متعصب وہابیوں اور دیوبندیوں کے بارے میں سر سید احمد خان کے خیالات

1965437_754731824546033_483571097_o

سرسید احمد خان لکھتے ہیں


’’بعض متعصب وہابی جن کو میں یہود ہٰذا الامت سمجھتا ہوں اور جن کے تمام افعال صرف دکھلاوے کی باتوں پر منحصر ہیں اور جو انگریزی زبان پڑھنے کو حرام سمجھتے ہیں، انگریزوں اور کافروں سے صاحب سلامت کرنا گناہ جانتے ہیں۔ ان سے دوستی کفر سمجھتے ہیں۔ ان کی اہانت اور تذلیل کو بڑی دیانت داری جانتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہمدردی کرنا کفر خیال کرتے ہیں، اگر اتفاقاً ان سے مصافحے کی نوبت آجائے تو ہاتھ دھو ڈالنا فرض کہتے ہیں۔ اگر دھوکے میں عیسائی سے صاحب سلامت ہوجائے تو جاکر اس سے یہ کہنا کہ میرا سلام پھیردے، اس کا کفارہ جانتے ہیں۔


مگر دو باتوں کو مباح سمجھتے ہیں، کافروں کی نوکری کرنا تاکہ ڈپٹی کلکٹری نہ جاتی رہے اور اپنی غرض کے لیے کافروں کے پاس حاضر ہو کر آداب و تسلیم بجالانا تاکہ جب کسی مجلس نواب لیفٹننٹ گورنر ہوں تو اس بات کے کہنے کا کہ آپ کے قدموں کی برکت سے یہ عزت ہوئی، موقع رہے۔


میں ایسی دین داری سے کفر کو بہتر سمجھتا ہوں۔ میں اسلام کو نورِ خالص جانتا ہوں، جس کا ظاہر و باطن یکساں ہے۔ تمام دنیا سے اور کافر سے سچی محبت، سچی ہمدردی اعلیٰ مسئلہ اسلام کا سمجھتا ہوں۔ جس طرح میں خدا کے ایک ہونے پر یقین کو رکن اعظم یا عین ایمان جانتا ہوں، اسی طرح تمام انسانوں کو بھائی جاننا تعلیم اسلام کا اعلیٰ مسئلہ یقین کرتا ہوں، مگر ان کے مذہب کو اچھا نہیں سمجھتا۔


یہ متعصب وہابی وہ لوگ ہیں، جو علوم کے بھی دشمن ہیں، فلسفہ کو وہ حرام بتلاتے ہیں۔ منطق کو وہ حرام کہتے ہیں۔ علومِ طبیعیات کا پڑھنا تو ان کے نزدیک کفر میں داخل ہوتا ہے۔ پس ایسے آدمی جس قدر مجوزہ دارالعلوم مسلمانان کی مخالفت کریں ، کچھ بعید نہیں۔’’

اقتباس: مقالاتِ سرسید
مرتبہ: مولانا اسماعیل پانی پتی
ناشر: مجلسِ ترقی ادب۔ لاہور


مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی خاطر اپنا سب کچھ وقف کردینے والے سرسید احمد خان کی ان کی زندگی میں بھی مخالفت کی جاتی تھی اور آج بھی ان کے نام اور بے مثل کاموں کا تمسخر اُڑانے والوں کی کمی نہیں ہے، بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے۔


آج مذہبی جماعتوں کے شترمرغ ہوں یا مدرسوں کے سانڈ! انہیں اگر جدید دور کی نعمتیں میسر ہیں تو اس میں کہیں نہ کہیں سرسید کا شکرگزار ہونا چاہیٔے۔ جس طرح آج سائنس و ٹیکنالوجی اس حد تک ترقی کرچکی ہے، کہ ایڈیسن کا ایجاد کردہ بلب موجودہ دور کی نسل کو زمانۂ قبل از تاریخ قسم کی کوئی چیز معلوم ہوگا، لیکن اس ساری ترقی کے حوالے سے ایڈیسن کو باوا آدم قرار نہ دینا سراسر احسان فراموشی ہی ہوگی۔


بالکل اسی طرح برّصغیر پاک وہند کے مسلمانوں پر سرسید کا احسان ہے کہ انہوں نے مسلمان معاشروں کو جاہل مولویوں کے تسلط سے آزاد کروانے کا بیڑا اُٹھایا۔سرسید نے وہابی مکتبہ فکر کے لوگوں کی جو صفاتِ ازحد خرابات بیان کی ہیں، وہ آج ترقی کرکے جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان و سمیع الحق گروپ، حافظ سعید اور مولانا طارق جمیل کے پجاریوں کے ٹولے اور اقبال کے شاہین بچوں اور عقابی نگاہ رکھنے والے تاڑوں بزرگوں پر مشتمل پی ٹی آئی وغیرہ وغیرہ کی صورت اختیار کرچکی ہیں۔


یہ لوگ اپنے مفاد اور تعیش کے لیے مغرب کی ایجاد کردہ تمام سہولیات سے استفادے میں آگے آگے رہتے ہیں، لیکن اپنے تمام کمینے پن کے نتائج کا ذمہ دار مغرب کو ہی قرار دیتے ہیں۔انسانی فلاح اور بہبود کے ہر کام پر حرف زنی کرنا اور ان کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنا اپنا فرضِ اولین خیال کرتے ہیں۔


دنیا بھر کو تلقین کرتے ہیں کہ قرآنی آیات میں دنیا کے تمام مسائل کا حل موجود ہے، لیکن خود اپنے تمام مسائل کا حل مغرب یعنی کافروں کے ایجاد و اختراع کردہ طریقوں اور مشینوں سے تلاش کرتے ہیں۔ان کے نزدیک ہر وہ چیز جو انسانی احساسات میں لطافت پیدا کرسکے، حرام ہوتی ہے۔


آپ دیکھیں گے کہ ان کی شکلیں اپنی وحشیانہ حد تک کرختگی و درشتگی پر مبنی سوچ کی وجہ سے منحوس ہوچکی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ طالبان امریکا نے پیدا کیے، اور مذہبی جماعتوں کو امریکا نے پروان چڑھایا۔
درست


لیکن آپ کو یہ بات بھی ماننی ہوگی کہ مغرب یا امریکا کو نہ تو اس کے لیے زمین تیار کرنے کی مشقت جھیلنی پڑی، نہ بیج کے حصول کے لیے تگ ودو اور نہ ہی آبیاری کے لیے کوئی اہتمام کی ضرورت پڑی!
سب کا سب تو یہاں موجود تھا


اور مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس سارے گند اور غلاظت کو ایک جگہ ‘‘پاکستان’’ کے نام سے اکھٹا کردیا۔
تاکہ اس خاص طرزِ فکر کے فروغ کے ذریعے اسلحہ ساز فیکٹریوں کی منافع میں دن رات اضافے کے لیے چھیڑی جانے والی خانہ جنگیوں کا اس خطے کے لوگوں کو ایندھن بنایا جاسکے۔


جہالت اور مفلسی جڑواں بہنیں ہیں۔ دونوں کو ایک ساتھ اس خطے میں پروان چڑھایا گیا۔مغرب میں ایک ایڈیسن کے بعد لاکھوں ایڈیسن پیدا ہوئےاور ٹیکنالوجی کی ترقی اس قدر عروج پر جا پہنچی کے ہمارے جیسے جاہل، پسماندہ اور وحشیانہ روایات کو ایمان سمجھنے والے معاشرے بھی اس ترقی کے فوائد سے محروم نہ رہ سکے۔لیکن کیا ایسا نہیں لگتا کہ شاید ہمارے ہاں سرسید کے بعد ایسے لوگ پیدا نہ ہوسکے جو علم کی روشنی کو پھیلانے اور جہالت کے اندھیروں کے خاتمے کے لیے اپنی زندگیاں داؤ پر لگا سکیں۔

Comments

comments