سانحہ پکا قلعہ. حیدر آباد کی تاریخ کا سیاہ باب
سانحہ پکا قلعہ کا شمار پاکستان کی تاریخ کے بد ترین سانحات میں ہوتا ہے جو بدقسمتی سے ہمارے نام نہاد قومی لیڈروں کو یاد نہیں ہے.26 اور 27 مئی ایک نہ بھولنے والا دن ہے جب سیکڑوں معصوم انسانوں کو پولیس نے حکومت وقت کے حکم پر قتل کردیا.جب سیکڑوں بچے اور عورتیں سر پر قرآن اٹھائے رحم کی بھیک مانگتے رہے مگر جواب میں ان کو گولیاں ملی.26 اور 27مئی 1990پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب سرکاری اہلکاروں نے پکا قلعہ حیدرآباد کی پانی ،بجلی اور گیس کاٹ کر مہاجر آبادی کو محصور کرکے چاروں طرف سے اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بنایا۔سانحہ پکا قلعہ میں پانی بجلی سب کچھ بند کر کے کربلا کی یاد کو تازہ کر دیا گیا اور جب بھوکے پیاسے بلکتے بچوں کو لیے انکی مائیں اپنی گودوں میں اٹھائے باہر پانی کی فریاد کرتے نکلیں کہ شاید ان حملہ آوروں کو ترس آ جائے مگر جواب میں ان بھوکے پیاسے بچوں اور ماوؤں پر گولیوں کی بارش کر دی گئی.پکاّ قلعہ آ پریشن میں نوزائیدہ بچّے ماؤں کے جنازے کے ساتھ بھوک سے بلک بلک کر مر گئے مگر ان کو دودھ نہیں مل سکا ،جنازے اٹھانے جو بھی آیا اس کو بھی بھون دیا گیا
ضیاء الحق کی موت کے بعد جب انتخابات ھوۓ تو اس ملک پر پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی.اس مدت کے دوران پیپلز پارٹی کی حکومت نے ‘ ایگل فورس ‘ نامی ایک دہشت گرد پولیس فورس قائم کی. اس فورس کا مقصد وسیع پیمانے پر مہاجروں کا قتل عام اور ان کو دبانا تھا.مئی 1990 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے پکا قلعہ میں آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا.اس آپریشن کو اگرچہ حکومت مجرموں کے خلاف کہ رہی تھی مگر حقیقت میں یہ آپریشن مہاجروں کی نسل کشی کرنے کے لئے تھا.سانحه پکا قلعه کا ایک اور تاریک پهلو یه ھے کہ پولیس کی وردیوں میں ملبوس اندرون سندھ کے ڈاکو پیپلز پارٹی کی حکومت کی ایما پر اس آپریشن میں شریک تھے . شراب کے نشے میں دھت پولیس اھلکاروں نے وه بربریت قائم کی جسکی مثال پاکستان میں کهیں نھی ملتی.دو ہزار سے زائد پولیس کے اہلکار جو دراصل سندھ کی جیلوں سے رہا کے گئے ڈاکو اور پیپلز پارٹی کے دہشت گرد تھے150 سے زائد گاڑیوں میں جدید اور خودکار اسلحے سے لیس ہوکر آئے. اور پکا قلعہ کا محاصرہ کرلیا.اس بھیانک نسل کشی کو جسے ‘ جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن ‘ کا نام دیا گیا تھا اس میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دکانیں لوٹنے کی اور قیمتی اشیاء اور زیورات چرانے اور مردوں، عورتوں اور بچوں کو ذبح کرنے کی کھلی اجازت تھی.مہاجروں کے اس بڑے پیمانے پر قتل عام کے دوران پکا قلعہ کے رہائشیوں کو تمام بنیادی ضروریات (پانی، بجلی، ٹیلی فون، گیس وغیرہ) سے محروم کردیا گیا.جب معصوم بچوں نے کھانے، پانی اور دودھ کے لئے رونا شروع کر دیا، بچوں کی مائیں آپریشن کو روکنے کے سر پر قرآن مجید کے ساتھ باہر نکل آئیں اور پولیس سے آپریشن روکنے کی بھیک مانگی لیکن پولیس حکام نے اس کا جواب بندوق سے دیا جس سے ماؤں کے ساتھ ساتھ ان کے معصوم بچے بھی ہلاک ہو گئے.عینی شاہدین کے مطابق دو سو سے زائد مرد ، بچے اور عورتیں اس میں ہلاک ہوئیں. آخر میں پاکستان آرمی نے پکا قلعہ کا کنٹرول سنبھال لیا اور اور پکا قلعہ کے لوگوں نے پاکستان زندہ آباد کا نعرہ لگایا
اصغر خان کیس میں بریگیڈیر حامد سعید کا بیان حلفی موجود ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حیدرآباد پکا قلعہ آپریشن میں پولیس نے بچوں،مردوں اور عورتوں کو قتل کیا.حیدرآباد پکا قلعہ میں پولیس کےآپریشن پرفوج کو تحفظات تھے. اور صدر اسحق خان نے پکا قلعہ آپریشن فوری روکنے کے لئے فوج کو حکم دیا تھا۔ بریگیڈیر حامد سعید نے یہ بھی کہا تھا کہ صوبائی حکومت نے اُس وقت اردو بولنے والوں کے خلاف پکا قلعہ، حیدر آباد میں پولیس آپریشن شروع کر دیا جب وزیر اعظم ، آرمی سربراہ اور کراچی کارپس کمانڈر بیرون ملک دورے پر اور فوجی یونٹ سالانہ مشقوں میں مصروف تھے’۔
بریگیڈیر حامد سعید نے مزید کہا کہ’اس آپریشن میں پولیس نے درجنوں آدمیوں، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کیا۔ اعلٰی ایوانوں کو اس معاملے سے آگاہ کرنے پر صدر اسحاق نے فوج کو مداخلت کرتے ہوئے اس آپریشن کو روکنے کا حکم دیا.جس پر حیدر آباد کے اسٹیشن کمانڈر نے فوجی مشقوں میں نہ جانے والے اور حفاظتی ڈیوٹیوں پر معمور تقریباً تین سو فوجیوں کو جمع کیا اور پکا قلعہ پہنچ گئے جس کے بعد پولیس کو علاقے سے جانا پڑا تھا’۔
‘بینظیر بھٹو نے وطن واپسی پر ایک بیان جاری کیا جس کے مطابق ‘فوج نے پاکستان آرڈیننس فیکٹری میں بنایا گیا اسلحہ مہاجروں کو فراہم کیا’ اور پولیس نے یہ اسلحہ برآمد کرنے کے لیے پکا قلعہ میں آپریشن کیا تھا’۔
وزیر اعظم کے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ جب پولیس اسلحے کے ذخیرے کے قریب پہنچی تو فوج مداخلت کرتے ہوئے اسلحہ اپنی گاڑیوں میں لے گئی۔
بریگیڈیئر سعید کے مطابق، بے نظیر بھٹو کے اس بیان پر سب ہی حیرت زدہ تھے
سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے بھی یہ کہا تھا کہ سانحہ پکا قلعہ کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ حکومت کو برخاست کرنا ہے. مرزا اسلم بیگ نے کہا تھا کہ پکا قلعہ آپریشن کے دوران عورتوں اور بچوں پر فائرنگ کی گئی جو انتہائی افسوس ناک تھا اور بے نظیر بھٹو نے سندھ کے پولیس افسران کو بلا کر پکا قلعہ پر حملے کا منصوبہ بنایا اس منصوبے کے بعد رینجرز ونگ کے کمانڈر جو حیدر آباد میں ذمہ دار تھا اس کمانڈر نے بھی پوچھا تو جواب ملا کہ شر پسندوں کے خلاف انتقامی کارروائی کر رہے ہیں حملے سے پہلے ان کی پانی بجلی کاٹی گئی
اس سانحہ نے سانحہ جلیاں والا باغ کی یاد دلادی. جس طرح اس سانحہ میں درندگی اور سفاکیت کا مظاہرہ کیا گیا تھا اس طرح تو کبھی ہلاکوخان یا چنگیز خان نے بھی نہیں کیا تھا
مہاجر نوجوانوں ،خواتین اور معصوم بچوں کا دو دن تک مسلسل بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا، یہ اب بھی پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر تصور کیا جاتا ہے.آپریشن میں نوزائیدہ بچّے ماؤں کے جنازے کے ساتھ بھوک سے بلک بلک کر مر گئے مگرکسی عدالت نے ،کسی منصف نے کیا آواز اٹھائ کہ ان بے گناہ شہریوں کا خون کیوں بہ رہا ہے ؟
عوام کے محافظ عوام کے قاتل بن جائیں تو مقدمہ کس عدالت میں ہو۔۔ ؟ فکرمندی کا لمحہ ھے۔ یہ کھلی ریاستی دھشت گردی ھے. پولیس ۔حکومت ،جن کے ذمے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت ھے اب وھی لوٹ کھسوٹ اور قتل اور غارت گری کریں تو عوام کس پاس جائیں. بلاشبہ یہ مہاجر قوم کے خلاف ایک انتہائی پر تشدد سرگرمی تھی ، لیکن افسوس کی بات ہے کہ نام نہاد انسانی حقوق کے کارکنوں اور نام نہاد آزاد عدلیہ نے معصوم مہاجروں کے قتل عام کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی
آئیے سانحہ پکا قلعہ حیدرآباد میں شہید ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کریں اور یہ عہد کریں کہ مظلوم و محکوم عوام کے حقوق کے حصول تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے
Comments
Tags: Hyderabad, MQM, PAKKA QILAH
Latest Comments
The justice from the Hon.Court of Allah has been given to Ex-Prim Minister of Pakistan. Now Zardari and his cronies, Nawaz family and Ex-CJ Ifitikhar Maloon Choudri will have taste of justice by Allah. Insha’Allah. May Allah give them exemplary punishment in this life and life hereafter.