اسرائیل صرف حماس کو نشانہ نہیں بنا رہا، مرنے والوں میں اکثریت سویلینز کی ہے – اسرائیلی صحافی ہگائی ماٹر
ایڈیٹر نوٹ : یہ آرٹیکل عبرانی زبان میں اسرائیل کے معروف بلاگر ہگائی ماٹر نے لکھا ہے – یہ آرٹیکل انگریزی میں ایک سیکولر ویب سائٹ نے ترجمہ کیا ہے – یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ویب سائٹ اسرائیل میں وہی کردار ادا کر رہی ہے جو کردار پاکستان میں تعمیر پاکستان ادا کر رہی ہے – ہم یہ آرٹیکل اپنے قارئین کے لئے اس مقصد سے شائع کر رہے ہیں کہ انھیں یہ بتایا جا سکے کہ اگر اسرائیل میں اکثریت تو نہیں تو پھر بھی ایسے لوگ بری تعداد میں مجود ہیں جو گزا پر ہونے والے حملوں کی کھلے عام مخالفت کر رہے ہیں –
یہ بات دل کے اطمینان کے لئے کافی ہے کہ فلسطین کے لئے آواز اٹھانے کے لئے اسرائیل میں بھی لوگ موجود ہیں – ہم امید کرتے ہیں کہ اسرائیلی اور فلسطینی ایک دوسرے کے حقوق یا کم سے کم انسانی حقوق کے لئے مل کر آواز اٹھاتے رہیں گے
ایک سو ساٹھ سے زیادہ لوگ قتل ہو چکے ہیں ، مکان ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے ہیں ، ہسپتالوں ، سکولوں صحافیوں اور گاڑیوں پر ہزاروں تن وزنی بارود برسایا جا چکا ہے – ہاں ہم صرف حماس کو نشانہ نہیں بناتے –
ہفتے کی شام کو حماس کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ وہ رات نو بجے اسرائیل پر حملہ کرے گی اور اس نے ایسا ہی کیا لیکن یہ راکٹ حملے اسرائیل کے دفاعی نظام آئرن ڈوم نے ناکام بنا دیے – اتوار کی سبھا اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ دوپہر میں شمالی غزہ پر بمباری کری گا – کیا اپ کو اس کوئی فرق نظر آتا ہے ؟ مجھے تو نہیں آتا –
اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ اسرائیل کی بمباری میں ایک سو ساٹھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں سے کم از کم چوبیس معصوم بچے ہیں –
ایک بڑی آبادی ان حملوں سے متاثر ہو چکی ہے – ان حملوں کا نشانہ زیادہ تر رہائشی عمارتیں بنتی ہیں – کبھی حملے سے پہلے وارننگ دی جاتی ہے اور کبھی نہیں دی جاتی – اسرائیلی فوج کے مطابق وہ اس معاملے میں کم سے کم ایک بار غلطی کا شکار ہوئی ہے -اور اس غلطی کے نتیجے میں ایک خاندان کے آٹھ افراد مارے گیے
باز مواقع پر تو حماس سے تعلق رکھنے والے افراد کے گھروں پر حملے کے گیے جس میں ان کے خاندان کے لوگ یا پاس سے گزرنے والے بے گناہ افراد اسرائیلی حملوں کا نشانہ بن گیے
کبھی اسرائیلی فوج کسی گھر پر حملے کا اعلان کرتی ہے اور پھر حملہ نہیں کرتی – صحافی ابیر ایوب اور ان کے خاندان نے چوبیس گھنٹے انتظار کیا اور ابھی بھی انتظار کر رہے ہیں کیوں کہ ان کے ساتھ والے گھر کو حملے کی وارننگ دی گیی لیکن حملہ نہیں کیا گیا –
ابھی کچھ دن پہلے اسرائیل نے ایک لاکھ آبادی والے ایک علاقے کے مکینوں کو اپنے گھر چھوڑنے کے لئے کہا -یہ بات نا قابل یقین ہے کہ ایک لاکھ آبادی والا سارا علاقہ حماس کی پناہ گاہ ہو سکتا ہو –
ایک سوال کے جواب میں اسرائیلی فوج کا جواب تھا کہ ہم سویلینز کو نشانہ نہیں بناتے صرف حماس کے دہشت گردوں پر حملہ کرتے ہیں – میں نے پوچھا کہ کیا حملہ کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ اسی پر حملہ کیا جا رہا ہے جس پر کیا جانا چاہے – جیسے شہبی کے ساتھ ہوا – اس کی کار پر حملہ کیا گیا – اور اس سلسلے میں حملے کس کیٹگری میں ہونے کی صورت میں کیا جاتا ہے ؟ – اسرائیلی فوج نے اس بارے میں کسی قسم کا جواب دینے سے انکار کر دیا
جن مقامات پر حملے کے گیے ہیں ان میں سے پانچ ہسپتال اور کلینک ہیں جب کہ بتیس سکول ہیں – غزہ میں جو خاتون اور بچہ بھی لکھ سکتا یا بول سکتا ہے اس نے صرف ایک ہی بات کا اظہار کیا ہے کہ ہم نہیں جانتے ہم کسی بھی وقت کہیں سے بھی کسی بھی وجہ سے نشانہ بن سکتے ہیں – کیوں کہ اسرائیلی فوج براہ راست ہم پر حملہ آور ہوتی ہے
اب کیا کیا جانا چاہیے؟؟ خاص طور پر جب حملوں میں زیادہ بے گناہ مارے جا رہے ہیں – حملے میں بھی وہ جن کی کبھی وارننگ دی جاتی ہے اور کبھی نہیں – اور ایک صحافی کو تو کسی بھی وارننگ کے بغیر نشانہ بنا کر مار دیا گیا – ڈیڑھ سے زیادہ لوگوں کو مار دیا گیا جن میں سے زیادہ تر بچے ہیں اور ایک بہت بڑی آبادی ہے جو یہ سوچ رہی ہے کہ ان کے پاس کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے –
حماس کے راکٹ حملوں کے بدلے غزہ میں معصوموں کو مارنا کوئی حل نہیں – حال ہی میں حماس اور فتح کے درمیان ایک امن معاہدہ ہوا تھا دونوں نے ایک دوسرے کی عوامی نمائندگی کو تسلیم کیا جو کہ کافی وقت سے نہیں ہو سکا تھا – فلسطین کی موجودہ حکومت دو ریاستی فارمولا کے تحت مذاکرات کرنا چاہتی ہے لیکن اسرائیل اس اتحاد کا حامی نہیں ہے – یہ اسرائیل ہی ہے جس نے تین یہودی نو جوانوں کے اغوا کو بنیاد بنا کر حماس کے خلاف ایک بلا جواز آپریشن شروع کر دیا اور اب مذاکرات کے بجاے حملے جاری رکھنے پر بضد ہے –
غزہ پر حملوں کو اب روکنا چاہے اور حماس کے ساتھ مذاکرات کے جانے چاہیے – دوسری جانب فتح کے رہنما محمود عباس سے بھی سنجیدہ مذاکرات ہونے چاہیے یہ غزہ اور اس سے ملحقہ علاقوں کے لئے امن لانے میں انتہائی اہم کردار ادا کرے گا – یہ ایک فوری عمل نہیں ہے جو کل یا پرسوں تک ہو جائے – یہ ایک طویل عمل ہوگا لیکن ایک اور سیز فائر کی خلاف ورزی تک نہیں ، ایک اور اغوا یا حملے تک نہیں بلکہ اس کی پائیداری مستقل ہونی چاہیے
Translation Source :
https://lubpak.com/archives/317382