پاکستان میں دیوبند مکتبہ فکر اور وہابی لوگوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو معاویہ ابن ابی سفیان اور ان کے ساتھیوں کی سیاست کو مسجع اور مقفع کرکے بیان کرنے میں رات دن مصروف نظر آتے ہیں
یہ لوگ شعوری طور پر عوام کے اندر سیاست اور فکر معاویہ کو عام کرنے کا کام کررہے ہیں اور ان کی جانب سے یہ دعوی بھی سامنے آرہا ہے کہ جیسے معاویہ کی سیاست،حکومت اور اس کی فکر عین وہی تھی جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،ابوبکر اور حضرت عمر کی فکر تھی اور ان کی طرف سے کبار اصحاب رسول کی روش اور معاویہ کی روش کو ایک ثابت کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے
یہ سب کچھ پاکستان کے اندر سپاہ صحابہ پاکستان اور اس کے جملہ حواری بے شرمی سے کرہے ہیں اور وہ اپنے اس شرانگیز کام کو ناموس صحابہ کا مشن قرار دیکر عوام اہل سنت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرہے ہیں اہل سنت کے علماء اور اہل علم حضرات کا فرض بنتا ہے کہ وا اس سفسطہ کا جواب دیں
میں تاریخ اسلام کے ایک طالب علم کی حثیت سے اس بارے میں موٹے موٹے حقائق اپنے قاری کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ وہ خود فیصلہ کرلے کون ٹھیک اور کون غلط ہے
جب ہم سیاست معاویہ کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کتب ہائے تواریخ،حدیث و فقہ سیاست معاویہ کے بارے میں کہتی کیا ہیں کہ وہ کیا تھی؟
نہج البلاغہ میں مکتوب نمبر 6 ہے اور یہ خط معاویہ بن ابی سفیان کے نام ہے اور اس خط میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم معاویہ کو لکھتے ہیں
بعد از حمد ثناء میں تم پر واضح کردوں کہ میری خلافت کی بیعت انھی لوگوں نے کی ہے جنھوں نے ابو ،عمر اور عثمان سے بیعت کی تھی
اس لیے نہ تو اس بیعت کے موقعہ پر حاضر کسی کے لیے اس بیعت کو ترک کرنے کا اختیار تھا اور نہ ہی کسی غیر حاضر آدمی کے لیے یہ اختیار ہے کہ وہ اس بیعت سے روگردانی کرے
(مسلمانوں کے خلیفہ کا فیصلہ کرنے کا اختیار)مہاجرین و انصار کی شوری کو ہے اور کسی کو نہیں ہے
مہاجرین اور انصار اگر اتفاق سے کسی کو امام بنا لیں تو اس کا مطلب ساری امت اور اللہ کا اتفاق اور رضامندی ہوتی ہے
اب اگر کوئی اس اتفاق سے پھرے گا اور اس پر کوئی اعتراض پیدا کرے یا بدعت سے کام لے تو اسے اس بیعت کی طرف لوٹایا جائے گا اور اگر نہ لوٹے اور ضد پر اڑا رہے تو اس سے جنگ کی جائے گی اور جنگ اس لیے ہوگی کہ اس نے مومنوں کی رائے سے ہٹ کر رائے اختیار کی اور اللہ پاک بھی ایسے آدمی کو اس کی گمراہی کے حوالے کردے گا
اے معاویہ !اگر تو اپنے نفس سے ہٹ کر عقل سے کام لے گا تو تو مجھے قتل عثمان سے بری پائے گا اور جان لے گا کہ اس قتل سے میرا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے
یہ الگ بات ہے کہ تو اپنے مقصد اور مفاد کے لیے تہمتیں تراشتا رہ
خیر جو کرنا ہے کرتا رہ
یہ خط قدیم کتب ہائے تواریخ میں موجود ہے اور اس خط کے مندرجات صاف صاف بتارہے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے معاویہ ابن سفیان پر واضح کیا تھا کہ ان کی خلافت پر اجماع امت ہوا ہے اور اجماع مہاجرین و انصار کے بعد کسی کی کوئی حثیت نہیں ہے اور اس لیے ان کی بیعت واجب ہے
اس خط سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ معاویہ ایک طرف تو حضرت علی کی خلافت کا انکار کررہا تھا تو دوسری طرف وہ انصار و مہاجرین اصحاب رسول کے اجماع کا انکاری تھا اور تیسرا وہ ناجائز طور پر حضرت علی پر خون عثمان کا الزام لگارہا تھا
اس خط سے پتہ چلتا ہے کہ سیاست معاویہ کے دو جزو تھے
ایک خلافت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خلافت کا انکار
دوسرا جزو حضرت عثمان کے خون کا الزام ناجائز طور پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے سرلگانا اور یہ سب بقول حضرت علی نفس کی دھوکہ بازیوں کے سبب تھا
معاویہ نے اس کے جواب میں حضرت علی کو خط لکھا جس میں غلط بیانیاں کی گئی تھیں تو حضرت علی نے اس کا یہ جواب لکھا
یہ ایک بیعت ہوچکی ہے جس پر نظر ثانی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی نئے سرے سے کسی کو اختیار ہے
جو اس بیعت سے نکلے گا و ہ طعنہ باز ہوگا اور اسلام سے خارج ہوجائے گا
تمہارا خط پر فریب بناوٹ پر مبنی نصحیت نامہ ہے اور اس کی سجاوٹ بناوٹی ہے اور یہ خط تمہاری گمراہی سے رچا ہوا ہے اور بدباطنی کو ظاہر کرتا ہے
یہ خط ایک ایسے آدمی کا ہے جس کے پاس نہ تو روشنی ہے کہ اس سے وہ راہ پاسکے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تم میں رہبری نام کو بھی نہیں ہے کہ کسی کو رستہ دکھا سکو
اصل میں تمہارا حال اس آدمی کی طرح ہے جو اپنی نفسانی خواہشوں کی آواز پر لبیک کہے امور گمراہی اس کو اپنے پیچھے چلائے اور وہ اس گمراہی کے پیچھے چل پڑے ،اسی لیے تمہارا خط بے معنی اور باطل ہے
اس دوسرے خط سے بھی ظاہر ہوگیا کہ سیاست معاویہ سوائے گمراہی اور نفسانی خواہشوں کی پیروی کے سوا کچھ بھی نہیں تھی
جب یہ خط معاویہ بن ابی سفیان کو ملا تو اس نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو جوابی خط میں لکھا کہ قاتلان عثمان اس کے حوالے کئے جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے مبیلے بنو امیہ اور قریش پر فخر و مباہات کا آظہار بھی کیا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اس کو جواب لکھا کہ
دنیا کی بوالعجی دیکھو کہ میرا نام اس شخص کے ساتھ لیا جاتا ہے جو دو قدم بھی میرے ساتھ چل نہیں سکتا اور نہ اسے وہ سبقت اسلام میں حاصل ہے جو مجھے حاصل ہے اور میری سبقت تو ایسی ہے کہ اس میں کوئی شخص میرا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا ہاں کسی مدعی کے جھوٹے دعوے کی بات اور ہے اور میرے حیال میں خدائے بزرگ و برتر کے علم میں بھی ایسا مدعی کوئی نہیں ہے جو میری ہمسری کرسکے
اس جواب سے معلوم ہوا کہ معاویہ کی سیاست علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مقابلے میں اپنی جھوٹی شان بیان کرنا تھا اور غلط طور پر حضرت علی کی ہمسری کرنا تھی اور یہ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو یہ سخت ناپسند تھا کہ کوئی آدمی حضرت علی کے برابر معاویہ کا نام استعمال کرے اور حضرت علی کی یہ تنبیہ صاف ظاہر کرتی ہے کہ یہ جو سپاہ صحابہ پاکستان جیسی دیوبندی خارجی جماعتیں علی -معاویہ بھائی بھائی کا نعرہ لگاتی ہیں دراصل بیزاری و ناراضگی حضرت علی کا سامان کرتی ہیں کس قدر شقی القلب اور بے حیاء لوگ ہیں لشکر جھنگوی والے کہ ان کا ترجمان علی سفیان نام سے پریس کو بیانات دیتا ہے
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا نہج البلاغہ میں مکتوب نمبر دس ہے جو پھر سے معاویہ کے نام ہے
اے معاویہ !تم کیا کروگے جب یہ لباس دنیا جو تم نے پہنا ہوا ہے اتر جآئے گا
“گویا سیاست معاویہ دنیا پرستی کا دوسرا نام ہے”
دنیا کی زینت نے اپنا جال بچھایا اور اپنی لذتوں کو پھیلایا اور تمہیں پکارا تو تم اس کی جانب دوڑ پڑے ،دنیا تمہاری حاکم بن گئی اور تم دنیا کے تابع فرمان
تم بھول گئے کہ کہ اللہ تبارک وتعالی تمہیں وہآں کھڑا کرے گا جہاں کوئی چیز تم کو چھپا نہ سکے گی
تم ہو گیا محض عیش پسند آدمی
تم شیطان کے شنکجے میں جکڑے ایک آدمی ہو اور شیطان کی آرزوئیں تم سے پوری ہورہی ہیں اور شیطان ہی تمہارا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے
یہ بتاؤ تم امت کے والی ،رہبر کب تھے ،نہ اسلام میں تمہاری سبقت اور نہ ہی جاہلیت میں تم بڑے شرف کے مالک تھے
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے یہ جملے یہ بتانے اور ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ معاویہ ایسا شخص نہیں تھا کہ اسے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جائے یا اس کی سیاست کو اپنایا جائے اور وہ کسی بھی طرح سے رہبری ،امامت کے قابل نہیں تھا
خط نمبر سترہ پھر معاویہ کے نام ہے جو امارت شام معاویہ کی جانب سے مانگے جانے پر حضرت علی نے اسے لکھا اور کہا کہ
میں نے جو امارت تمہیں دینے سے انکار کیا تھا اب بھی اس پر قائم ہزن
اس خط میں معاویہ نے جذباتی بلیک میلنگ کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اتحاد عرب قوم کمزور ہوچکا ہے اور اگر علی اس کو امارت شام دے دیں تو یہ اتحاد پھر سے قائم ہوجائے گآ ،اسی خط میں معاویہ نے ایک مرتبہ پھر اپنی علی سے برابری کا زکر تو حضرت علی نے اس کو جواب دیا کہ
نہ تو امیہ ہاشم کے برابر،نہ حرب عبدالمطلب کے برابر ،نہ ابو سفیان ابو طالب کے برابر ،نہ طلیق مہاجر کے برابر ،نہ باطل حق کے برابر ،نہ مفسد مومن کے برابر ،وہ نسل کس قدر بری ہے کہ جو ان بزرگوں کے پیچھے آئی ہے جو جہنم میں گرچکے ہیں اور تم تو بھول ہی گئے ہو کہ ہمارے ہاتھ میں نبوّت کی فضیلت ہے اور اسی نبوت کے زریعے ہم نے طاقت وروں کو نیچا دکھایا اور گرے ہوؤں کا سربلند کردیا
تم ان لوگوں میں سے تھے جو دین میں لالچ یا خوف سے داخل ہوئے اور یہ بھی اس وقت ہوا جب دین میں سبقت لیجانے والے سبقت لے جاچکے تھے اور مہاجرین اولین فضیلت سے شاد کام ہوچکے
تمہارے لیے اچھی بات یہ ہوگی کہ شیطان کو اپنے قلب پر غالب نہ آنے دو اور آپنے آپ پر اس کے چھاجانے سے بچ جانے کا سامان پیدا کرلو
یا خط بھی سیاست معاویہ ،فکر معاویہ کا سب سے بڑا رد ہے اور اس کے بطلان کو واضح کرنے والا ہے
معاویہ کے نام حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ایک اور تفصیلی خط موجود ہے اور یہ خط آج کی سپاہ صحابہ کی سیاست معاویہ کا مسکت جواب ہے معاویہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے نام ایک خط لکھا اور خود کو شیخین کریمین کا نائب اور ان کی فکر کا وارث بتلانے کی کوشش کی اور یہ بھی کہا کہ ابو بکر و عمر عثمان کا درجہ علی سے افضل تھا تو اس پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے معاویہ کو جو جواب مرحمت فرمایا وہ آج کی جعلی سپاہ صحابہ کے نام پر ایک طمانچے سے کم نہیں ہے اور یہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردینے والا خط ہے ،یہ ان دیوبندی دھشت گردوں اور انتہا پسندوں کو کھلا جواب ہے جو سیاست معاویہ زندہ باد کآ نعرہ لگاتے ہیں اور اپنے ناموں کے آگے فخر سے معاویہ لگاتے ہیں تو ان میں کوئی سفیان علی ہے تو علی معاویہ تو کوئی شمس معاویہ لکھواکر خوش ہے
اے معاویہ !تمہار خط ملا تم نے لکھا کہ
خدا نے محمد کو اپنے دین کے لیے منتخب کرلیا اور اصحاب رسول نے اس کی تائید کی
واقعی زمانہ تمہاری چھولی میں ہے اور اس جھولی سے تم ہمارے لیے عجائبات نکالتے چلے جاتے ہو
یہ تم ہو جو ہم کو جتاتے ہو کہ خدا نے کس طرح سے ہماری آزمائش کی اور ہمارے نبی کی بدولت ہم پر کتلا بڑا احسان کیا تم تو ایسے ہوگئے ہو جیسے کوئی کجھوروں کے شہر ہبر میں کھجوروں کا ٹوکرا لے جائے یا تم اس تیر انداز کی طرح ہوگئے ہو جو اپنے استاد کو تیر اندازی کے مقابلے کی دعوت دینے لگ جائے
تم نے دعوی کیا ہے کہ اسلام میں فلاں افضل لوگ ہیں،یہ دعوی ایسا ہے کہ اگر ٹھیک ہو تو بھی اس سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگآ اور اکر یہ ٹھیک نہ ہو تو اس کا تمہیں کوئی نقصان نہ ہوگا تمہیں اس سے کیا مطلب کہ افضل کون ہے اور غیر افضل کون ہے ؟رہبر کون ہے اور پیرو کون ہے؟تمہیں خلفاء اور اولاد خلفاء کی مہاجرین اولین میں تمیز کرنے ،ان کے درجے ٹھہرانے اور ان کے طبقوں کا تعین کرنے سے کیا سروکار ہے
تم ایک ایسا تیر ہو جو سب سے الگ ہے اور ایسے فیصلہ کرنے والے ہو جو خود مجرم ہے
اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے شان اہل بیت بیان کی اور ان کا اسلام میں حصّہ اور رسول کریم کی عنایات اپنے رشتہ داروں پر
علی کرم اللہ وجہہ الکریم کہتے ہیں کہ
تم برابر نہ تھے اور برابر ہوتے بھی کیسے کہ ہم میں اللہ کا نبی اور تم میں وہ جن کو اللہ نے مکذب کہا ،تم میں ابو جہل ہم میں سید شباب اہل الجنّۃ تم میں ابو لہب کی بیوی اور ہم میں افضل ترین خاتون اور تم میں ام جمیل اور معاویہ کی پھوپی
کہاں تک بتایا جآئے ہر بات ہمارے حق میں اور ہر بات تمہارے خلاف
پس واقعہ یہ ہے کہ ہمارا اسلام بھی شاندار ہے اور ہماری جاہلیت بھی کم شاندار نہیں ہے اور جو کمی تھی اسے کتاب اللہ نے پورا کردیا خدا فرماتا ہے
واولوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ -ان اولی الناس باابراھیم للذین اتبعوا وہذا النبی والّذین امنوا واللہ ولی المومنین
تو ہم کبھی اس لیے سب سے مقدم ہیں کہ رسول کے سب سے قریبی رشتہ دار ہیں تو کبھی اس لیے مقدم ہیں کہ کہ رسول کے سب سے بڑھ کر فرمانبردار ہیں
معاویہ کے نام ایک خط میں حضرت علی فرماتے ہیں
واردیت جیلامن الناس کثیرا خدعتھم بغیک
میں دیکھتا ہوں کہ تم نے انسانوں کی ایک پوری نسل کو دھوکہ دیا اور اپنی گمراہی سے ہلاک کرڈالا
والقیتھم فی موج بحرک تغشاھم الظلمات وتتلاطھم بھم الشبھات
اور اپنے باطل موجوں پر ان کو ڈال دیا اور تمہاری ظلمتوں اور اندھیروں نے ان پر سایہ کررکھا ہے اور شبہات کی لہریں ان کو اٹھاتی اور تلاطم مچاتی ہیں
فجازوا عن وجھتھم ونکصوا علی اعقابھم و تولوا ادبارھم و عولوا علی احسابھم
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے واشگاف الفاظ میں سیاست اور فکر جو معاویہ کی تھی بیان کرڈالا اور اس کے بعد اس باب میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہتی
سیاست علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیاست معاویہ ایک دوسرے کے یکسر مخالف ہیں اور ان کے درمیان کسی بھی جگہ سمجھوتہ نہیں ہوسکتا اور نہ ان کو اکٹھے لیکر چلا جاسکتا ہے ایک سیاست ہدائت،اسلام،قران ،سنت کی سیاست ہے تو دوسری یکسر کفر،گمراہی ،دنیا پرستی ہے اور بقول علی کے جس طرح سے مفسد اور مصلح کے درمیان جوہری تضاد ہے اسی طرح کا جوہری تضاد سیاست علی اور سیاست معاویہ کے درمیان پایا جاتا ہے
Comments
comments