شیطان بھی جو نہ کرسکے کرتے ہیں طالبان
الطاف حسین گذشتہ کئی سالوں سے ملک کو طالبانائزیشن اور دھشت گردی کے خطرے سے آگاہ کرریے تھے مگر ان کی باتوں کا مذاق اڑایا گیا لیکن بالاخر پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں طالبان کی حامی سیاسی اور مذھبی قوتوں کی مخالفت اور پروپگینڈے کو نظر انداز کرکے وہاں فیصلہ کن آپریشن کا فیصلہ کر ہی لیا.پاک فوج کے اس اقدام کی کچھ نے کھل کر حمایت کی اور کچھ نے بادل نخواستہ نہ چاہتے ھوۓ بھی اس کی حمایت کی اور کچھ نے دبے الفاظ میں اور کچھ نے کھل کر مخالفت بھی کی
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا صرف شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے سے ملک میں دہشت گردی ختم ہوجاۓ گی
میں نے اپنی کئی مضامین میں کہہ چکا ہوں طالبان صرف ایک گروپ نہیں ہے جو ایک مخصوص علاقے میں رہتا ہو اور اس کے خلاف فوجی آپریشن کردیا جائے تو مسئلہ ختم. بلکہ طالبان ایک مائنڈ سیٹ کا نام ہے جس کو ختم .کیے بغیر یہ مسئلہ ختم نہیں ہوگا.طالبان صرف شمالی وزیرستان میں ہی نہیں ہے بلکہ وہ ملک کے ہر شعبہ میں گھس چکے ہیں اور ہمارے ملک میں ایسے مدارس موجود ہیں جو طلباء میں انتہا پسند سوچ پیدا کر رہے ہیں.طالبان مائنڈ سیٹ ان مدارس کا ہی پیدا کردہ ہے. ان مدارس کے اندر نہ صرف انتہا پسند ذہن پیدا کیئے جاتے بلکہ ان کے اندر باقاعدہ دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے. بیشتر مدارس تو اسلحہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ فرقہ پرستی اور دہشت گردی کی تعلیم دیتےہیں۔ اگر پچھلے سالوں میں مذہبی منافرت بڑھی ہے تو اس کی وجہ آپ اور ہم جیسے عام پاکستانی نہیں تھے، بلکہ یہ انہی مدارس کی آؤٹ پُٹ تھی، جہاں نام نہاد فسادی ملاؤں نے شر انگیز تقاریر، کتب اور اسلحہ کے زور پر صرف پاکستان کو برباد ہی کیا.پچھلےدس سالوں میں کچھ مدراس کو چھاونیوں کی طرز پر بنایا گیا جس میں رہنے والے انتہا پسندوں کو باقاعدہ رہائش ،کھانا اور وظیفہ ملتا ہے.ان مدارس کا ہر طالب علم خودکش دھماکوں کا حمایتی ،ملا عمر کو اپنا امیر کہنے والا اورمخالف فرقوں کافر کہتا ملے گایہ مدرسے دہشت گردی ، بھتہ خوری ، اغوا براۓ تاوان اور شیعہ اور سنی مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیوں میں طویل عرصے سے ملوث ہیں
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں دینی مدارس کو دہشت گردی کے مراکز میں تبدیل کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے جس کی حکومت ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے۔ صوبہ پنجاب میں دینی مدارس کی کل تعداد10ہزار434 ہے۔ان مدارس کو3کیٹگریز میں تقسیم کیا گیاہے۔
اے کیٹگری انتہائی خطرناک۔بی کیٹگری خطرناک اور سی کم خطرناک شامل ہیں۔545مدارس خطرناک قراردیئے گئے ہیں،جن میں سے28 اے کیٹگری میں شامل ہیں۔بی کیٹگری کے خطرناک مدارس کی تعداد255اور سی کیٹگری کے کم خطرناک مدارس کی تعداد 262ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق دینی مدرسوں سے پڑھے ہوئے ملزم بم دھماکوں، خود کش حملوں، فرقہ ورانہ دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہونے پر حساس اداروں یا پولیس نے پکڑے تھے۔ 90 فیصد ملزموں کی عمریں 20 سے 40 سال کے درمیان تھیں۔
کراچی میں بھی ایسے کئی مدارس موجود ہیں. ائیر پورٹ سے متصل ماڈل کالونی ،ایوب گوٹھ گلستان جوہر اور عقب میں عمر کالونی،شاہ فیصل کالونی عظیم پورا،گرین ٹاؤن,اورنگی ٹاؤن،منگو پیر اور کراچی کے مضافاتی علاقوںمیں ان مدارس کی بڑی تعداد موجود ہیں.ان مدارس میں غیر ملکی طلبہ بھی مقیم ہیں.ان مدارس کئی نامی گرامی دہشتگرد بھی تعلیم حاصل کرچکے ہیں. جو دہشتگری کے کئی واقعات میں ملوث ہیں
ڈان نیوز کی یہ ویڈیو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس طرح مدارس معصوم طلباء کو مذہب کے نام پر ورغلا کر ان کو
دہشت گردی کی تعلیم دیتے ہیں
Two Madrasa In Karachi Who Are Giving Terrorism… by zemtv
اورنگی ٹاون اور ایم پی آر کالونی میں دو مدرسوں میں دہشتگردی کی تربیت دی جارہی ہےانٹیلیجنس اداروں نےدونوں مدرسوں کےبارےمیں آگاہ کردیا ہےلیکن حکومت کاروائی نہیں کررہی ہے.ان مدارس میں اسلام کے نام پر اٹھارہ سے بیس سال کے بچوں کو دہشت گردی کی جانب راغب کیا جاتا ہے. ان مدرسوں میں بم بنانا اور بارود سے بھری موٹرسائیکل تیار کرنے کی تربیت دی جاتی ہے.زیر تعلیم طلباء کو ہتھیار چلنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے.یہ مدرسے کالعدم تحریک طالبان کے لیے رقم جمع کر کے وزیرستان بیجھتے ہیں
ان مدارس میں سوات اور وزیرستان کے لوگوں کے ساتھ ساتھ افغانوں اور ازبکوں کو بھی دہشت گردی کی تربیت دی . جاتی ہے.چند ماہ پہلے اورنگی ٹاؤن میں اجتماع گاہ کے قریب موٹر سائیکل میں دھماکے سے تین خود کش بمبار ہلاک ہوگئے تھے.جن کا تعلق انہی مدارس سے تھا
اورنگی مدرسے میں تو اغوا شدہ ہندو لڑکیوں کو بھی رکھا جاتا ہے جہاں ان سے زبر دستی تشدد کے زور پر کلمہ پڑھوا کر کے کسی مولوی کے سپرد کر دیا جاتا ہے – دہشت گردوں کی تربیت کے حوالے سے یہ مدارس ہر سال سینکڑوں پشتونوں ، افغان ، اور ازبک باشندوں کے ساتھ ساتھ اغوا شدہ اور لا وارث بچوں کو جہاد کی تربیت کے وزیرستان بھیجنے کے علاوہ انھیں کراچی میں بھی تربیت دینے میں مصروف ہیں – دہشت گردی کے لئے گرد و نواح کے علاقوں سے بھتہ خوری کا پیسا بھی وزیرستان بھیجا جاتا ہے
کراچی میں واقع یہ مدارس کھلےعام دہشتگردی کی ٹریننگ دے رہے ہیں اور سندھ حکومت ان مدارس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہی ہے؟کوئی ہے ان کو رونے والا، حکومت، رینجرز، پولیس کہاں ہیں ؟وزیراعلی نے کیا بھنگ پی رکھی ہے یا جان بوجھ کران غیر قانونی کاموں سے چشم پوشی کر رہے ہیں
حقیقت میں مدارس کے نام پر ایسے ادارے وجود میں آ گئے ہیں جو کہ شترِ بے مہار کی طرح دوڑے چلے جا رہے ہیں.مدارس تو مدارس، کچھ مساجد میں تو منبرِ تک سے منافرت کی باتیں کی جاتی ہیں۔حقیقت میں یہ مدارس مسجد ضرار کی طرح اسلام کی آڑ میں اسلام کے خلاف کام کر رہے۔ہیں
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ پاکستان میں ہرشعبے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو طالبان مائنڈ سیٹ کے ہیں.اس میں بعض صحافی بھی شامل ہیں جو طالبان کی کھل کر یا دبے الفاظ میں حمایت کرتے ہیں.اگر دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو ان صحافیوں کے میڈیا پر آنے پابندی لگانی ہوگی اور اخبارات کو بھی پابند کرنا ہوگا کہ ان کے آرٹیکل نہ چھاپیں.
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر طالبان کے حامی پیجز اور ویب سائٹ کو بھی بلاک کیا جائے اوردہشت گردی پر اکسانے والے لیٹریچر پر بھی پابندی لگانا ہوگی.
ایسے فلاحی تنظیمیں بھی ہیں جو فلاحی کاموں کی آڑ میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کرتی ہیں.مثال کےطورپرتحریک طالبان کے قاری شکیل گروپ نے کراچی میں السفی مہمند ویلفئیر ایسویسی ایشن کے نام سے تنظیم بنا رکھی ہے.جس کے 200 ممبر ہیں جو طالبان کے لئے فنڈنگ کرتے ہیں اور بھتہ خوری بھی.حکومت کو ان فلاحی تنظیموں پر بھی پابندی لگانا ہوگی
اس کا علاوہ کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کو بھی بند کرنا ہوگا.پاکستان میں کون نہیں جانتا کہ اس قتل اور غارت گری کے پیچھے کالعدم تنظیموں کا ہاتھ ہے.پھر بھی یہ تنظیمیں آزادی سے اپنی کاروائیوں میں مصروف ہیں .صرف کاغذوں میں یہ تنظیمیں کالعدم ہیں،یہ تنظیمیں آج بھی اتنی ہی فعال ہیں .بلکہ پہلے سے زیادہ قتل عام کر رہی ہیں.حقیقت میں طالبان، سپاە صحابہ، لشکرِ جھنگوی وغیرە میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ مافیا ہے۔ فکری حوالے سے سب ایک ہیں.
صرف شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنا کافی نہیں ہوگا بلکہ ملک میں ہر جگہ ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنا ہوگا اور جو جماعتیں اور مدارس طالبان کو افرادی قوت، لاجسٹک سپورٹ، فنڈز، خفیہ اطلاعات اور پناە گاہیں مہیا کرتی ہیں۔طالبان و لشکرِ جھنگوی اور ایسی ہی دیگر تنظیموں کے خلاف ملک بھر میں جب تک ایک گرینڈ اور فیصلہ کن آپریشن نہیں کیا جائے گا ملک میں اس وقت تک دائمی امن ممکن نہیں۔
اس آپریشن کو کامیاب بنانے کے لئے انتشار پھیلانے والوں سے ہو شیار رہنےاور قومی اتحاد اور یکجھتی کی ضرورت ہے. کراچی میں قومی اتحاد اور یکجھتی پیدا کرنے کے لئے ایم کیو ایم نے ایک ریلی کا اہتمام کیا ہے.امید کی جاتی ہے ایم کیو ایم کی یہ ریلی طالبانائزیشن اور دہشت گردی کے خلاف قومی اتحاد اور یکجھتی کی فضا پیدا کرے گی .پاک فوج کے جوان دہشت گردی کے خلاف آپریشن کر کے عظیم فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ قوم کا بچہ بچہ پاک فوج کے ساتھ ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے تک جدوجہد کرنا ہو گی۔ پاکستان کے دفاع اور سلامتی کیلئے فوج انتہائی اہم جنگ لڑ رہی ہے۔ قوم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ 1965 کی جنگ کی طرح بھر پور طریقے سے پاک فوج کا ساتھ دے اور اتحاد و یگانگت قائم رکھے۔
آخر میں ہم دعا گو ہیں کہ الله پاک فوج کو فتح اور کامرانی عطا فرمائے اور وطن عزیز پاکستان سے دھشت گردی کا خاتمہ فرمائے
Comments
Tags: Altaf Hussain, Taliban & TTP