حضرت علی علیہ السلام مسیحی مصنف جارج جرداق کی نظرمیں
مسیحی مصنف جارج جرداق کی امام علی علیہ السلام کے بارے میں لکھی ہوئی کتاب “ندائےعدالت انسانی”سے کچھ اقتباسات
امیر الموٴمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے جس سے اپنے اور غیرسبھی مفکرین اور دانشمند متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ جس کسی نے اس عظیم انسان کے کردار،گفتار اور اذکار میں غور کیا، وہ دریائے حیرت میں ڈوب گیا۔ غیر مسلم محققین اور دانشوروں نے جب امام المتقین علیہ السلام کے اوصاف کو دیکھا تو دنگ رہ گئے کیونکہ انہوں نے افکارِ علی کو دنیا میں بے نظیر اور لاثانی پایا۔لبنان کے مشہور عیسائی محققق، دانشور اور لکھاری جارج جرداق نے حضرت علی علیہ السلام کی سیرت پر “ندائے عدالت انسانی” نامی مشہور کتاب لکھی ہے، جارج جرداق کے مطابق جب اس نے اس کتاب کو مکمل کیا تو کوئی بھی پبلشر اس کتاب کو شائع کرنے پر راضی نہیں تھا، وہ کہتا ہے کہ اسلئے میں بےچین ہو کر لبنان کے ایک چرچ میں چلا گیا جہاں ایک عیسائی بشپ نے میری بےچینی کی وجہ پوچھ کر مجھے ایک تھیلی میں رقم دے کر کتاب چھاپنے کا کہا، جب یہ کتاب چھپ گئی اور لبنان سمیت دنیا بھر میں اس سے منافع حاصل ہوا تو میں نے بشپ کو رقم تھیلی میں بند کرکے شکریہ کے ساتھ واپس کرنا چاہی لیکن بشپ نے جواب میں کہا کہ اس میں شکریہ اور احسان کی کوئی بات نہیں میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے ان احسانوں کا ایک معمولی سا شکریہ ادا کیا ہے کہ جب حضرت علی امیرالمومنین و خلیفتہ المسلمین بن گئے تو آپ نے تمام اقلیتوں بشمول عیسائیوں کے نمائندوں کو طلب کیا اور فرمایا کہ مجھ علی کے دور میں تم اقلیتوں کو تمام تر اقلیتی حقوق اور تحفظ حاصل رہے گا، اسلئے حضرت محمد رسول اللہ (ص) کے بعد اس کے وصی امیر المومینن حضرت علی (ع) کا دور خلافت اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے ساتھ مثالی ترین دور تھا ،جس میں اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے خلاف کہیں بھی ظلم و جبر نہ ہوا اسلئے میں (بشپ) نے علی (ع) کے احسان کا معمولی شکریہ ادا کیا ہے جارج جرداق جا کر یہ رقم غریبوں میں بانٹ دو۔
جارج جرداق کی امام علی علیہ السلام کے بارے میں لکھی ہوئی کتاب ندائےعدالت انسانی سے کچھ اقتباسات قارئین کے پیش خدمت ہے۔
جارج جرداق اپنی کتاب میں لکھتا ھے کہ انسانی معاشرہ میں واحد لیڈر علی بن ابی طالب (ع) ھیں جنھوں نے انسانیت اور عدالت کی بنیاد پر بیت المال کی تقسیم کی ھے۔ جب آپ (ع) نے اھل کوفہ سے سوال کیا کہ کیا تم میں کوئی ایسا ھے جو بھوکا ھو تو سب نے کھا یا علی ! آپ حاکم ھیں، اب یھاں کوئی بھوکا نھیں ھے ۔ سوال کیا کوئی ھے جس کے پاس لباس نہ ھو ؟ سب نے کھا یا علی ! اب سب کے پاس لباس ھے ۔ سوال کیا کوئی ھے جس کے پاس مکان نہ ھو ؟ سب نے کھا یا علی ! سب کے پاس مکان ھے ۔ امام علی (ع) نے عدالت کا جو نمونہ پیش کیا اسے دیکہ کر دنیا آج تک حیرت زدہ ھے ۔
جارج جرداق اس واقعہ کا بھی ذکر کرتا ھے جب امام علی (ع) نے ایک بوڑھے یھودی کو کوفہ میں بھیک مانگتے ھوئے دیکھا تھا ۔ امام نے سوال کیا کہ یہ میری حکومت میں بھیک کیوں مانگ رھا ھے ۔ اس نے کھا یا علی ! کل تک مجھ میں قوت تھی ، میں کام کرتا تھا لیکن اب مجھ میں قوت نھیں رھی ۔ امام نے فرمایا اس کی تمام ضرورتوں کو بیت المال کے ذریعہ پورا کیا جائے اور اسے ماھانہ وظیفہ دیا جائے ۔ کسی نے کھا یا علی !یہ یھودی ھے ۔ آپ نے فرمایا یہ ایک انسان ھے جب تک اس کے جسم میں قوت تھی اس نے معاشرے کی خدمت کی ھے ۔ اب حکومت کی ذمہ داری ھے کہ اس کی ضرورتوں کو پورا کرے ۔ یہ علی بن ابی طالب(ع) ھیں جنھوں نے انسانی بنیادوں پر تقسیم اموال کی ھے ۔ یہ عدالت انسانی کی آواز ھے اور عدالت کے حدود عالمی حدود ھیں ۔ اس پر غور و فکر ھونا چاھئے ،اس پر گفتگو اور کام ھونا چاھئے ۔
ایک اور جگہ ندائے عدالت انسانی میں لکھا ہے’’علی ؑ کی تمام تر توجہ مساوات وعدل کے قوانین کو موثر طریقے سے بروئے کار لانے پر مرکوز تھی۔ ان کے افکار اور انداز فکر حکومت اور ان تمام تر حکمت اسی مقصد کے حصول کے لئے وقف تھی ۔ جب کسی ظالم نے عوام کے حقوق کی پاعمال کی یا کسی کمزور سے تحقیر آمیز رویہ اختیار کیا علی ؑ اس سے سختی سے نمٹے ‘‘۔
حضرت علی ؑ نے معاشرتی زندگی میں عدل کو کتنا لازمی قرار دیا ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
ایک دن کچھ لوگ جنہوں نے آپ کی بیعت بھی کررکھی تھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم آپ کے خیر خواہ ہیں آپ کو یہ مشورہ دینے آئے ہیں کہ اگر آپ اشراف عرب کو دوسروں پر ترجیح دیں تو ان کی پیش رفت کے لئے مناسب ہوگا۔ آپ اس تجویز سے ناراض ہوئے اور فرمایا کیا تم مجھے یہ حکم دیتے ہوکہ میں رعایا پر ظلم کروں یا دوستوں کا ایک گروہ اپنے گرد جمع کرلوں ؟ خدا کی قسم جب تک دنیا موجود ہے اور ستاروں کی گردش باقی ہے میں یہ کام نہیں کرسکتا ۔ اگر یہ مال میرا اپنا بھی ہوتا تو بھی اسے برابر تقسیم کرتا جبکہ یہ مال تو ہے ہی خدا کا‘‘۔
ایک جگہ جارج جرداق اپنی کتاب میں لکھتا ھے ۔
تاریخ اور حقیقت ِانسانی کیلئے یکساں ہے کہ کوئی علی علیہ السلام کو پہچانے یا نہ پہچانے.تاریخ اور حقیقت ِ انسانی خود گواہی دے رہی ہے کہ علی علیہ السلام کا ضمیر زندہ و بیدار تھا۔ وہ شہید ِراہِ خدا تھے اور شہداء کے جد تھے، عدالت ِ انسانی کی فریاد تھے۔ مشرق کی ہمیشہ زندہ رہنے والی شخصیت تھے۔
ایک کُلِ جہان! کیا تیرے لئے ممکن ہے کہ باوجوداپنی تمام قوتوں کے ، اپنی ترقیِ علم و ہنر کے علی جیسا ایک اور انسان جو علی جیسی عقل رکھتا ہو، اُسی جیسا دل ، ویسی ہی زبان اور ویسی ہی تلوار رکھتا ہو، اس دنیا کو دے دیتی؟
اکیس رمضان حضرت علی کی شہادت کا دن ہے.آپ کی شہادت سے متعلق جارج جرداق یوں لکھتا ہے۔
علی (علیہ السلام)مسجد میں آئے رب العزت کے حضور سر جهکایا- ابن ملجم زہر الود تلوار ہاتھ میں لئے آیا اور حضرت کے سرپر وار کیا کہ جس کے متعلق اس کاکہنا تها کہ اگر یہ وار سارے شہر کے باشندوں پر پڑے تو ایک شخص بهی زنده نہ بچے۔
خدا کی لعنت ہو ابن ملجم پر اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو اس پر، اس پر دنیا میں ہر آنے والے اور دنیا سے ہر جانے والے کی لعنت ہو. ہر اس شخص کی لعنت ہو جو خدا کے حکم سے پیدا ہؤا. خداوند عالم ابن ملجم پر ایسی لعنت کرے کہ وہ لعنت دریاؤں پر پڑے تو وہ خشک ہوجائیں، کهیتوں پر پڑے تو وه نیست و نابود ہوجائیں اور سرسبز پودوں کو زمین کے اندر ہی جلا کر راکھ کردے. جہانوں کا خالق و مالک جہنم کے بهڑکتے شعلے اس پر مسلط فرمائے اور اسے منہ کے بل جہنم میں دال دے. اس جگہ جہاں آگ کے شعلے لپک رہے ہوں اور قہر الہی کا جوش و خروش ظاہر کررہے ہوں.
محبان علی (علیہ السلام)کو عظیم ترین صدمہ پهنچا، زمانے نے علی (علیہ السلام)پر گریہ کیا، اور آنے والے صدیان بهی علی (علیہ السلام)پر گریہ کریں گی. دنیا کی ہر چیز شکستہ و اندوہگین ہوئی سوائے علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) کے جن کا چہرہ ہشاش بشاش تها. آپ (علیہ السلام)نے نہ انتقام کی خواہش ظاہر کی نہ غیظ و غضب کا اظہار کیا بلکہ ” فزت برب الکعبة” کہہ کر اپنی کامیابی کا اعلان فرمادیا. لیکن آپ (علیہ السلام)کے چہرے کی بشاشت تمام مصائب و آفات سے بڑھ کر اندوہناک تهی اس وقت آپ کا چہره سقراط کے چہرے سے مشابہ تها جس وقت جاہل اورنادان عوام نے اسے زہر پلایا تها، عیسی ابن مریم (علی نبینا و آلہ و علیہ السلام)کے چہرے جیسا تها جب کہ قوم یہود آپ (علیہ السلام)کو کوڑوں سے اذیت پهنچا رہے تهے، محمد مصطفی (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کے چہرے جیسا تها جب آپ (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) پر طائف کے نادان پتهر برسا رہے تهے اور یہ نہ سمجھ رہے تهے کہ ہم کس بزرگترین ہستی کو یہ پتهر مار رہے ہیں. علی بن ابی ابیطالب-ع-
کوفہ کا سب سے بڑا طبیب حاذق اثیر بن عمرو ہانی آیا اور زخم کے معائنے کے بعد اس نے مأیوسی کا اظہار کیا، آپ نے حسن اور حسین (علیہما السلام) کو اپنے پاس بلاکر وصیتیں فرمائیں جن میں سے چند جملے یہ ہیں:
” میرے قتل کی وجہ سے ہنگامہ یا خونریزی نہ کرنا، اپنے پڑوسیوں کا لحاظ کرنا، فقراء اور مساکین کا خیال رکهنا اور انہیں بهی اپنی روزی اور معاش میں شریک رکهنا، اچهی بات کہنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرنا، آپس میں لطف اور مہربانی سے پیش آنا، بی تکلفی اور سادگی برتنا، ایک دوسرے سے نہ کٹنا، متفرق نہ ہونا و… بروز جمعہ صبح کے وقت آپ (علیہ السلام)کے فرق مبارک پر ضربت لگی تهی اس کے بعد دو روز تک انتہائی کرب و اذیت کے عالم میں زنده رہے مگر آپ (علیہ السلام)نے اف تک نہ کی، لوگوں کو احسان و نیکی اور رحم و کرم وصیت فرماتے
رہے. ماه رمضان کی اکیسویں شب کو آپ (علیہ السلام)نے اس دنیا سے رحلت فرمائی.
آپ دنیا سے رخصت ہوگئے اور اپنے بعد ایسا خاندان چهوڑ گئے جس کا ایک ایک فرد راه حق میں شہید ہؤا، اپنے بعد دکهیاری بیتی زینب (سلام الله علیہا) کو دنیا بهر کے مصائب و آلام جهیلنے کے لئے چهوڑ گئے اور دنیا نے ان کے ساتھ وه بے رحمی و شقاوت کا سلوک کیا جیسا کسی کے ساتھ نہ کیا ہوگا. حسن اور حسین (علیہما السلام) کو ابوسفیان کی اولاد اور دیگر خون کے پیاسے دشمنوں میں چهوڑ گئے
علی (علیہ السلام)اور فرزندان علی (علیہم السلام) کے خلاف سازش کا پہلا دور تمام ہؤا، اس کے بعد بے شمار دور آئے اور ہر دور اپنی آغوش میں ہولناک تر اور سخت تر اور شدید تر مصائب لئے ہوئے تها.
امام (علیہ السلام)اپنے دشمنوں کو دنیا میں زندہ چهوڑ گئے لیکن ان کی یہ زندگی عین ہلاکت تهی.علی محراب کوفہ میں اپنی شدت عدل کی بنا پر مارے گئے تهے
حوالہ
کتاب”امام علی ندائے عدالت ِ انسانی“، تالیف: جارج جرداق،ترجمہ: سیدہادی