اداریہ :نواز شریف کیا واقعی اسٹبلشمنٹ مخالف تحریک کے سرخیل ہیں؟
پاکستان تحریک انصاف ،پاکستان عوامی تحریک نے آج اسلام آباد ،راولپنڈی میں اپنے پاور فل سیاسی شو کئے ،پی ٹی آئی آزاد اور منصفانہ الیکشن کمیشن چاہتی ہے جبکہ چار قومی اسمبلی کے حلقوں میں انگوٹھے کے نشانوں کی تصدیق جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری پورے نظام کو ملیا میٹ کرکے اپنا انقلاب لانا چاہتے ہیں
اس میں کوئی دو رائے ہو نہیں سکتیں کہ مسلم لیگ نواز کے خلاف سڑکوں پر وارم اپ پریکٹس کرنے والی دونوں جماعتیں سنٹر رائٹ کی جماعتیں لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ دوسری طرف مسلم لیگ نواز اور اس کے قائد میاں محمد نواز شریف کے بارے میں پاکستانی مین سٹریم میڈیا کا ایک سیکشن یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگ گیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف اور ان کی پارٹی اسٹبلشمنٹ مخالف ہے
ادارہ تعمیر پاکستان میاں محمد نواز شریف اور ان کی پارٹی کو اسٹبلشمنٹ مخالف بتلائے جانے اور اس کو ٹیپ کا فقرہ بنانے کو ایک سنگین مذاق کے مترادف خیال کرتا ہے
کارل مارکس نے لوئی بونا پارٹ کی اٹھارویں برومئیر میں لکھا تھا کہ
تاریخ اپنے آپ کو دوھراتی ہے لیکن پہلے یہ المیہ اور پھر یہ کامیڈی و مذاق ہوتی ہے
تو ہم سمجھتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف خود کو اسٹبلشمنٹ مخالف کاسٹیوم پہن کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں کررہے اور وہ تاریخ میں بھٹو بننے کا جو ڈرامہ کررہے ہیں وہ ایک سنگین مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
نواز شریف کو اس وقت اسٹبلشمنٹ کے اندر 95 فیصدی ججز ،میڈیا کے ایک طاقت ور سیکشن ،ٹی ٹی پی ،اہل سنت والجماعت ،جماعۃ الدعوۃ ،جیش محمد سمیت دیوبندی-وہابی انتہا پسند لابی کی حمائت حاصل ہے اور فوج کے اندر بھی میاں محمد نواز شریف کی حمائت موجود ہے تو کیا اس حمائت کے باوجود میاں نواز شریف کو اسٹبلشمنٹ مخالف کہا جاسکتا ہے؟
ہمارے خیال میں پاور پالیٹکس کی غلام گردشوں میں اس وقت جو طاقت اور اختیار کے بارے میں جو کش مکش نظر آرہی ہے اس کو اسٹبلشمنٹ نواز اور اسٹبلشمنٹ مخالف کشمکش قرار دینا یا تو انتہائی سادگی ہے یا جان بوجھ کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے
اصل میں اسٹبلشمنٹ کے اپنے اندر ایک تقسیم ہے اور اسٹبلشمنٹ کے مختلف دھڑے اور ان کے حامی سیاسی دھڑے آس میں طاقت اور اختیار کی تقسیم پر باہم بہ دست و گریباں ہیں
نواز شریف اور ان کے مخالف عمران خان یا آئی ایس آئی اور جیو کے درمیان اس وقت جو تنازعہ چل رہا ہے یہ اسٹبلشمنٹ کے دو طاقت ور حصوں کے درمیان مقامی تنازعے کے سوا کچھ نہیں ہے
جنگ اور جیو گروپ کے ساتھ کام کرنے والے پاکستانی لبرلز خاص طور پر اور بہت سے لبرلز عمومی طور پر پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو اسٹبلشمنٹ مخالف اور آرمی مخالف کے طور پر پیش کرتے ہیں اور خود کو جمہوریت اور عوامی سیاست کا سورما بتلاتے ہیں ان کا تجزیہ غیر حقیقی ،مصنوعی اور معروضیت سے خالی ہے
پاکستان میں منتخب سول حکومت کی ملٹری اسٹبلشمنٹ پر بالادستی کی راہ میں اگر کوئی شئے روکاوٹ بنی ہے تو اس کا سبب سعودی حمائت یافتہ دیوبندی-وہابی دھشت گرد نواز وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے طاقت اور اختیار کا ارتکاز اپنے اور اپنے مقربین خاص کے اندر کرلینے کی روش ہے
پاکستان کا دایاں بازو جو ضیاءالحق کی آغوش میں پل بڑھ کر جوان ہوا ہے جس میں اہل سیاست سے لیکر اہل صحافت اور مذھبی بنیاد پرست سب شامل ہیں پاکستانی عوام کو جمہوریت،آئین ،قانون اور مزاحمت کا علمبردار بنکر دکھانے کا ڈرامہ بڑی چالاکی اور ہوشیاری کے ساتھ رچا رہا ہے
آج اسٹبلشمنٹ مخالف اور آئین و قانون کی بالادستی کا ڈرامہ رچانے والے بشمول نواز شریف و جیو،جنگ گروپ عوام کو ویسے ہی دھوکہ دینے کی کوشش کررہے ہیں جیسا دھوکہ ان لوگوں نے 2007-08 کے دوران وکلاء تحریک کے دوران دیا تھا اور لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ یہ تحریک آئین ،جمہوریت کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کو مستحکم بنانے کے لیے چلائی جارہی ہے ،حالانکہ اس تحریک کے کارپردازوں کا یہ نصب العین تھا ہی نہیں ،آج سب کو معلوم ہوچکا کہ اس تحریک کا مقصد اسٹبلشمنٹ کے ہی چند افراد کو طاقت ور بنانا تھا اور اسٹبلشمنٹ میں اپنے مخالفوں کو زیر کرنا تھا
آج بھی رائے ونڈ کے کاغذی شیر اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے درمیان جو ٹاکرا ہے وہ ملکی امور پر عوام یا سویلین بالادستی کی خاطر نہیں ہے
پاکستان میں نواز شریف اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے درمیان اس نام نہاد ٹاکرے کی ٹھیک ٹھیک تشریح یوسف نذر جیسے ذھین اور دیانت دار تجزیہ نگاروں نے اس ٹاکرے کے آغاز میں کردی تھی
According to Yousuf Nazar: The current circus on electronic media should not be confused with media freedom. Jang group’s role has been asdisruptive as that of ISI. In 2007, I held the view CJP’s issue was not about independent judiciary. Similarly, the current GEO-ISI battle is not about media freedom.
یوسف نے ٹھیک لکھا تھا کہ الیکٹرانک میڈیا میں جو موجودہ سرکس لگی ہوئی ہے اسے میڈیا کی آزادی کے ساتھ گڈ مڈ نہیں کرنا چاہئیے اور جنگ گروپ کا کردار بھی اتنا ہی خراب ہے جتنا کہ آئی ایس آئی کا اور میں 2007ء میں لکھا تھا کہ جیف جسٹس کا ایشو آزاد عدلیہ کا ایشو نہیں ہے تو اسی طرح آئی ایس آئی اور جیو کی موجودہ لڑائی بھی میڈیا کی آزادی کی لڑائی نہیں ہے
معروف صحافی زاہد حسین نے روزنامہ ڈان میں بالکل ٹھیک نشاندھی کی ہے کہ پاکستان میں فوج اور سویلین میں بالادستی کس کی ہونی چاہیئے یہ ایک اہم اور بڑا ایشو ہے جسے حل ہونا چاہئیے لیکن عسکریت پسندی اور مذھبی انتہا پسندی میں اضافہ اس ایشو کے حل ہونے میں بڑی روکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور ملک ان رجعت پسند طاقتوں سے نمٹے بغیر ترقی نہیں کرسکتا اور اس موقعہ پر ان شورش پسندوں کے خلاف قوتوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے
“For sure, military and civilian supremacy remains a major issue that has to be resolved for sustainable democracy. But it is increasing militancy and religious extremism that are the principal impediments. The country cannot move forward without combating these retrogressive forces. It is more important at this point to unite the forces fighting the insurgents.
Unfortunately, the political forces are divided on this critical issue threatening the pluralistic democratic system. The situation has become much more serious particularly with the ambivalence of the Sharif government. Any confrontation between the civil and military authorities would further strengthen the insurgents and non-democratic forces. It is crucially important for the two institutions to be on the same page when Pakistan is fighting for its survival. Any confrontation between the civilian government and the military will be disastrous.”
یہاں پر ایک بات جس کی طرف جمہوریت کے وہ سورما جو نواز شریف کو اسٹبلشمنٹ مخالف اور جمہوریت کی بالادستی کا علمبردار بتلاتے نہیں تھکتے نظر انداز کرتے ہیں یا اس کو چھپاتے ہیں وہ یہ ہے کہ فوجی اسٹبلشمنٹ اور ایجنسیوں کا کردار مشرف کے دور میں بری طرح سے بے نقاب ہونا شروع ہوا اور ان کا امیج بری طرح سے بربادی کا شکار ہوا جس کی وجہ سے ملٹری اسٹبلشمنٹ نے قومی سیاست میں مداخلت کے باب میں اپنی موجودگی کو پیچھے لیجانے کا عمل شروع کیا اور وہ کمزور وکٹ پر کھیلنے پر مجبور ہوئی اور یہی وہ موقعہ تھا جب پاکستان کی جمہوری قوتیں فوجی اسٹبلشمنٹ کو دیوبندی-وہابی عسکریت پسندی کی سپانسر شپ سے دستبردار کرانے کے لیے دباؤ بڑھا سکتی تھیں اور پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کو تزویراتی گہرائی کی پالیسی سے پیچھے ہٹانا ممکن ہوسکتا تھا لیکن میاں محمد نواز شریف نے اس باب میں پی پی پی کے دور حکومت میں بھی اپنا وزن دیوبندی-وہابی عسکریت پسندوں کے پلڑے میں ڈالا اور جب وہ خود اقتدار میں آگئے تو بھی انہوں نے سٹریٹجک گہرائی کے لیے کام کرنے والے ریڈیکل دیوبندی عسکریت پسندوں کی ٹوکری میں اپنے انڈے ڈال دئے بلکہ انھوں نے تو ان عناصر کو بھی گود لے لیا جن کو ملٹری اسٹبلشمنٹ بڑے جہادی کہہ کر ٹھکانے لگانے پر تیار تھی اور ایک طرح سے دیوبندی تکفیری خارجی دھشت گردوں کو نئی زندگی دے ڈالی
ابھی جب میاں نواز شریف لندن کے دورے پر تھے تو انھوں نے بی بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ دیوبندی طالبان ان کے اپنے بھائی اور بچے ہیں
نواز شریف کی جانب سے دیوبندی-وہابی عسکریت پسندوں اور انتہا پسندوں کو گود میں لئے جانے کے عمل نے پاکستان کو مستحکم جمہوریت اور ترقی کی منزل سے مزید دور کردیا
روزنامہ ڈان کے سابق ایڈیٹر عباس ناصر نے 3مئی 2014ء کی اشاعت میں جو لکھا وہ بھی چشم کشا ہے
Abbas Nasir writes (Dawn, 3 May):
It would be foolhardy for me to generalise but I get a strong sense from my e-conversations with young officers deployed on the frontline facing Taliban-Al Qaeda militants that despite having taken heavy casualties, their resolve to eliminate terrorism remain unshaken.
In fact, when the government announced its decision to give negotiations a try, instead of the widely anticipated military operations, the disappointment of many soldiers was palpable in our discussions. They seemed oblivious to the ‘good’ Taliban concept and keen to get on with their job.Many of them complained that for years they have been in holding positions and having to take the brunt of the terror attacks. “We just can’t sit and be pounded day in and day out. We are trained to take the fight to the enemy,” I recall one saying to me.
Pakistan needs to move, and move decisively, to crush the existential threats it faces in the shape of terrorism and the all-pervasive bigotry and the intolerance it engenders. The sooner we close ranks and are on the same page the better.
ایاز امیر نے دی نیوز انٹرنیشنل کی 6 مئی کی اشاعت میں جیو ،جنگ کروپ اور آئی ایس آئی کی ٹسل کے بارے میں انھی خیالات کا اظہار کیا
So it may be time to pull in the horses and cut some of the adventurism that we are seeing. Everyone in this affair – government, Geo and army – has tried to do more than it could safely handle: the government wanting to make a spectacle of Musharraf and failing in that; Geo acting with a sense of papal infallibility in its reporting of the allegations against the ISI chief and then realising it had bitten off more than it could chew; and the army wanting to teach Geo an abject lesson but unlikely to get what it wants.
نواز شریف کا اقربا پسند کرونی کیپٹل وینچر موقعہ پرستوں ،مفاد اٹھانے والوں،ان کے پنجابی شاؤنسٹ کو تو بیوقوف بنا سکتا ہے لیکن ہندوستان کے ساتھ امن ریڈیکل دیوبندی،سلفی وہابی عسکریت پسند تنظیمیں جیش محمد،اہل سنت والجماعت ،جماعۃ الدعوۃ،ٹی ٹی پی کی حمائت کی پالیسی کے ساتھ قائم نہیں کیا جاسکتا اور جنگ و جیو گروپ کی نام نہاد امن کی آشا جیسے پروگرام حافظ سعید ،لدھیانوی وغیرہ کو پروموٹ کرنے کی پالیسی کے ساتھ کامیاب نہیں ہوسکتے
اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ نواز شریف اینڈ کمپنی اور جنگ جیو گروپ کی ہندوستان سے امن کی باتیں مخص فراڈ ہیں اور یہ بس ہندوستان کی سرمایہ دار کلاس کے ساتھ بزنس وینچر اور کیپٹل وینچر کے سوا کچھ نہين ہے جیسے مودی بھارت میں پاکستان سے تجارت کرنے اور بڑھانے کو اپنۓ ہندوتواء کے خیالات سے متصادم خیال نہیں کرتا
ریاض الملک الحجاجی کی لطیف طنزیہ زبان میں نواز شریف کا اسٹبلشمنٹ مخالف نیا جنم یوں بیان کیا جاسکتا ہے
The humble “anti-establishment” origins of the current hero of Pakistan’s Good Jinnah Liberals and some Leftists, Nawaz Sharif, are on record. Witness the rise of Crony Capitalist Beneficiary and Pro Taliban Comrade Nawaz Sharif aka Amir ul Tajireen. Flanked by other “anti establishment” icons like Ijaz Bin Zia ul Haq and Qazi Hussain Ahmad Marhoom, Comrade Sharif fondly remembers his Sugar Daddy, General Zia ul Haq Shaheed as “Rahmatullah Alaih”. “anti establishment” Comrade Nawaz Sharif steadfastly continues to support the Taliban as per his BBC interview of few days ago and calls out the anti Taliban lobby as “traitors” – an act that requires real courage of the “Sher e Bunjab” Comrade Sharif. These days there is a tiff btw older ISI-JI love child Nawaz Sharif and younger ISI-Jamaat love child Hazrat Imran Khan. But both these sons of Hazrat Zia ul Haq still love the Taliban
اس لیے ادارہ تعمیر پاکستان یہ خیال کرتا ہے کہ جس طرح مسٹر طاہر القادری کا عوامی انقلاب اور عمران خان کا سونامی عوام کی حکمرانی،ان کی خوش حالی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا بالکل ویسے ہی نواز شریف کا اسٹبلشمنٹ مخالف امیج سوائے سوفسٹری ،سفسطہ اور گمراہی کے اور کچھ نہیں ہے ،وہ اپنے کیپٹل وینچر کی راہ میں آنے والے ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ایک سیکشن کے خلاف اپنی طاقت اور اختیار کو مطلق العنانیت کی حد تک لیجانے کے عمل کو اسٹبلشمنٹ مخالف جدوجہد قرار دیتے ہیں اور ہم عوام کو یہ بھی یاد کرانا چاہتے ہیں کہ 1999ء میں ان کا اقتدار عوام کو طاقت کا سرچشمہ بنانے اور عوام کی بالادستی کو قائم رکھنے کی کوشش کی بجائے امیر المومنین بننے کی کوشش کے دوران گیا تھا اور آج بھی وہ اسی راستے کی طرف چل رہے ہیں