عراق : سعودی حمایت یافتہ وہابی دہشت گردی کا شکار – از ڈاکٹر لال خان

ایڈیٹر نوٹ : پاکستانی قوم کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جب بات دیوبندی اور وہابی دہشت گردی کی آے تو ملا ہو یا لبرل ، ملحد دانش ور ہوں یا بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سب سعودی حمایت یافتہ دیوبندی وہابی دہشت گردی کو سعودی ایران پرکسی وار کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں – یہ سوچ یقیناً کسی سانحے سے کم نہیں ہے –

پچھلے چند دنوں سے عراق میں بنیاد پرستوں کی وحشت ناک کالی آندھی عرب ریگستانوں کو تاراج کر رہی ہے۔ تیل کی اندھی دولت سے اس یلغار کی فنانسنگ بھی جاری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ فنانسنگ کرنے والوں کا محافظ اور سر پرست بھی امریکی سامراج ہے۔ اس خطے کا تیل عوام کیلئے وبال جان بن گیا ہے۔ شمال میں آئی ایس آئی ایل (عراق اور لیوانٹ کی اسلامی ریاست) کے جنونی جتھوں نے عراق کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل پر قبضہ کر لیا ہے۔ صدام حسین کے آبائی شہر تکریت اور تلفعر سمیت دوسرے کئی علاقے بھی انکے کنٹرول میں آ گئے ہیں۔ مغرب میں آئی ایس آئی ایل نے فلوجہ، رمادی اور دوسرے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔ سرکاری فوجیں اور شیعہ ملیشیا سمارا کو آئی ایس آئی ایل سے چھڑانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

سنگین ہوتی ہوئی صورتحال نے ساری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ تیل کی قیمتیں 115 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہیں۔ موصل کی لڑائی میں امریکی سامراج کی بنائی گئی عراقی فوج موم کی طرح پگھل گئی ہے۔ سامراجی غلامی میں بنی فوجیں نہ لڑ سکتی ہیں اور نہ دفاع کر سکتی ہیں۔ عراق کے وزیر خارجہ ہوشیار زبیری نے اعتراف کیا کہ عراق کی فوجیں موصل میں شکست کا شکار ہو گئیں اور اپنا اسلحہ اور ساز و سامان وہیں چھوڑ گئیں۔ آئی ایس آئی ایل کے جتھوں نے بہت سے پرانے اور چالو امریکی اڈوں میں موجود جدید اسلحے، بارود اور گاڑیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ ان جنونیوں نے 1700 عراقی فوجی قیدیوں اور شیعہ افراد کو گرفتار کر کے گولیوں سے چھلنی کیا اور اس قتل عام کی ویڈیو بھی جاری کی۔ اس ساری صورتحال میں سامراجیوں کا رد عمل شکست خوردہ نفسیات کا غماز ہے۔

نیٹو کے سیکٹری جنرل آندرزفوگھ راسموسن نے کہا کہ ’’ عراق میں اب نیٹو کا کوئی کردار نہیں بنتا‘‘۔ صدر اوباما نے امریکہ کے سب سے اعلیٰ فوجی ادارے ’’ویسٹ پوائنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ عراق یا کسی اور مقام پر فوجی مداخلت یا فوجیں بھیجنے کے مخالف ہیں۔ امریکہ کی سابق وزیر کارجہ اور مستقبل میں ممکنہ امریکی صدر ہلیری کلنٹن نے بیان دیا ہے کہ ’’اب ہم انکی لڑائی نہیں لڑ سکتے کیونکہ ایک ناکارہ، بدعنوان، غیر نمائندہ اور جابرانہ حکومت کیلئے ہم ایک امریکی فوجی کی زندگی بھی قربان نہیں کریں گے۔‘‘

اوباما کی تقریر پر برطانوی اخبار گارڈین نے یہ تبصرہ کیا کہ ’’واشنگٹن نے لاغر اور لاچار نوری المالکی حکومت اور شام کی مغرب نواز دہشت گرد تنظیموں کو اصل پیغام یہ دیا ہے کہ جب پسپائی شکست فاش بننے لگے گی تو وہ اکیلے ہی ہوں گے۔‘‘ ان بیانات کے بعد امریکہ کی باتونی وزیر خارجہ (جس کی بات کو ئی سنجیدہ نہی لیتا) کا عراق پر ’’دور‘‘ سے فضائی حملے کرنے کا عندیہ بڑا مضحکہ خیز ہے۔

’’جمہوریت‘‘ ’’آزادی‘‘ اور ’’انسانی حقوق ‘‘ کے نام پر جارحیت کرکے بستیوں کی بستیاں اجاڑنے والے امریکی سامراج کو آج مکافات عمل کا سامنا ہے۔ سنہ 2003ء سے پہلے عراق میں القاعدہ اور اسلامی بنیاد پرستی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ان سامراجی درندوں نے جن ’’وسیع تباہی کے ہتھیاروں‘‘ (WMD’s) کی موجودگی کا الزام لگا کر عراق کو تاراج کیا، انکا بھی سرے سے کوئی وجود نہیں تھا۔ اس ملک میں صدیوں سے ایک خاندان کی طرح رہنے والے شیعہ، سنی اور مذہبی اقلیتوں میں نفرت کے بیج بھی امریکہ نے ہی اپنے تسلط کو مضبوط کرنے کیلئے بوئے تھے۔

پھر عراق اور افغانستان کی ’’ قومی‘‘ افواج کی تشکیل کا بہت شور مچایا گیا لیکن 20 ارب ڈالر کی مالیت سے عراق میں جو ’’قومی فوج‘‘ کھڑی کی گئی وہ مذہبی جنونیوں کے پہلے ہلے میں ہی ریت کے پہاڑ کی طرح ڈھیر ہو گئی ۔ 2008ء کے بعد جب امریکی سرمایہ داری شدید بحران کا شکار ہوگئی تو امریکیوں نے عراق سے بھاگنے کا راستہ اختیار کیا۔ پورے ملک کو برباد کر کے، لاکھوں بے گناہ شہریوں اور ہزاروں فوجیوں کا خون بہا کر 2011ء میں پسپائی اختیار کی گئی لیکن عراق میں لوٹ مار جاری رکھی گئی۔ ایک طرف امریکی اجارہ داریاں تیل چوستی رہیں تو دوسری طرف ’’عراق کے تحفظ‘‘ کیلئے انتہائی مہنگے داموں امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا اسلحہ فروخت کیا جاتا رہا۔

پچھلے ہفتے ’’وائٹ ہائوس‘‘ کے ترجمان نے ایک پریس بریفنگ میں تسلیم کیا کہ ’’ہمارے اسلحے کی ترسیل کے دوران 300 ہیل فائر (Hellfire) میزائل، چھوٹے اسلحے کے لاکھوں رائونڈ، ٹینکوں کے ہزاروں گولے، ہیلی کاپٹروں سا فائر کیے جانے والے راکٹ، شین گنیں، گرنیڈ، سنائپر رائفلیں، M16 اور M4 رائفلیں عراقی سکیورٹی ایجنسی کو بھیجی گئیں۔ ‘‘ اس سال جنوری میں امریکی کانگریس نے 24 اپاچی ہیلی کاپٹروں کے ایک سودے کی منظوری دی جس سے 6.2 ارب ڈالر منافع کمایا گیا۔ آج جب ضرورت پڑی ہے تو وہ سارا اسلحہ کہاں گیا ہے؟

بنیاد پرستوں کی یلغار کو مقامی آبادی کی کچھ پرتوں کی حمایت بھی نوری المالکی کی جابرانہ اور فرقہ وارانہ پالیسیوں کی وجہ سے ملی ہے۔ عراق کے بہت سے شہریوں کے نزدیک مذہبی جنونیوں اور امریکہ کی قائم کردہ ’’جمہوری‘‘ حکومت می کوئی فرق نہیں۔ انبار صوبے میں 2013ء میں مالکی حکومت نے ایک شیعہ یونٹ کے 8300 سنیوں کو قتل کروایا تھا۔ آج مالکی کو ظالم ، جابر اور فرقہ پرست کہنے والی ہلری کلنٹن اور دوسرے سامراجی حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ شخص امریکی ’’جمہوریت ‘‘ کی پیداوار اور انہی کا بغل بچہ ہے۔ سامراجی سنگینوں کے سائے تلے ہونے والے انتخابات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان سمیت پسماندہ ممالک میں مالیاتی سرمائے کی نہ نظر آنے والے سنگین انسانوں کے دل و دماغ کو چھلنی کرتی چلی جا رہی ہے۔ یہ انتخابات اور جمہوریتیں عوام کیلئے نہیں ہیں۔ انکے لبادے میں سرمائے کی وحشیانہ آمریت لپٹی ہوئی ہے۔

آئی ایس آئی ایل کے نام میں ’’لیوانٹ‘‘ سے مراد عراق، اردن ، قبرض، جنوبی ترکی، شام ،اسرائیل اور دوسری خلیجی ریاستیں اور بادشاہتیں ہیں، جنہیں پہلی جنگ عظیم کے بعد سامراج نے اپنے سٹریٹیجک مفادات کے تحت مصنوعی طور پر تخلیق کیا تھا۔ سنہ 1918ء سے پیشتر لیوانٹ سلطنت عثمانیہ کا ایک حصہ تھا۔ آج یہ قومی ریاستیں اور سرحدیں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ جعلی ، مصنوعی اور بے معنی بن چکی ہیں لیکن عرب بادشاہتوں کی مالی حمایت سے چلنے والی یہ رجعتی کالی آندھی اس خطے کو خوشحال بنانے کی بجائے مزید برباد کر دے گی۔یہ مذہبی جنونی اور فرقہ پرست عناصر انسانی سماج کو ماضی بعید کے اندھیروں میں غرق کرنے کے درپے ہیں لیکن عوام مردہ نہیں۔ 60 لاکھ کی آبادی والے بغداد پر قبضہ کرنا انکے لئے تقریباً ناممکن ہے۔

حکمرانوں کی ان ریشہ دوانیوں میں غریب عوام ہی برباد ہورہے ہیں۔ عراق، شام ، یمن اور خطے کے دوسرے ممالک میں 1950ء، 60ء اور 70ء کی دہائیوں میں بائیں بازو کے کئی انقلاب برپا ہوئے۔ مسخ شدہ بنیادوں پر ہی سہی لیکن سوشلسٹ بعث پارٹیوں اور بائیں بازو کی حکومتوں نے سرمایہ داری کو ختم کر کے منصوبہ بند معیشتیں قائم کیں جس سے عوام کو مفت علاج، تعلیم ، رہائش اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات میسر آئیں۔ یہ سب کچھ سرمایہ داری کے تحت کبھی ممکن نہ تھا۔ ان حکومتوں کے انہدام کے بعد آج سرمایہ داری اور سامراج پورے خطے کو بربریت کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ اس بربادی ، سامراجی استحصال اور معاشی محرومیوں سے نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔ پورے خطے کو ایک سوشلسٹ فیڈریشن میں یکجا کر کے ہی فرقہ وارانہ ، قومی ، مذہبی اور نسلی تعصبات سے آزادی حاصل کی جاسکتی ہے۔

 

Source :

http://e.dunya.com.pk/colum.php?date=2014-06-18&edition=LHR&id=32061_38530348

 

Comments

comments