ایران، انسانی حقوق اور آزادی اظہار – عامر حسینی

Iran-Cartoon

میرا ہمیشہ یہ اصول رہا ہے کہ میں نے کبهی بهی کسی معاملے پر بحث کرتے ہوئے اس معاملے پر دستیاب ہر طرح کے موقف کو سامنے رکها اور کبهی یک طرفہ تصویر پیش کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ مقصد کسی ایک گروہ کی حمایت جیتنا نہیں رہا ، اس اصول کی پاسداری کرتے ہوئے اکثر یہ ہوا کہ بہت سے ایسے دوست بهی گنوا بیٹها جن کے گنوا بیٹهنے کا ملال کبهی جاننے والا نہیں ہے لیکن ایک اطمینان قلب کو یہ رہا کہ میں نے بدیانتی سے کام نہیں لیا اور ایمانداری سے اپنا موقف بیان کرڈالا

میں نے ایرانی انقلاب ، ماقبل ایرانی انقلاب اور مابعد ایرانی انقلاب کے سیاسی معاشی اور سماجی و اقتصادی حالات و واقعات پر کافی تحقیق کی اور ایرانی قوم کی رضا شاہ پہلوی ،امریکی و برطانوی سامراجیت کے خلاف جدوجہد کرنے والے مختلف گروپوں اور وہاں چلنے والی آئیڈیالوجیکل جدال بارے کافی پڑها بهی اور اس حوالے سے مختلف گروہوں کے ساته منسلک بهی رہا

اس ساری تحقیق کے بعد میں نے ایک رائے یہ قائم کی کہ ایران میں جو تحریک رضا شاہ پہلوی کے خلاف ایران کے عوام نے کهڑی کی تهی اس کا ایک رجحان تودے پارٹی یعنی کمیونسٹ پارٹی آف ایران کا تها جس نے طالب علموں، پروفیشنل مڈل کلاس ، ٹریڈ یونینز ،کسانوں میں سامراج مخالف سوشلسٹ تحریک کو منظم کیا اور ایک اور رجحان حوزہ علمیہ قم سمیت کئی ایک شیعہ مذهبی مدارس سے اٹها جس کی زیادہ تر بنیاد ایرانی تاجر کمیونٹی کے اندر تهی اور اس میں پیٹی بورژوا پرتیں بہت زیادہ تهیں اسی ایرانی پیٹی بورژوازی کے اندر اپنی جڑیں رکهنے والا ایک اور رجحان جس کی تعمیر ڈاکٹر علی شریعتی سمیت کئی ایک جدید ماڈرنسٹ شیعہ ایرانی سکالرز نے کی کا بهی تها اور ایک اور رجحان پیٹی بورژوازی میں لبرل ڈیموکریٹس کا بهی تها جو ہندوستان کے سرسید کی طرز پر جدید علم کلام کی تعمیر کرنے پر لگا ہوا تها

خود سید روح اللہ خمینی کے حامیوں میں ایک بڑی تعداد پیٹی بورژوازی پرتوں کی تهی جو سر سے پیر تک اسلامی ماڈریٹ کہے جاسکتے تهے یہ یا تو اس وقت طسلب علم تهے یا پهر جدید سائینسی علوم میں پروفیشنل ڈگریاں لیکر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے تهے

ایران کا سب سے پسماندہ اور سب سے زیادہ نسلی اور مذهبی جبر کا شکار اس وقت علاقہ ایرانی بلوچستان اور ایران کردستان تها اور یہاں پر سنی مسلک اور بلوچ و کرد نسل کے لوگوں کی اکثریت تهی یہ دونوں علاقے صفوی سلطنت کے دور سے مذهبی اور نسلی جبر کا شکار چلے آرہے تهے سید روح اللہ خمینی سے پہلے یہاں پر تودے پارٹی کے کیڈرز آئے اور انہوں نے بلوچ و کرد قومی آزادی کے ساته ساته یہاں پر سوشلسٹ و کمیونسٹ خیالات کا پرچار شروع کیا ،اس زمانے میں یہاں کی جو سنی مذهبی پیشوائیت تهی اس نے اس رجحان کی مخالفت شروع کی لیکن ان کے اندر رضا شاہ کے خلاف بهی جذبات موجود تهے اور وہ اس کا اظہار اینٹی شیعہ سلوگنز میں کرتے تهے یہ سید روح اللہ خمینی اور ان کے دیگر شیعہ رفقاء تهے جنهوں نے بلوچستان ،کردستان اور خراسانی دائیں بازو کی سنی ملائیت سے رابطہ کیا اور ان کو یقین دلایا کہ اگر رضا شاہ کے خلاف تحریک کامیاب ہوئی تو ان کے احساس محرومی کو دور کیا جائے گا تو اس زمانے میں بلوچستان کے سنی ملاوں نے روح اللہ خمینی کا ساته دیا لیکن یہ اتحاد اس وقت ٹوٹا جب ولایت فقیہ کو ایرانی آئین کا حصہ بنایا گیا اور ایران کے آئین میں یہ شق رکهی گئی کہ جس بهی ایرانی انتظامی یونٹ میں جس مسلک کے لوگوں کی اکثریت ہوگی مسجد اسی مسلک کے لوگوں کی ہوگی، یہ شرط ایران کے بعض سنی لوگوں کو قابل قبول نہیں تهی کیونکہ اس صورت میں وہ تہران سمیت شیعہ اکثریت کے علاقے میں اپنی الگ مسجد نہیں بناسکتے تهے لیکن یہ آزادی انہیں اپنے علاقوں جیسا کہ ایرانی بلوچستان میں حاصل رہی

اس دوران ایرانی بلوچ، کرد ،خراسانی عربوں نے بجا طور ہر محسوس کیا کہ نیا انقلابی رجیم بهی ایک زبان ،ایک کلچر اور ایک ریاست کے سخت گیر مرخزیت پسند آئیڈیالوجی اور پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ایرانی انقلاب کے بعد بهی بلوچ ، کرد قومی سوال اپنی جگہ قائم و دائم رہے ہاں ان سوالوں کو ایرانی ریاست اور ایرانی رجیم کے خطے میں مخالفوں اور اس رجیم کے مغربی مخالفوں نے مسخ کرنے اور اپنے مطابق ان کی صورت گری کرنے کی کوشش خوب کی

سعودی عرب اور دیگر گلف اسٹیٹس اور دیوبندی وهابی تکفیری دہشت گردوں نے ایرانی بلوچ قومی تحریک کو خالص سلفی وهابی دیوبندی دہشت گرد تحریک میں بدلنے کی کوشش کی اور اس حوالے سے ایرانی بلوچستان کے کئی ایک سنی نوجوان دیوبندی مدارس واقع افغانستان و پاکستان میں داخل ہوئے جبکہ کئی ایک سعودی عرب کے مدرسوں میں داخل ہوئے اور وہاں سے ایک مکمل منصوبہ اور لائحہ عمل لیکر ایرانی بلوچستان میں آئے ان میں سے اکثر اب بهی ایرانی سیستان بلوچستان کی جیلوں اور ایرانی خفیہ ایجنسی کے عقوبت خانوں میں ہیں جبکہ بہت سے مولویوں کو پهانسی پر چڑهادیا گیا اور یہ جو جند اللہ ہے یہ اسی رجحان کی عکاسی کرنے والی تنظیم ہے جس کے پاکستانی دیوبندی دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ سے گہرے روابط ہیں

ایرانی سیکورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیاں حکومت کے خلاف کام کرنے والوں میں سیکولر اور تکفیری کی تفریق نہیں کرتیں ، ایران میں پریس پر سخت سنسر شپ ہونے کی وجہ سے کسی کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ ایرانی بلوچستان میں ہونے والی قومی مزاحمت کے مختکف شیڈز کو بیان کرسکے

سعودی اور دیگر گلف ریاستوں کا سرکاری میڈیا اور عالمی دیوبندی وهابی تکفیری دہشت گرد نیٹ ورک ایرانی بلوچستان اور ایرانی کردستان کے قومی سوال کو بگاڑ کر اسے فرقہ پرستانہ مظہر کے طور پر پیش کرتا ہے اور اس ڈسکورس کو خود سی آئی اے سمیت مغربی و اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی حمایت حاصل رہی ہے اور اس ڈسکورس کو ایرانی بلوچستان و ایرانی کردستان میں غالب ڈسکورس بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر بهاری سرمایہ کاری بهی کی گئی ہے

ایران کی مذهبی پیشوائیت اور اس کے امور سلطنت پر قابض ہونے کے خلاف رد عمل صرف کمیونسٹ ،لیفٹ ،بلوچ ،کرد ،خراسانی عرب حلقوں کی جانب سے نہیں آیا بلکہ اس کے خلاف خود سید روح اللہ خمینی کے تصور انقلاب کے شیعہ حامیوں اور انتہائی اہم کردار ادا کرنے والے پیٹی بورژوا شیعہ مذهبی رہنماوں ،دانشوروں ،ادیبوں ،شاعروں اور سیاسی کارکنوں میں بهی کهل کر سامنے آیا ہے اور آج کل اس رد عمل کی قیادت میر حسین موسوی کے هاته میں ہے جن کو ایرانی حکومت نے ابهی تک نظر بند کررکها ہے ، سید علی خامنہ ای کے خلاف بہت مضبوط اپوزیشن ایران میں موجود ہے جو ان کی انتہا پسند پالیسیوں ک سخت خلاف ہے اور یہ ہزاروں نہیں لاکهوں لوگ ہیں جن کے خلاف جبر و تشدداور سخت سنسر شپ ،اور پابندیوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے

بحرین ، سعودی عرب ،کویت ،اردن میں جمہوریت ،انسانی حقوق ،آزادی رائے اور دیگر حقوق کی پامالی پر آپ ایران نوازمیڈیا ، سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر بنے ایران نواز شیعہ پیجز پر روز کوئی نہ کوئی پوسٹ دیکهتے ہوں گے لیکن یہ پیجز خود ایران میں جمہوریت ،انسانی حقوق کی پامالی اور سنسر شپ پر کوئی ایک بهی خبر فائل نہیں کرتے بلکہ میرا زاتی تجربہ شاہد ہے کہ ایران نواز میڈیا آوٹ لیٹس کو ہمارے دوستوں نے جب کبهی ایرانی رجیم پر تنقید کے حوالے سے کوئی خبر ارسال کی تو ان کو تنبیہ کی گئی کہ آئیندہ ایسا نہ ہو

میں ایک ہفت روزہ پاکستانی جریدے میں سٹاف رپورٹر کے طور پر کام کرتا تها تو میں نے ایرانی بلوچستان پر ایک سٹوری فائل کی جو اس جریدے کے چیف ایڈیٹر نے یہ کہہ کر بلیک آوٹ کرڈالی کہ یہ سی آئی اے سپانسرڈ سٹوری ہے اور ہمارے رسالے کا امیج خراب کرنے کی کوشش ہے اور پهر میری اس سٹوری کو ایرانی سفارت خانے کو بهیجا گیا اور جن بلوچ لوگوں کے انترویوز میں نے کیے تهے ان میں سے بعض کو گرفتار کرلیا گیا اور کئی ایک اس لئے بچ گئے کہ میں نے ان کے نام اور علاقے تبدیل کرڈالے تهے ایسا ہی ایک اور واقعہ ہفت روزہ ہم شہری لاہور میں کام کے دوران پیش آیا اور اس کے گواہ ہفت روزہ ہم شہری کے ایڈیٹر رضوان عطا ہیں

میں اور بہت سی مثالیں پیش کرسکتا ہوں لیکن میرا مقصد دیوبندی وهابی تکفیری عالمی نیٹ ورک کو اور سعودی لابی کو مواد فراہم کرنا نہیں ہے جو ظاہر سی بات ہے اس وقت مسلم ممالک کے اندر سب سے خون آشام انارکسٹ اور مذهبی فاشسٹ پلیٹ فارم ہے جو مسلم ممالک کے محنت کشوں اور لوٹے کهسوٹے جانے والے عوام کی نجات کے اصل جدوجہد کے نظریات اور اس کی بنیاد پر بننے والے حقیقی مزاحمتی نیٹ ورک کی تشکیل میں روڑے اٹکارہا ہے اور اس طرح سے ایک طرف یہ مسلم دنیا کی آمریتوں ،بادشاہتوں اور مذهبی پیشوایت پر مبنی حکومتوں کے لیے آکسجین کا کام کررہا ہے تو دوسری طرف یہ سامراج کے کهیل کو تقویت دے رہا ہے

میں پهر کہتا ہوں کہ مذهبی فاشزم کے خلاف جنگ کے لئے مظلوم سنی ، شیعہ ،مسیحی ، ہندو ،احمدی ،سیکولر لبرل کمیونسٹ لیفٹ حلقے متحد ہوں گے اور دائیں بازو کی ملائیت سے ابهرنے والی عالمی دیوبندی تکفیری دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف جدوجہد کریں گے تو ہی نجات مل سکتی ہے لیکن اگر اس جدوجہد میں مظلوموں کے درمیان تمیز اور فرق روا رکها جائے گا تو پهر نجات ممکن نہیں ہوگی یہ نہایت بے انصافی ہے کہ مظلوم شیعہ ہوں تو خیبر سے کراچی تک دهرنے دے کر هائی وے بلاک ہوجائے اور اگر مظلوم احمدی ، ہندو ،عیسائی ہو تو علامتی مذمتی بیان آئے یا کسی ایک پریس کلب کے سامنے احتجاج میں کوئی ایک آدھ آدمی شریک ہوجائے

آخر میں ایرانی انقلاب کے سفر میں سید روح اللہ خمینی کے شریک سفر اور ان کی پہلی بنائی گئی کلچرل کونسل کے رکن عبدالکریم سروش جن کو بعدازاں جان کے خطرے کے باعث ملک سے فرار ہونا پڑا کا ایک کهلا خط ایرانی سپریم لیڈر اور پاسداران انقلاب کے کمانڈر سید علی خامنہ ای کے نام دے رہا ہوں یہ خط ایران میں خود ولایت فقیہ کے ماننے والوں کے درمیان اختلاف کی نوعیت اور شدت کو بیان کرنے والا ہے

اظہار رائے کی آزادی انسانوں کا بنیادی حق ہے اور یہ حق ایران کے لوگوں کے پاس کہاں تک ہے اس پر یہ خط جو 2009ء میں لکها گیا تها خاصی روشنی ڈالتا ہے میں یہاں یہ بهی وضاحت کردوں کہ سروش ایرانی پیٹی بورژوازی جو ایران اور ایران سے باہر یورپ و امریکہ میں موجود ہے کے خیالات کی بہت زبردست ترجمانی کرتا ہے جس کے بہت سے نکات سے میں بطور اشتراکی اتفاق نہیں کرتا

Open Letter To Ayatollah Khamenei From Abdolkarim Soroush

By Abdolkarim Soroush

soroushThe blood-soaked wedding ended and the untrue groom left the bridal chamber.

[Ballot] boxes trembled and evildoers danced in the darkness.

Victims stood watching in their white shrouds and the prisoners clapped with their severed hands.

And the people, one eye filled with rage, the other with hatred, bore off the groom.

The eyes of the world cried bitterly and blood flowed over the republic’s head.

The Devil laughed, stars were extinguished and virtue fell into a slumber.

Mr. Khamenei,

[…]

In this drought-year for virtue and justice, everyone complains against you, but I thank you. “Of that beloved of the heart, either is he thanked or criticized.” It is not that I have no complaints. I have, and they are many; but I have set them before God. Your ears have become so full of the praise and caresses of sycophants that they have no room for the voices of those with grievances. But I thank you deeply. You said, “The sanctity of the regime has been torn asunder” and its honor has been robbed. Believe me when I say that in all my life I have never received such glad tidings from anyone. Bravo for announcing the misery and affliction of religious despotism.

I am joyous that finally the sighs of morning prayers have reached the celestial spheres and awakened the fires of divine vengeance. You were prepared to allow God to be shamed, in order to to preserve yourself from shame. To have people turn their backs on piety and religion, but not to turn their backs to your guardianship. That tradition and the path and the truth be crumpled up, so that not a wrinkle would besmirch your leadership. But God did not want this. The pained hearts and muzzled mouths and spilled blood and cut hands did not want it, and prevented it. The pure and the devout and the prophets did not want it. The deprived and the peacemakers and the oppressed and the righteous prevented it.

“The fairy hides her face as the fiend is about,” [a line from Hafez – translator] this is the story of your republic of guardianship. Praise God that the veil of this fiend’s false purity has been torn. His secrets have been disclosed, his hands opened, and his guilt placed before the sunlight. And the world has looked upon its naked form with anger and astonishment.

Mr. Khamenei,

I know that you are passing through bitter and hard times. You have committed an offense, a severe offense. I explained this offense to you twelve years ago. I told you to choose freedom as your method. Forget that it is virtuous and just; choose it as a method of successful governance. Is this what you want? Why are you doing things backwards? Why do you send denouncers and spies among the people to look into their hearts and pull words from their mouths through trickery, and then report lies as truths to you? Leave the press, political parties, associations, critics, teachers, writers… alone. The people will express themselves in a thousand ways and cast open their windows to you and help you in organizing the country and the system. Don’t strangle the press. The press is the breath of society. But you took dead ends and weaving paths. And now you are under the spell of nothingness and have become the prisoner of a closed regime that you yourself created long ago, in which neither criticism, nor opinions, nor science, nor information flourish. You think that by reading confidential bulletins or listening to subservient advisers, you will grasp the reality of what is going on. Both the election of Khatami and the green election of Mousavi must be obvious to you, otherwise disdain and the charms of despotism would not have chased away the knowledge and shrewdness within you. And now, to make up for that sin, which is due to ignorance and despotism, you are turning to even greater crimes. You are washing blood with blood in order to regain purity.

Treason and fraud were not enough, you turned to murder and crime. Treason and crime were not enough, you added the rape of prisoners to everything else. Murder and rape and fraud were still not enough, you added accusations of spying and dishonor to the lot. You did not spare dervishes or clerics or writers or students. And in the end, you reward the killers and wrongdoers. Then you laugh in everyone’s face and take a poor soldier to task for stealing an electric razor. [Translator: Soroush is referring to the student movement of July 1999 in Iran. Dormitories were raided, students beaten and arrested, and an unknown number of people killed. The ensuing trial acquitted all police commanders and security officers, except for one soldier who was fined and imprisoned for stealing an electric razor from the student dorms, and a police officer who was jailed for assault.]

[…]

I knew that bereaved mothers and fathers were weeping behind closed doors and asking God, Save us from this place of oppression and send us succor! […] The prisons were temples where worshippers genuflected day and night, and prayed — and are still praying — to God for the collapse of the guardianship.

When Neda Agha Soltan was martyred, her chest pierced by oppression’s bullet, I wailed to God. Do You not hear the voice of the people? As Jesus said on the cross, I asked “Father, why have You forsaken us?” […]

Until the day when I heard that forced admission, I mean those life-giving words, “The sanctity of the regime has been torn asunder.” It was as if the words had come from You, God. I knelt and thanked You. […]

Mr. Khamenei,

I want to tell you that the page has turned and the regime’s fortunes have shifted. It has been disgraced. […] Even God has turned His face and taken His light from you. Those acts you committed in secret places and behind curtains have been revealed. […] Even the path of repentance has been closed to you. Religion will not intercede in your favor, you who have lost legitimacy. The green Iran will no longer be that black Iran of devastation. This movement’s whiteness and greenness have taken precedence over the blackness of your tyranny. The earth and water and fire and clouds and winds… are aligned against you on God’s orders.

For years, your cohorts and agents, under the umbrella of your protection and guardianship, savaged the people like hungry jackals and took safety and justice away from them. […] They took them prisoner, like an invaded tribe, trampled their rights, plundered their freedoms, broke their dignity, subjugated their thoughts, and turned their religion upside-down. They started producing sanctities as if in a factory and sold superstition as religion. They shoved their treasonous hands into the people’s ballot boxes. They placed the universities under the supervision of the uneducated. They filled a house of woes called the Islamic Republic’s radio-television with lies and insults, and gave the nation lessons on how to despair and be slaves. They created fake and extravagant gatherings and sold lies to the world about how the people loved the regime of the Supreme Leader. In prisons and houses of death, they murdered, raped, committed injustices, assaulted, and tortured to an extent unseen even during the Mongol invasion. They trampled the law and encouraged the science of ignorance and fanaticism. They lifted up the benighted and pushed down the wise. They took joy from the young and dignity from elders. They created colorful ayatollahs and obtained heavy fatwas from them. […] Their psychosis about imaginary enemies created daily crises. People were imprisoned and ridiculous confessions were placed in their mouths and horrendous punishments were meted out. […]

[These acts] lit a blaze in the conscience of the people that burned the house of the guardianship. The post-election protest was neither a military exercise, nor sedition, nor the Zarrar Mosque — a term you have coined in your mint and employ often. [NB The Zarrar Mosque, mentioned in the Koran, was built by religious hypocrites to tempt the true Muslims.] It was an outburst of honor over plunder. The people, with awakened consciences, defended their vote, their elected choice, their rights as citizens, and their freedom of thought in a calm and collected manner against those who would plunder their vote and rights and freedom. The thieves were up in arms, but we heard God’s laughter. He was satisfied with us. He had heard our prayers and had disgraced the murderers and the wrongdoers. Taraneh Mousavi’s death was the death knell of tyranny.

The green movement has been established with determination to create a green Iran. This movement has found its green martyrs, green poets and poetry, its green literature and arts and phrases. It is the fruit of 20 years of efforts on the part of intellectuals and activists in the political and cultural spheres. You are wasting your time trying to break it with your militarism.

This lion is not one that you can escape

There is no escaping the curse of God [from Rumi – translator]

The fading fear of the people and the vanishing legitimacy of the concept of Supreme Leadership are the greatest achievements of the revolt of honor over plunder. The slumbering lion of courage and resistance has been awakened. Neither usurpation by the military, nor rape committed by the corrupt; neither dust thrown in the eyes of humanity, nor hot air to puff up the [regime’s] ragged clothes; neither dependence on animal savagery, nor attacks on human sciences [he refers to a recent speech by Khamenei in which he voices concern that humanities being taught at universities instills secularism – translator]; neither the flattery of flatterers in your pay, nor the poetry of poem-selling fools; none of these will bend the back of the resistance. Religious tyranny has been besieged by blasphemy and religion, and it is time to cut it down in the green fields of the movement. We have asked this of God and God is with us.

There is no sweeter proof of your turning fortunes than the fact that all your celebrations have become mourning ceremonies. And whatever tweaked your mirth once, now brings you tears and tremors. The universities which you wanted to kiss your feet now provoke your nightmares. Street demonstrations, the usual gatherings, Ramadan, Muharram, the Hajj, and mournful prayers have all become curses which work against you.

We are of a fortunate generation. We shall celebrate the disappearance of religious despotism. A moral society and a government beyond religion are the beacons of our Green nation.

We shall cherish and esteem freedom, that same freedom which you did not value and onto which you heaped injustice. You sold fascism and said that freedom is whimsical and permissive. […] If you had allowed the press to be free, it would have divulged corruption and the corrupt would not have dared engage in their misdeeds. If you had allowed people to criticize you, you would not have fallen into the abyss of dictatorship and the corruption of power. The people’s true words would have dispelled your daze of ignorance. They are the schools of the nation, not ‘enemy bases.’ And what would have been so terrifying if the doors of those schools had been kept open and you had been able to learn there?

We will cherish religion, that same religion that you made a tool of your power and in whose name you gave lessons in slavery and melancholy. You did not understand that joy and freedom walk alongside true faith […] and that religious power corrupts both religion and power. Governing a joyous, free, informed, and nimble people is an achievement, not lording over a bound and dejected nation.

I ask myself for whom do I write this? For a regime whose luck has turned? […] And then I recall the words of God:

When some of them said: “Why do ye preach to a people whom Allah will destroy or visit with a terrible punishment?” – said the preachers: “To discharge our duty to our Lord, perchance they may fear Him.” (Qur’an, Sura 164)

O God, bear us witness. I. who have spent a lifetime longing for religion and teaching religion, distance myself from this despotic regime’s oppression, and if I once aided the evildoers out of error or sin, I ask for your forgiveness and absolution. O God of wisdom and virtue, accept our prayers, […] and leave not your friends in the hands of enemies.

Call upon the winds to tear away despotism’s tabernacle, and call on fire to burn away the roots of oppression. Call on the seas to drown the pharaohs and the earth to bury the Qaruns [an arrogant Qur’anic character; for example, see 28:76-83].

Call clouds and rains so that they may rain bounty and justice and joy and compassion upon this wronged people, and that this barren land of oppressors may become the flower meadow of the just.

Water and sea, O God, are at Thy service,

Wind and fire are under Thy command.

If Thou willest, fire will be as cool as water,

Or if Thou wishest, water will become as fire.

O Lord, make Thy wish known,

So the world may be filled with light.

Abdolkarim Soroush

Comments

comments