دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے طالبان کے بارے میں بھارت کے دارالعلوم دیوبند کی گول مول پالیسی – خدیجہ عارف، بی بی سی اردو

bbc

پاکستان میں ریاست سے برسر پیکار تقریبآ تمام دہشت گرد تنظیموں جیسا کہ طالبان، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جیش محمد، جند الله وغیرہ کا تعلق دیوبندی مسلک سے ہے – دیوبندی سیاسی رہنماؤں جیسا کہ مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن اور دیوبندی مدرسوں کی تنظیم وفاق المدارس اور اس کے رہنماؤں حنیف جالندھری، تقی عثمانی، عدنان کاکا خیل وغیرہ نے کبھی غیر مشروط اور واضح طور پر طالبان اور سپاہ صحابہ کی مذمت نہیں کی – چونکہ دیوبندی مسلک کی بنیاد انیسویں صدی میں بھارت میں دار العلوم دیوبند میں رکھی گئی تھی اور چونکہ بھارت کے دیوبندی علما نے غیر مشروط اور واضح طور پر طالبان اور سپاہ صحابہ کی مذمت نہیں کی،  بی بی سی اردو کی خدیجہ عارف نے بھارت میں دیوبندی علما سے اس بابت میں بات چیت کی جو بی بی سی نے شائع کی – اس گفتگو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی طرح بھارت کے دیوبندی علما بھی واضح اور غیر مشروط طور پر طالبان، سپاہ صحابہ اور دیگر دیوبندی ہشت گرد گروہوں کی مذمت کرنے سے گریزاں ہیں – یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان میں دیوبندی دہشت گردوں نے ہزاروں سنی بریلوی/صوفی، شیعہ، مسیحی اور دیگر افراد کا قتل کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فوج، پولیس اور عام شہریوں کو بھی قتل کیا ہے

——-

دارالعلوم دیوبند، دیوبندی مسلک کے مسلمانوں کا آج بھی اہم روحانی مرکز ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں سرگرم طالبان شدت پسند بھی اسی مسلک کے پیروکار ہیں۔ پاکستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے تناظر میں یہ سوال اور بھی اہم ہوتا جا رہا ہے کہ کیا طالبان دارالعلوم دیوبند اور دیوبندی اسلام کی صحیح عکاسی کر رہے ہیں اور اگر نہیں تو دارالعلوم دیوبند کے علماء ان پر اپنی مثبت سوچ کا اثر کیوں نہیں رکھتے ہیں؟

جمعیت العلماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کا کہنا ہے کہ ’دارالعلوم دیوبند ایک مدرسہ نہیں ہے بلکہ ایک تحریک ہے

سوال یہ ہے کہ پاکستان میں سرگرم طالبان کا بھی تو تعلق دیوبندی مسلک سے اور وہ ان ہی مدارس کی دین ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے نہ صرف مولانا ارشد مدنی بلکہ دیوبند سے تعلق رہنے والا ہر عالم اور ہر طلب علم فخر محسوس کرتا ہے۔

مولانا ارشد مدنی کہتے ہیں کہ: ’دیکھیے ان کے حالات نے ان کو متاثر کیا ہے، طالبان سمجھ رہے کہ تھے کہ ہمارا ملک بدامنی کی طرف جارہا ہے ہمیں اس میں سیاسی کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہمارا طالبان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور ہمارا کوئی سیاسی کردار ہے ہی نہیں۔‘ مولانا ارشد مدنی کے اس جواب کے بعد میں نے جمعیت علمائے ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا محمود مدنی کے سامنے یہ سوال رکھا کہ انھوں نے شدت پسندی کے خلاف کانفرنسیں کی ہیں اور تشدد کو غیر اسلامی قرار دیا ہے لیکن کبھی واضح الفاظ میں طالبان کی مخالفت یا مذمت کی ہے؟ انھوں نے کہا کہ ’چاہے تحریک طالبان پاکستان ہو یا ہندوستان میں موجود تنظیمیں ہوں ہم چاہتے ہیں کہ بات چیت سے مسائل حل ہوں۔‘

مدرسہ دارالعلوم دیوبند کے وائس چانسلر مفتی عبدالقاسم نعمانی کا کہنا ہے کہ وہ شدت پسندوں کی کارروائیوں کی کھل کر مذمت کر چکے ہیں اور کرتے رہیں گے لیکن طالبان آج جو کچھ کررہے ہیں اس کے لیے گیارہ ستمبر سنہ 2001 کا واقعہ ذمہ دار ہے۔ ’نوگیارہ کے حملے کے بعد جب امریکی اور اتحادی طاقتیں افغانستان میں داخل ہوگئیں اور ان کی ماؤں، بہنوں کی عزت لوٹی گئیں تو اب وہ دفاع کے لیے اگر شدت اختیار کرتے ہیں تو ان کا طریقہ ہے او ر ان کے داخلی حالات ہیں۔ وہ مسلک اور مشرب کے اعتبار سے دارالعلوم کو اپنا مرکز سمجھتے تھے اور اسلام نظام حکومت کیا ہونا چاہیے اس بارے میں مدد چاہتے تھے لیکن یہاں کے حالات کی وجہ سے ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔‘

میں نے مولانا محمود مدنی سے یہ سوال پوچھا کہ پاکستان میں جمعیت علمائِے اسلام بھی کھل کر طالبان کی مذمت نہیں کرتی ہے؟ محمود مدنی کا کہنا ہے کہ وہ وقت کا تقاضہ ہے۔ ’ کچھ لوگوں کو بین بین رہنا چاہیے ایسی پوزیشن میں کہ اگر کل کو طالبان سے مذاکرات کرنے کی بات کرسکیں۔ سبھی مخالف ہوجائیں گے تو کیسے کام چلے گا۔‘

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -