خون خلق حلالست و آب بادہ حرام – از عامر حسینی
سنگ میل اشاعت گھر نے کشور ناھید کی یاداشتوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی کتاب “کشور ناہید کی نوٹ بک” کے عنوان سے شایع کی اور اس نوٹ بک میں کشور ناہید نے بہت مختصر سے انداز میں افسر شاہی میں شامل مردوں کے میل شاؤنزم اور ان کی ہوسناکیوں کو قلمبند کیا اور یہ دکھانے کی کوشش کی کہ کیسے ورکنگ ویمنز کو سی ایس پی افسروں اور وزیروں کی نام نہاد مردانگی سے مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا ویسے کئی ترقی پسند شاعر اور ادیبوں کے اینٹی فیمنسٹ رویوں کا پول بھی انہوں نے کھولا جن میں کچھ تو کشور ناہید کے دوست بھی تھے
اس نوٹ بک میں ضیاءالحق کی نام نہاد اسلام پسندی سے جنم لینے والی حماقتوں اور اس سے پیدا ہونے والی منافقت کا بھی بڑا تذکرہ بھی کشور ناہید نے جھوٹے بابا تلقین شاہ کا پول بھی خوب کھولا ہے اور بڑے مخصوص انداز میں لکھا ہے کہ پولیس والوں کو قناعت سکھانے جاتے تھے تبھی تو ان کا یہ حال ہے،ٹیلی ویژن پر بابا صاحبا بالکل ایسے کرتے تھے،جیسے بابا کالا اپنا جادو چلاتے اور ملک ملک گھومتے تھے جنرل ضیاء الحق کے مارشل کے ابتدائی زمانے میں نور جہاں کو گاتے وقت بلاؤز پہننے کا معاملہ زیر بحث آیا تو یہ فیصلہ ہوا کیونکہ ضیاء کو نور جہاں کا گانا پسند ہے تو ٹی وی پر ان کے گانے چلیں گے
لیکن وہ آدھے بازو کا بلاؤز پہن کر گانا گائیں گی جبکہ عابدہ پروین کے بارے میں جب یہ بتایا گیا کہ وہ گانے کے دوران اپنی چادر بھی اتار پھینکتی ہیں تو ضیاء نے کہا کہ وہ درویش عورت ہے اسے اجازت ہے ظہیر کاشمیری کا ایک دلچسپ واقعہ بھی کشور ناھید نے اپنی نوٹ بک میں تحریر کیا ہے کہ جب نہر سوئز مصر پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا تو خاکسار کے بیلچہ بردار کارکن علامہ مشرقی کی قیادت میں جلوس نکال رہے تھے اور ظہیر کاشمیری راستے میں کھڑے تھے تو انھوں نے علامہ مشرقی سے پوچھا کہ جناب کہاں تک جانے کا ارادہ ہے علامہ مشرقی نے کہا کہ “سیدھے مصر جائیں گے”
ظہیر کاشمیری نے کہا کہ “بیڈن روڈ تھائیں نکل جاؤ نیڑے پئے گا” کشور ناھید نے شاہ حسین سے اپنی عقیدت اور ان کے سالانہ عرس میلہ چراغاں میں باقاعدگی سے شریک ہونے کا زکر کرتے ہوئے لکھا کہ شاہ حسین کے مزار کو محکمہ اوقاف نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور مادھو لعل ہندؤ کی قبر کو چھپادیا ہے اور عورتوں کو قبر پر آنے کی اجازت نہیں ہے ویسے تو محکمہ اوقاف اور مولویوں کی اکثریت نے اکثر مزارات پر مستورات کی احاطہ مزار پر داخلے پر پابندی لگادی ہے اور کئی ایک جگہ تو باقاعدہ ڈنڈا بردار اس پابندی پر عمل درآمد کراتے ہیں اور اکثر مزارات پر لگنے والے میلوں کو غیر شرعی کہہ کر ختم کیا جارہا ہے ،
یہ پریکٹس بھی ضیاء الحق کی آمریت کے بعد سے شروع ہوئی اور ظاہر پرست اور سخت گیر ملائیت کے قدم صوفیائے کرام کے مزارات اور خانقاہوں پر بھی پڑنے لگے سندھ میں تو پھر بھی مزارات اور خانقاہوں پر کسی حد تک وحدت الوجودی صلح کلیت کا رنگ چڑھا ہوا ہے لیکن پنجاب میں تو بہت تیزی سے صوفیائے کرام کے مزارات کو ملاّ کی اخلاقیات کے تابع کیا جارہا ہے اگرچہ جھوک عنائت جہاں شاہ عنائت کا مزار ہے وہاں پر عورتوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے اور شاہ عنائت جیسے مجاہد پیر کی عوامیت کو مطلق العنان ملائیت نے اغوا کرلیا ہے
سندھ ،پنجاب ،سرائيکی وسیب ،خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں ایسے صوفی لوگوں کی خانقاہیں موجود تھیں جو ملائیت ،محتسب گیری ،وعظ پسندی ،ظاہریت اور جامد شرع گے خلاف بغاوت اور احتجاج کی علامت رہی ہيں اور ان خانقاہوں کو جنھوں نے آباد کیا وہ ہند-مسلم سماج میں اشراف پنے کے خلاف تھے اور انھوں نے دیر و حرم کو ترک کرکے خانقاہوں کو خلق خدا کے راج کے لیے بنایا تھا اور رب اور عوام میں جو فاصلے ملاّ،پادری،پنڈت ،احبار و رہبان سے پیدا کئے تھے ان کو مٹایا اور افتادگان خاک کو جینے کا حوصلہ دیا
لیکن ملائیت اور سرکار و دربار سے جڑی مشائخیت نے اس عوامی تصوف کو فنا کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی یہ کوشش صرف تصوف کے مخالف شیخ ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے چیلوں کی طرف سے ہی نہیں ہورہی بلکہ یہ کوشش ان کی جانب سے بھی ہورہی ہے جو خود کو تصوف و صوفیوں کا وارث کہتے ہیں اور صوفی حلقوں میں نیم وہابیت کا دور دورہ ہوتا جارہا ہے بلھے شاہ ،شاہ حسین ،سلطان باہو،سچل سرمست۔شاہ لطیف ،شاہ شمس ،عبداللہ شاہ غازی ،خواجہ غلام فرید ،بابا فرید گنج شکر اور حضرت میاں میر جیسے صوفیوں کو مولوی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور ان جیسے ملامتی صوفیوں کی وسیع المشرب مسلک کو مسخ کیا جارہا ہے اور یہ سب اوقاف کے ملازم مولوی کی زیر سرپرستی کیا جارہا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ صوفی کے صلح کل مشرب کی گنجائش خود صوفی سنّیوں میں بھی تنگ ہوتی جارہی ہے جن میں ممتاز قادری جیسے لوگوں کو ھیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے اور اس کے ماتھے کو چومنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بنادئے جاتے ہیں
Source :
http://lail-o-nihar.blogspot.com/2014/06/blog-post_9.html