اہل تسنن فلسفی اور شاعر فرید عطار کا امام علی (ع) کے لئے نذرانہ عقیدت
شد بدوش احمد رشک ملک
چوں دعاےُ مستجاباً بر فلک
چوں ز دوش احمد پس باز گشت
بر دل پاک علی ایں راز گشت
کز ادب کارے کہ کردم دور بود
پاےُ من کف نبی الله بود
شبنم از گلبرگ رخسارش یکی
نو بہارش را خزان غم رسی
گفت بہ وے سرو بستان خدا
کے نہال بوستان ھل اتیٰ
من شب معراج چوں بالاشدم
تا بہ خلوت گاہ او ادنیٰ شدم
شوق وصل دوست در جانب شتاب
رعشی در روح و ارکانم شتاب
دستے آمد دوش ہوشم را سپرد
از درونم وحشت او نہال برد
سالہا اندر پےُ اش ابشاتم
پس کف پاےُ تو اکنوں یافتم
نیست خالی از تو جاےُ یاعلی
کفر گر نبود – – یاعلی
(فریدالدین عطار نیشاپوری —— ١١٤٥ – ١٢٢٠)
فرید عطار ایک نابغہُ روزگار شاعر ، فلسفی، اور صوفی ہیں. ان کا تعلّق اہل تسنن سے ہے اور یہ اشعار ان کی مشہور مثنوی “مظہر العجائب” سے لیے گئے ہیں.
١) احمد کے کاندھوں پر علی یوں آےُ
جیسے قبول ہونے والی دعا بلند ہوتی ہے.
٢) جب دوش احمد سے علی واپس اترے
تو علی کے پاکیزہ دل میں ایک مرتبہ یہ بات آئی
٣) میں نے جو کام کیا وہ ادب سے سوا تھا (بے ادبی تھی)
میرے پاؤں نے الله کے نبی کے بازو کو چھوا ہے
٤) آنکھوں میں علی کے آنسو آ گئے
اور اس بہار کے پھول پر غم کی خزاں چھائی
٥) (رسول نے دیکھا علی کو روتے ہوےُ تو) گلستان خدا کے سرو نے کہا
اے ھل اتیٰ کے باغ کے نہال کیا ہوا
(روتے کیوں ہو علی؟ تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ تم نے کیا کیا ہے – تو سنو – علی سنو)
٦) جب میں شب معراج اوپر پہونچا
اور خلوت گاہ او ادنیٰ تک پہونچا
٧) ایک مرتبہ ایسی کیفیت پیدا ہوئی کے معشوق سے نزدیکی تھی – الله سے نزدیکی تھی
اس حیرانی کے عالم میں میری روح میں رعشہ اور جسم میں کپکپی نے آ لیا
٨) کہ ایک ہاتھ میری پشت پر آیا اور میرے ہوش ٹھکانے لگے
جیسے ہی وہ ہاتھ محسوس ہوا میری وحشت کافور ہو گئی (میرا دل سنبھلا، میرے دل میں ٹھنڈک ہوئی اور میرا خوف رخصت ہوا)
٩) (یاعلی) اس روز سے میں سالوں سرگرداں رہا کہ وہ لذّت پھر کب نصیب ہو
پس آج میں نے اسے تیرے پیروں کے نیچے پایا