آل سعود کی مقدس مقامات کو منہدم کرنے کی گھناونی سازش

saudi-11-300x169

حضرت محمد (ص) کی زندگی سے تعلق رکھنے والے مقامات مسلمانوں کے لئے تقریباً پندرہ سو سالوں سے انتہائی اہمیت کے حامل تصور کیے جاتے ہیں – ان صدیوں میں یہ مقامات مختلف حکمرانوں جن میں اموی ، عباسی اور عثمانی سر فہرست ہیں ان کی عمل داری میں رهتے ہوے خود ساختہ نام نہاد خادمین حرمین شرفین آل سعود کے تصرف میں آے ہیں – خادمین حرمین صرف ایک لقب نہیں بلکہ یہ ایک عرب ساتھ کروڑ مسلمانوں کے لئے وہ اتھارٹی ہے جو کہ ان کو ان مقامات کی زیارت کرنے کی اجازت دینے یا نا دینے کا مجاز ہے

اس نام نہاد لقب کے بواجوس ہر سال حج کے لئے جانے والے سینتیس لاکھ مسلمان اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ خادمین حرمین کی حکومت ان مقامات کی حفاظت کرنے کے بجاے تاریخی مقامات کی ہیت کو بدلنے یا منہدم کرنے میں مصروف ہے اور اس  ان مقامات کی حفاظت کے مقدس فرض کی تکمیل کے بجاے ” ثقافتی اور مذہبی دہشت گردی ” میں ملوث ہے

saudi 2_1

واشنگٹن سے تعلق رکھنے والا ادارہ براۓ خلیجی معاملات کی رپورٹ کے مطابق پچھلے بیس سال میں سعودی حکومت نے تاریخی اہمیت کی حامل پچانوے فیصد تعمیرات کو مکمل طور پر منہدم کر دیا ہے – اور ان مقامات کی جگہ جدید تعمیرات جیسے کہ ہوٹلز اور کیسینوز کو تعمیر کیا جا رہا ہے جس میں زیادہ تر کے مالک آل سعود کے افراد ہیں –

وہ حاجی جو اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی کے سہارے ایک بار حج کرنے کی سعادت حاصل کرنے جاتے ہیں جب وہ حضرت محمد (ص) کی زوجہ حضرت خدیجہ (ع) کے مکان کو دیکھتے ہیں تو اس پندرہ سو سالہ پرانے مکان کی جگہ بیت الخلا ان کا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں – حضرت ابو بکر (ر) سے منسوب مسجد کی جگہ ایک کیش پوانٹ بنا دیا گیا ہے ہزار سال پرانی مسجد کو منہدم کر دیا گیا ہے اور پرانے پہاڑوں کو گرا کر پارکنگ کے لئے جگہ بنایی گیی ہے –

اور اگر کوئی ان حرکات پر تنقید کرتا ہے تو سعودی حکومت کی جانب سے اس پر سعودیہ میں داخلے پر پابندی لگا دی جاتی ہے اور یہ ایسا رسک ہے جو کوئی بھی مسلمان نہیں لینا چاہے گا – اور اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے ہر ملک کے لئے حج کا کوتاہ بھی مختص کر رکھا ہے کہ ہر سال کس ملک سے کتنے حاجیوں کو حج کرنے کی اجازت ہوگی –

عالمی سطح پر ان سعودی حرکات پر کبھی کبھار ہی تنقید دیکھنے کو ملتی ہے – ابھی دو ہزار تین میں تقریباً دو سو سال پرانا عثمانی دور حکومت کا قلعہ جو مکہ کی حفاظت کے لئے بنایا گیا تھا اس کو مکمل طور پر گرا کر وہاں ایک بلند و بالا کلاک ٹاور بنا دیا گیا ہے -جو کہ دنیا کی تیسری بلند ترین عمارت ہے – ترکی کے وزیر ثقافت اس سب پر خاموش نہ رہ سکے اور بول اٹھے – ان کا کہنا تھا کہ وہ اس گھناونی حرکت کی شدید مذمت کرتے ہیں جس میں ایک تاریخی عمارت کو گرا کر ایک ہوٹل کھڑا دیا گیا ہے –

ان کا کہنا تھا کہ یہ سرا سر بربریت اور وحشیانہ عمل ہے – ان کا کہنا تھا کہ ترکی کی عوام کی نمائندگی کرتے ہوے میں کہنا چاہوں گا یہ حرکت نا صرف ترک قوم کی بے عزتی ہے بلکہ اس سے سبط ہوتا ہے کہ سعودی حکومت ترک ثقافت کو روے زمین سے ختم کرنا چاہتی ہے – اگر اس حرکت کے پیچھے صرف قوم پرستی کے جذبات نا ہوں پھر بھی یہ حرکت ایک بہت بڑی سازش کو بے نقاب کرتی ہے

اسی معملے میں سعودی تناظر کو بیان کرتے ہوے سعودی شہزادے خالد الفیصل کا کہنا تھا کہ وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں اور وہ یہ بتانا چاہیں گے کہ اب تک جتنے بھی لوگوں نے مکہ اور مدینہ پر حکومت کی ہے ان میں سے سب سے زیادہ ترقیاتی کام آل سعود کے دور حکومت میں ہوا ہے – سعودی حکام کا کہنا ہے کے کی عرب ڈالر کی رقم سے ہونے والی ترقیاتی تعمیر میں مساجد میں وسعت کے کام کو جاری رکھا جا رہا ہے

لیکن اسی بارے میں اسلامی تاریخی مقامات کی حفاظت کے لئے قائم کمیٹی کا کہنا ہے کہ ترقیاتی منسوبوب کو اس طرح بھی جاری رکھا جا سکتا ہے جس میں تاریخی مقامات کو نقصان نا پہنچے  لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ سعودی حکومت جان بوجھ کر تاریخی مقامات کی منھدمی کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ تراشتی رہتی ہے

اسلامی  تاریخ دان عرفان علوی کا کہنا ہے کہ عالمی دباؤ سعودی حکومت کو اس قسم کے اقدامات سے باز رکھنے کے لئے اہم کردار ادا کر سکتا ہے – ان کا کہنا ہے کہ ماضی  میں بھی سعودی حکومت کسی نہ کسی بہانے سے اسلامی تاریخی مقامات کو منہدم کرتی رہی ہے اور مسلمانوں کو اس بارے میں یہ شکایات جاری رکھنی چاہیے کیوں کہ وہ اب بھی ایسا کرنے میں مصروف ہیں

جب پوچھا گیا کہ لوگ اس بارے میں خاموش کیوں ہیں تو ڈاکٹر عرفان علوی کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو اس کے خلاف سالوں پہلے ہی احتجاج شروع کر دینا چاہیے تھا اور اب ہمارے پاس نا تجربہ کار لوگ ہیں جو ان تعمیرات کے خلاف اور تاریخی مقامات کی مکامات تاریخ سے نا واقف ہیں

اب لوگوں نے مکہ کے لئے طنزیہ طور لاس ویگاس کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کر دی ہے – اگر مسلمانوں نے اپنی تاریخی مقامات کی کوئی عزت اور تکریم برقرار رکھنی ہے تو اب بھی وقت ہے کہ ان تاریخی مقامات کی منھدمی کے خلاف منظم طور پر احتجاج شروع کر کے سعودی حکومت کو ان اقدامات سے باز رکھنے کی کوشش کریں   –

Comments

comments