آج کی شام غزہ کے نام – از وسعت اللہ خان
سنیچر کی شام امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان محترم سراج الحق کی جانب سے سیاسی، سماجی و مذہبی معززین ِ کراچی اور چنیدہ صحافیوں کے لیے دعوتِ افطار کا اہتمام تھا۔اسٹیج کا بیک ڈراپ وہ پینا فلیکس تھا جس پر مسجدِ اقصی کے گنبد کے آگے ایک بلند زخمی خون آلود ہاتھ اٹھا ہوا تھا اور لکھا تھا آج کی شام غزہ کے نام ۔قناتوں پر ہلاک بچوں اور بڑوں کی تصاویر آویزاں تھیں۔
جب میں وہاں پہنچا تو امیرِ جماعتِ اسلامی کا خطاب جاری تھا۔ وہی گفتگو جسے سنتے سنتے ہمارا بچپن براستہ لڑکپن جوانی کے راستے ادھیڑ عمری کے چوک سے مڑتے ہوئے بڑھاپے کی دھلیز تک جا پہنچا ہے۔ وہی گفتگو جو اب تھوتھا چنا باجے گھنا کا محاوراتی پل بھی مدت ہوئی عبور کرچکی۔اباسیوں کا سبب یہ باسی گفتگو ، نہ سننے والے کو معلوم کہ کیا سن رہا ہے، نہ بولنے والے کو پتہ کیا کہہ رہا ہے۔بس کہے چلے جا رہے ہیں، بس سنے چلے جا رہے ہیں۔
جس طرح فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی دشمنی باقی دنیا کی روزمرہ زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے اسی طرح اس دشمنی میں شدت آنے پر چند روزہ واویلائی ردِ عمل بھی ایک روایت بن چکا ہے۔اس کا مقصد کسی اور کو نہیں اپنے ہی دل و دماغ کو سمجھانا ہوتا ہے کہ میں نے فلسطینوں کی حمایت کرکے اور اسرائیل پر چار حرف بھیج کے اپنا فرض پورا کردیا۔ اب بھاڑ میں جاؤ تم اور جہنم میں جائے اسرائیل اور امریکہ بھی۔
سراج الحق صاحب نے فرمایا کہ آج پھر امتِ مسلمہ محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کو پکار رہی ہے۔( حالانکہ محمد بن قاسم نے جب سندھ فتح کیا تو وہاں کوئی نصرانی اور یہودی نہیں تھا۔نہ ہی راجہ داہر نے خلافت بنو امیہ پر فوج کشی کی تھی۔جبکہ صلاح الدین ایوبی نے ساری جنگیں یورپ سے حملہ آور ہونے والے صلیبوں سے لڑی تھیں اور صلیبی یہودیوں اور مسلمانوں کے یکساں دشمن تھے )۔محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کو اس جھگڑے میں گھسیٹنے کے بجائے زیادہ موزوں جملہ یہ ہو سکتا تھا کہ آج پھر امتِ مسلمہ کسی ہٹلر کو پکار رہی ہے۔لیکن شاید یہ کہنا اس لیے مناسب نہ ہوتا کہ کئی حکمرانوں کی پیشانیوں پر بل پڑ سکتے تھے۔
آگے فرمایا کہ عالمِ اسلام کو متحد ہو کر صیہونیت کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ویسے تو سعودی عرب کو عالمِ اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ضرورت ہے کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم اور عرب لیگ کو فعال کیا جائے۔ہائے ہائے ۔۔۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
پھر فرمایا اگرچہ عالمِ اسلام کے حکمران سو رہے ہیں مگر امتِ مسلمہ جاگ رہی ہے۔اگر عزم اور نیت ہو تو جنگل کے جانور بھی راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔کچھ تلواروں کا بھی ذکر ہوا۔ فلسطینیوں کو باہمی اختلافات ختم کرنے اور متحد ہونے کی بھی تلقین کی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ فلسطینی خود کو تنہا نہ سمجھیں، پورا عالمِ اسلام ان کے ساتھ ہے۔ وقت آنے پر ہم میں سے ہر ایک ان کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دے گا۔
تاہم یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کون سا وقت آئے گا جب عالمِ اسلام میں سے ہر ایک خون کا آخری قطرہ بہائے گا۔ ویسے سب جوشیلے مقرروں کو خون کا آخری قطرہ بہانے سے ہی اتنی دلچسپی کیوں ہے۔خون کا پہلا قطرہ بہانے کی بات کوئی نہیں کرتا۔لیکن قطرہ بھلے آخری ہو یا پہلا، جب باتوں میں ہی بہنا ہے تو کوئی سا بھی بہا لیں۔ویسے میں نے آج تک قطرہ ٹپکتے تو دیکھا ہے بہتے بھی کسی دن دیکھ ہی لوں گا۔
اس تقریرِ پرتاثیر سے اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجانے سے زیادہ مقصود سات سے ساڑھے سات بجانا تھا۔سو جب اذان کی آواز بلند ہوئی تو امیر صاحب سمیت تمام روزہ داروں نے پرنم آنکھوں کے ساتھ کھجور اٹھائی ، خون کے رنگ کا ٹھنڈا روح افزا انڈیلا اور غزہ کے پیاسوں کو یاد کرتے ہوئے روزہ کھولا۔
نمازِ مغرب کے بعد شہدائے غزہ کے لیے بلند درجات اور ان کے مصائب کے خاتمے کے لئے دل ہی دل میں دعا مانگی گئی۔اور پھر ٹوٹے دل کے ساتھ قورمہ ، بریانی ، کھیر اور آئس کریم کی جانب نگاہ کی گئی۔کچھ نے کھانے کے بعد غزہ کے بھوکوں کو یاد کرتے ہوئے دور خلاؤں میں نگاہیں گاڑ کر سگریٹ سلگا لی اور باقی سلگتے دلوں کے ساتھ ڈکار لیتے لیتے اپنے اپنے گھروں اور کاموں کو رخصت ہوئے ۔اس وقت غزہ میں لگ بھگ پانچ بج رہے تھے اور اذانِ عصر بمباری کی گونج سے لگاتار لڑ رہی تھی۔
Source :
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/07/140720_baat_say_baat_sq.shtml