مکتوب بلوچستان: کے بی فراق کا گوادر سے مراسلہ
گوادر ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی کا شعبہ ء ادب جیوز لبزانکی گل کا ہر پہلی تاریخ کو ہونے والی تقریب یکم مئ کو مزدوروں کے دِن کی مناسبت سے مشاعرے کی صورت رکھا گیا۔تقریب کی صدارت جیوز کے صدر کے بی فراق نے کی اور مہمانِ خصوصی نوجوان نثری نظم و ترجمہ نگار اے بی بلوچ رہے جبکہ نظامت کے فرائض علی واہگ نے انجام دیئے۔
تقریب کے ابتداء میں علی واہگ نے یومِ مزدور کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی نوے فیصدی آبادی محنت کش طبقے کی جن کی بدولت اس ملک کا خستہ پہیہ چلا رہاہے لیکن نہ تو یہ مزدور اس کی شعور رکھتے ہیں اور نہ ہی حکمران طبقہ اس معاملے میں دھیان دیتے ہیں بلکہ وہ مزدور طبقہ کی بے خبری کی بنا پر اپنی حکمرانی کو طول دیتے رہیں جو ان کی اصل ترجیح ہے جس پر انھوں نے فیض احمد فیض کے ایک شعر
ملتا ہے خراج ان کو تِرے نانِ جویں میں
ہر بادشاہِ وقت تِرے درکا گدا ہے
کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ مزدور ہی ہیں جو حکمران طبقہ کا پیٹ پال رہے ہیں لیکن بدلے میں حکمران ان کو کیا دے رہے ہیں ،یہ ایک عبرتناک سوال ہے اس کے بعد علی واہگ اپنا ایک متعلق نظم پیش کرکے مشاعرہ کا باقاعدہ آغاز کیا پھر یکے بعد دیگرے تما شعراء نے اپنا کلام پیش کیا ،آخر میں تقریب کے صدر کے بی فراق نے عالمی صورتِ حال میں مزدور اور سرمایہ داری نظام کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ اس سرمایہ دارانہ نظام نے انسانی وجود کی اہمیت ختم کرکے اس ایک کموڈٹی کی طرح بناکے رکھ دیا جس کی وجہ سے اس کا
کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ مزدور ہی ہیں جو حکمران طبقہ کا پیٹ پال رہے ہیں لیکن بدلے میں حکمران ان کو کیا دے رہے ہیں ،یہ ایک عبرتناک سوال ہے اس کے بعد علی واہگ اپنا ایک متعلق نظم پیش کرکے مشاعرہ کا باقاعدہ آغاز کیا پھر یکے بعد دیگرے تما شعراء نے اپنا کلام پیش کیا ،آخر میں تقریب کے صدر کے بی فراق نے عالمی صورتِ حال میں مزدور اور سرمایہ داری نظام کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ اس سرمایہ دارانہ نظام نے انسانی وجود کی اہمیت ختم کرکے اس ایک کموڈٹی کی طرناکے رکھ دیا جس کی وجہ سے اس کا اپنی تہذیب و ثقافت اور معاشرت کے ساتھ رشتہ کٹ گیا انھوں ے عصرِ حاضر کی سرمایہ دارانہ ذہنیت کو شیکیسپیئر کے ایک ڈرامے” وینس کے سوداگر” کے کردار شائیلاک سے جوڑتے ہوئے کہاکہ جس طرح شائیلاک اپنے کاروباری سودے کے بدلے میں ناغہ کی صورت اپنے شریکِ کار سے زر کی طلبی کرتاہے تو صورتِ حال کو موافق نہ پاکراُس سے کچھ مانگ بیٹھتا ہے تو اس بیچ اُس کا رفیق ہی اپنے دوست کی وکالت کے لیئے سامنے آتا ہے کہ اگر جہاز بروقت نہ پہنچ سکا تو میں آپ اگر آپ بدلے میں دل بھی مانگیں تو حاضر پائیں گے جبکہ شائیلاک یہ غلیظ شرط عائد کرتاہے کہ دل دیتے وقت ایک قطرہ بھی خون کا زمین پر نہ گرنا چاہیئے کیونکہ اس سے مجھے نقصان ہوگا اور کاروبار میں مَیں نقصان پرداشت نہیں کرتا۔یہی استحصالی رویہ سرمایہ داروں کا مزدور طبقے کے ساتھ چلا آرہاہے ،آج کا یہ دِن جب ہم منا رہے ہیں توہمارا سامنا دیسی اوربدیسی شائیلاکوں سے ہے اس لیئے اس نظام زر کی تبدلی آج کے دِن کا مشن ہے اور ہم اپنے گرد ونواع میں ماہیگیروں کی زندگیاں دیکھ رہے ہیں جن کا نہ آج دیدہ زیب ہے اور نہ ہی کل دیدہ زیب تھا جبکہ حالیہ دنوں میں ملٹی نیشن کمپنیاں گوادر کا چہرہ بھگاڑنے کے لیئے آن براجیں ہیں جن کا اولین مقصد ماہیگیر زندگی کو رندہ ء در گاہ کرکے دم لینا رہاہے لیکن گوادر میں جیوز ایسے ادارے کی موجودگی سے ماہیگیروں کی ذہن سازی کرنا ہی ایک طرح سے بنیادی حوالہ رہا ہے جس کے لیئے اس ادارے نے شروع دن سے لے کر ابتک بڑی کمٹمنٹ کے ساتھ محنت کش طبقے کو اس علاقے کی ترقی و تعمیر میں بنیادی حوالے سے تعبیر کیا اور انسانی حقوق کی پائمالی کے خلاف برسرپیکار رہااور آج اس دِن کا منانا بھی اُس نظامِ فکر کی تجدید و توثیق ہے۔
اس تقریب میں گوادر کے شعراء سمین بلوچ،صدام الطاف، عابد جی ایم،جلیل جوہر، رزاق تحسین،محمد علی ہمدم،صباگلزار،احمد نثار، سمین ارمان،تاج یار، راشد کریم اور خالد ہُما نے اپنا کلام پش کرکے حاضرین سے داد و تحسین حاصل کیں۔