سندھ میں مذھبی انتہا پسندی کا پھیلاؤ، نیویارک ٹائمز کے ڈیکلن والش اور صبا امتیاز کے فکری مغالطے – از علی عباس تاج
ادارتی نوٹ: امریکی اخبار روزنامہ نیویارک ٹائمز کی 16 جولائی 2014ء کی اشاعت میں اس کے نمائندے ڈیکلان والش جن کو پاکستان سے ناپسندیدہ صحافی قرار دیکر نکال دیا گيا تھا نے خیر پور سندھ سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی صبا امتیاز کے ساتھ ملکر سندھ میں پھیلتی مذھبی انتہآ پسندی کے بارے میں ایک آرٹیکل لکھا ہے اور اس آرٹیکل میں ایک مرتبہ پھر مذھبی انتہا پسندی اور دھشت گردی کی جڑ کو غلط طور پر شیعہ-سنّی بائنری کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور اس پورے مضمون میں ریاست اور سول سوسائٹی کے ان کرداروں کو چھپانے کی کوشش کی ہے جو اس کے پھیلاؤ کے زمہ دار ٹھہرتے ہیں ،اس گول مول ڈسکورس کا تعمیر پاکستان ویب سائٹ کے ایڈیٹر انچیف علی عباس تاج نے تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اس کا تنقیدی محاکمہ اور تعاقب کیا ہے ،جسے قارئین کی دلچسپی کے لیے ذیل میں پیش کیا جارہا ہے
مذھبی انتہا پسندی کا سندھ میں پھیلاؤ ،ڈیکلان والش اور صبا امتیاز کہاں غلط ہیں ؟
صبا امتیاز اور ڈیکلان والش نے روزنامہ نیویارک ٹائمز میں حال ہی میں ایک آرٹیکل لکھا ہے جس میں صوبہ سندھ کے اندر تیزی سے پھیلتی مذھبی انتہا پسندی اور اقلیتوں ،صوفی مزارات ،مندروں ،گرجا گھروں پر بڑھتے ہوئے حملوں اور دیوبندی فرقہ پرست تنظیم اہل سنت والجماعت /سپاہ صحابہ کے پھیلتے ہوئے نیٹ ورک کا زکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کس طرح صوفی ازم سے سرشار اور مذھبی ہم آہنگی کی آئینہ دار دھرتی مذھبی انتہا پسندی سے مغلوب ہوتی نظر آرہی ہے
تعمیر پاکستان ویب سائٹ اور اس پر لکھنے والے بہت سے لکھاری بہت پہلے سے اندرون سندھ مذھبی انتہا پسندی اور دھشت گردی کے پھیلاؤ کے بارے میں نشاندھی کرتی آرہی ہے اور جب اس نے اندرون سندھ مذھبی انتہا پسندی کے اثر کے ترقی کرنے کے بارے میں لکھنا شروع کیا تھا تو بہت سے لوگ اسے ایک مفروضہ خیال کرتے تھے لیکن اب اس کو حقیقت ظاہرہ کے طور پر دیکھا جارہا ہے
لیکن نیویارک ٹائمز ڈیلی میں ڈیکلان والش اور صبا امتیاز نے ایک مرتبہ پھر اسی پرانے فکری مغالطے کا اعادہ کیا ہے جو وہ اس سے پہلے بھی پاکستان میں مذھبی انہا پسندی اور دھشت گردی کی بنیادی وجہ کی تلاش کرتے ہوئے کرتے آئے ہیں
ڈیکلان والش اور صبا امتیاز نے سندھ میں دھشت گردی اور انتہا پسندی کو شیعہ-سنّی بائنری کے غلط تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کو شیعہ-سنّی غلط تناظر دیتے ہوئے ان کو ایک منٹ کے لیے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ اگر شیعہ-سنّی بائنری اس مذھبی دھشت گردی کی واحد وجہ ہے تو پھر دیوبندی اور سنّی بریلوی ایک پیج پر اس معاملے پر کیوں نہیں ہیں ؟
پاکستان میں سب جانتے ہیں کہ دیوبندی فرقہ پرست اور انتہا پسند تنظییموں کا مذھبی انتہا پسندی اور دھشت گردی میں اہم اور بنیادی کردار ہے اور اس کی متاثرہ صرف شیعہ کمیونٹی نہیں بلکہ سنّی بریلوی ،کرسچن ،احمدی ،ہندؤ بھی ہیں اور دیوبندی دھشت گردی کے نشانے پر شیعہ امام بارگاہیں اور مساجد ہی نہیں بلکہ سنّی بریلویوں کے مزارات ،مساجد ،عیسائی برادری کے گرجا گھر ،احمدی مراکز اور ہندؤں کے دھرم شالہ بھی ہیں اور حملہ آوروں اور ٹارگٹ کلرز میں 99 فیصد دیوبندی دھشت گرد ملوث ہیں جبکہ دیوبندی مدارس کا دھشت گردی میں ملوث ہونا بھی اظہر من الشمس تو اسے شیعہ-سنّی لڑائی اور شیعہ -سنّی تنازعے کا نتیجہ قرار دینا یا تو فکری مغالطہ ہے یا پھر یہ جانتے بوجھتے صحافتی و علمی بدیانتی کا ارتکاب کرنا ہے
مذھبی انتہا پسندی میں نام نہاد لبرلز سیاسی جماعتوں ،عدلیہ ،ملٹری و سول اسٹبلشمنٹ کی جانب سے مصلحتوں ،بدترین موقعہ پرستی اور ان کا سعودیہ عرب و گلف ریاستوں کے حکمرانوں اور نجی فرقہ پرست شیوخ سے گٹھ جوڑ کا کردار بھی اہم ہے جس کا تذکرہ کرنا دونوں صاحبان نے نہیں کیا
اسی طرح سے فیک لبرلز ،فیک سول سوسائٹی اور نام نہاد آزاد پاکستانی میڈیا نے بھی مذھبی انتہا پسندی کے پھیلاؤ میں گھناؤنا کردار ادا کیا ہے جس کا تذکرہ سرے سے ہی ہمیں ان دونوں کے لکھے گئے مضمون میں نہیں ملتا
کیا یہ بات آن دی ریکارڑ نہیں ہے کہ جب عاشورہ محرم کی بات ہو یا عید میلاد کی تو بقول علی عباس تاج ایڈیٹر انچیف تعمیر پاکستان ویب سائٹ جو رویہ اور موقف محمد احمد لدھیانوی کا ہوتا ہے وہی فیک لبرل اور فیک سول سوسائٹی کا ہوجاتا ہے
اسی طرح سے حامد میر ،نجم سیٹھی ،رضا رومی اور ان جیسے درجنوں صحافی اور اینکرز ہیں جنھوں نے اہل سنت والجماعت جیسی دیوبندی ،فرقہ پرست خون آشام تنظیم کے لیڈروں کو اپنے ٹی وی ٹاک شوز میں بلاکر پوری کوریج دیتے رہے اور ان کو امن کا سفیر بناکر پیش کیا جاتا رہا ہے
سندھ میں مذھبی انتہا پسندی کے پھیلاؤ کی زمہ داری سے خود پاکستان پیپلز پارٹی کو اور اس کی حکومت کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ سندھ میں پی پی پی 2008ء سے ابتک برسراقتدار ہے اور اس نے سندھ میں اہل سنت والجماعت /سپاہ صحابہ پاکستان کے پھیلتے ہوئے نیٹ ورک اور اس کی قیادت جیسے اورنگ زیب فاروقی وغیرہ ہیں کو روکنے کی کوشش نہیں کی اور بلکہ اورنگ زیب فاروقی جیسے انتہا پسندوں کو پولیس پروٹیکشن اور ان کو پورے سندھ میں نفرت پھیلانے کی کھلی چھٹی دی ہوئی ہے
ہونے کے کھلے ثبوت سامنے آئے اور اس حوالے سے ٹی وی رپورٹ بھی سامنے آئی لیکن تاحال ان دو مدرسوں حال ہی میں کراچی کے دو دیوبندی مدرسوں کے دھشت گردی میں ملوث ہونے کے خلاف سندھ حکومت نے کوئی کاروائی نہیں کی جس طرح سے اور بہت سے دیوبندی مدرسوں کے خلاف کاروائی تاحال نہیں ہوئی ہے