیں امریکی فوجیوں نے فروری2004 میں گرفتار کر کے بکہ کے قید خانے میں رکھا تھا جہاں وہ کچھ اطلاعات کے مطابق دسمبر2004 تک اور کچھ اطلاعات کے مطابق 2009 تک قید رہے اور پھر اُنہیں عراقی فوج کے حوالے کر دیا گیا اور عراقی فوجیوں نے انہیں چھوڑ دیا۔جس کے فوراً بعد وہ داعش کی صفوں میں نظر آنے لگے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ قید کے دوران اُنہوں نے بغدادی کو اپنے لیے استعمال کرنے کے لیے تیار کر لیا ہو۔ امریکی خفیہ ادارے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے اس دعوے نے داعش کی حقیقت مزید عیاں کر دی ہے کہ ابو بکر البغدادی امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ ہے اور اسے ان کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے،البغدادی کو اسرائیل میں ایک سا ل تک جنگی ٹریننگ کے ساتھ انتظامی امور اور بول چال تک کے تربیت فراہم کی گئی ہے۔
سنوڈن کے مطابق بغدادی کو لانچ کرنے کا اصل مقصد امریکہ اور اسرائیل کے اُس ’’گریٹر پلان‘‘ کی تکمیل ہے جس میں عراق کے تقسیم کے ساتھ مسلم ممالک کے طاقت کو کمزور کر کے اپنی حکومت کو دوام بخشنا ہے۔مزٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍید یہ کہ اس تنظیم کے سائے تلے دنیا بھر سے دہشت گردوں کو اکھٹا کیا گیا اور انہیں اردن میں باقائدہ تربیت بھی فراہم کی گئی۔ سنوڈن کا یہ بیان خاص اہمیت کا حامل ہے اور زمینی حقائق بھی یہی بتا رہے ہیں۔
داعش نے شام اور عراق میں تو ظلم اور بربریت کی بد ترین مثال قائم کی ہے مگر حیرت ہے کہ مسلمانوں کی اس طاقتور تنظیم نے اب تک فلسطین میں ہونے والے مظالم کے خلاف ذرہ برابر آواز نہیں اُٹھائی۔اور تو اور بظاہر عراق کے خیر خواہ امریکہ کے طرز عمل سے بھی کچھ اور ہی ثابت ہو رہا ہے، کہ اُنہوں نے اب تک عراق سے کیے گئے وعدے کے مطابق وہ سولہ ایف سولہ طیارے بھی نہیں دیے جنہیں عراقی فوج نے ان دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے استعمال کرنا تھا۔ امریکہ اگر چاہے تو عراق کی مدد کے لیے ڈرون بھی بھیج سکتا ہے جو داعش کے زیر انصرام علاقوں میں اُن کی طاقت ختم کر سکتے ہیں مگر اس معاملے میں بھی گہری چپ نے کئی شبہات کو جنم دیا ہے۔ یہ سب حقائق ثابت کرتے ہیں کہ داعش کو ایک خاص مقصد اور پلان کے تحت سامنے لایا گیا ہے اور اِس کا مقصد اُن مذموم مقاصد کو پورا کرنا ہے جواسلام مخالف قوتیں چاہتی ہیں۔
Source:
http://www.express.pk/story/275088/
یہ چند آوارہ کتوں کا گروہ ھے اس کے علاوہ کچھ نہیں ھے-جو وقت کے ساتھ خود مٹ جائے گا انشااللہ
I am 100% agreed with brother Imran. These dogs of hell will be vanished soon.