گیبریل گارشیا مارکیز- وہ جو بیچتے تھے دوائے در دل – از عامر حسینی

گبرئیل گارشیا مارکیز 82 سال کی عمر میں کولمبیا کے دارالحکومت میکسیکو میں انتقال کرگئے اور اس طرح سے دنیائے ادب میں کہانیوں اور ناولوں میں جادوئی حقیقت نگاری کا فن اپنے عروج پر اور پوری مہارت کے ساتھ برتنے والا ایک ادیب رخصت ہوا

مارکیز ایک ایسا ادیب تھا جس کے فن نے صرف لاطینی امریکہ کے باشندوں کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ اس کے کہانی بیان کرنے کے فن نے پوری دنیا میں ادب کے قاری کو اپنے سحر میں مبتلا کردیا میں نے گبرئیل کو سب سے پہلے پنجابی نے میں پڑھا،افضل حسن رندھاوا نے ان کی ایک کہانی کا ترجمہ “پہلاں تو دس دتی گئی موت دا روزنامچہ”کے عنوان سے پڑھی تھی اور پھر محبت اور دوسرے آسیب کے عنوان سے کہانیاں پڑھیں پھر کہیں جاکر ان کا شہرہ آفاق ناول “سوسال تنہائی”کے پڑھا تھا جس پر ان کو 1982ء میں نوبل انعام ملا تھا

گبرئیل گارشیا مارکیز کا دوسرا ناول میں نے “لو ان کالرا” پڑھا جس کا ترجمہ “وبا کے دنوں میں محبت “کے نام سے ہوا جادوئی حقیقت نگاری کے فن کو ناول اور کہانی میں برتنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا اور خاص طور پر اس فن کو کہانی میں ایسے سمونا کہ ابلاغ بھی ہوجائے اور ناممکن ممکن نظر آنے لگے ویسے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ سرئیلزم کو اپنے ہاں مکمل انجذاب کے ساتھ برتنے کی ایک سنجیدہ اور بہت مربوط کوشش سرائیکی شاعر رفعت عباس نے “پروبھرے شہر اچوں” “سنگت وید” اور اپنی نظموں کی پہلی کتاب میں کی اور سرائیکی لینڈ سکیپ کے ساتھ ان کی یہ کوشش خاصی کامیاب رہی اور اشو لال فقیر کے ہاں بھی ہمیں اس کا سراغ ملتا ہے

اے ہنڈرڈ ائیرز آف سالی ٹیوڈ کا سندھی میں بھی ترجمہ ہوا ،کہنے والے کہتے ہيں کہ یہ اردو سے اچھا ترجمہ تھا جسے غالبا مراد علی سندھی نے کیا تھا اور میں اس بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں کیونکہ میں نے اس کے بارے میں سنا لیکن اسے پڑھا نہیں مارکیز کو اردو دان طبقے میں متعارف کرانے کا سہرا اجمل کمال کو جاتا ہے جنہوں نے عمر میمن سمیت بہت سے لوگوں کے ترجمے کئے ہوئے گبرئیل گارشیا مارکیز کی کہانیوں کو پہلے اپنے مجلے آج میں شایع کیا اور پھر ایک بھاری بھرکم کتاب ان تراجم کی شایع کرڈالی

آج جب میں گبرئیل گارشیا مارکیز کی وفات کی خبریں انٹرنیشنل میڈیا پر دیکھ اور سن رہا تھا تو مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ شہرہ آفاق ادیب کی وفات کی خبر کو جتنی اہمیت ایشیا،افریقہ،لاطینی امریکہ،یورپ کے ملکوں میں دی گئی اتنی تو کیا اس سے عشر عشیر اہمیت بھی ہمارے مین سٹریم میڈیا پر اس خبر کو نہیں دی گئی
آج کے اکثر اخبارات میرے سامنے پڑے ہیں تو کسی ایک اخبار نے گارشیا پر کوئی ایک مضمون بھی شایع نہیں کیا
آپ مجھ سے کہہ سکتے ہیں کہ آخر گارشیا کو پاکستان میں یاد کرنے کی ضرورت کیا ہے ؟تو میں جواب میں اتنا کہوں گا کہ گارشیا نے جس طرح کی حقیقت اور خوابوں کو ملا کر اپنے لاطینی امریکہ کے خطے کی تاریخ کو اسطور میں بدلا تھا ویسی یا اس سے ملتی جلتی حقیقتیں اور خواب ہمارے ہاں بھی پائے جاتے ہیں بس دیکھنے والی نظر گارشیا جیسی ہونی چاہئیے

گارشیا جادوئی حقیقت نگاری کو ایک ساحر کی طرح نقش کرنے والا ادیب تھا اور وہ ایک بارآور ذھن رسا تخیل نگاری کا مالک تھا ہم اسے قلم سے لفظوں کی شعبدہ بازی کرنے والا ساحر بھی کہہ سکتے ہیں
اس نے اپنی کہانیوں میں بے خوابی اور نسیان کے طاعون آتے دکھائے ،جادوئی انگوروں کی چھتری بنائی جس میں موت کے راز چھپے تھے اور سوسن کے پھولوں کی دلدل دکھائی جس سے خون ابل رہا تھا اور گیلون نامی ہسپانوی بادبانی جہاز کہ جو تباہی اور معجزے ساتھ ساتھ لیکر آتا ہے یہ جو جادوئی تمثال تھیں یہ اس کے نہ ختم ہونے والے اختراعی ذھن کی سادہ علامات نہیں ہیں بلکہ اس کے فنکارانہ وژن کے قبولیت عام ہونے کی نشانی ہے

مارکیز کولمبیا کے ایک دورافتادہ ساحل سمندر کے ساتھ پرانے اور پسماندہ ٹاؤن میں پیدا ہوا جہاں پر سمندری طوفان ،خشک سالی اور اچانک طوفانوں کاآنا اور ٹڈیوں سے طاعون کا پھیل جانا معمول کی بات تھی اور پھر ان دنوں پورا لاطینی امریکہ خانہ جنگیوں،امریکی اور ہسپانوی فروٹ کمپنیوں و تجارتی کمپنیوں کی نوآبادیاتی پالیسیاں تھیں 1940ء اور 1950ء کے دوران پھیلی عوامی بے چینی کی لہر کو دبانے میں 3 لاکھ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے مارکیز نے اپنے بچپن،خاندان،اپنے ٹاؤن ،اپنے براعظم سے جڑی یادوں کو کام میں لاتے ہوئے جادوئی حقیقت نگاری کے زریعے کہانیاں لکھنا شروع کیں اور ناول لکھے

اگر آپ کو اس کے ناول “تنہائی کے سو سال” کو پڑھیں تو اس میں جو مکانڈو جیسے تصوراتی گاؤں ہے تو وہ خود مارکیز کی اپنی جائے پیدائش کا علاقہ تھا اس نے اپنے ناولوں میں لاطینی امریکہ کی تاریخ کو متھالوجیکل کرڈالا جس میں حقیقت اور جادو گھل مل گئے ،جو واقعات انسیویں صدی میں لاطینی امریکہ کے اندر رونماء ہوئے اور پھر لاطینی امریکہ میں بار بار ہونے والے وحشی حملے اور لوگوں کا بار بار اپنی جڑوں سے اکھڑجانا لاطینی امریکہ کی تاریخ کو بقول خود مارکیز کہ اس قدر آؤٹ سائزڈ کردیا ہے کہ اس کو عام،روائتی حقیقت پسندی نگاری سے بیان کرنا ممکن نہیں ہے تو اس کے لیے جادوئی حقیقت نگاری ہی کام آسکتی ہے

گبرئیل گارشیا مارکیز کی تخلیق نے لاطینی امریکہ کی تاریخ کو ہی اسطورانہ رنگ نہیں دیا بلکہ اس نے اپنے ناولوں نے انسانی حالات کی ایسی باغیانہ تصویر کشی کی کہ جیسے کوئی سرسامی حالت میں ہو اور وہ محبت،مصائب ،الم ،کفارے کا نہ ختم ہونے والے چکر کو پردہ سکرین پر لاتا رہے جب میں “سوسال تنہائی کے پڑھا “تو مجھے یوں لگا جیسے مارکیز نے لاطینی امریکہ کے اجتماعی حافظے اور اس سے جڑے اپنے ناسٹیلیجا کو ملاکر ادب کی تخلیق کرنا چاہی ،مکانڈو ایسی ہی جگہ ہے جہاں تنہائی،بے گانگی کے ساتھ ساتھ عذاب ،آفات اور معجزات ساتھ ساتھ چلتے ہیں ،جہاں پر حقیقت اور خواب مل گئے ہیں اور جہاں ایک غار سے نکلنے والی خون کی لیکر سفر کرتی ہوئی مکانڈو کے ایک گھر میں داخل ہوکر کچن میں کام کرتی اس کی ماں کو نشانہ بنالیتی ہے

مارکیز جادو نگاری کرتا ہے مگر یہ جادو نگاری وہ بہت غور سے مشاہدہ کی ہوئی زمینی حقیقت پر کرتا ہے فالکنز اور جیمس جوائس کی طرح وہ جادوئی حقیقت کو عام حقیقت کی طرح بیان کرتا ہے جیسے وہ سب کا سب اس کے اپنے تجربے کا حصّہ ہو ،مارکیز بورخس کی طرح خواب میں لپٹی ہوئی تمثال پیش کرتا تھا اور ہمیں کہتا تھا کہ
انسانی محبت اور مصائب دونوں کی انتہائی صورتوں کو ہم عام لوگوں کی زندگیوں میں ہی پاسکتے ہیں -گارشیا نے اپنی سوانح عمری کا عنوان “کہانی کہنے کے لیے جینا”رکھا جو اس کے فلسفہ زندگی پر روشنی ڈالتا ہے
گارشیا جب فالکنز اور جوائس کو پڑھ رہا تھا تو اس نے ان دونوں عظیم ادب کے کے استادوں سے سیکھا کہ
ادیب کے لیے حقائق کو ثابت کرنا ضروری نہیں ہوتا کیونکہ ایک ادیب کے لیے کسی شئے کے بارے میں لکھنے کے لیے اس کا سچ ہونا کافی ہے اور اس کے لیے اس کی قابلیت اور اس کی آواز کا مستند ہونا ہی کافی ہے
یہ تنہائی کے سوسال ناول کا ہسپانوی Cien Años de Soledadنام ہے ڈیلی گراف نے مارکیز کی وفات کی مناسبت سے اپنی تازہ اشاعت میں گیبے ووڈ کا ایک مضمون شایع کیا ہے جس میں آغاز میں انہوں نے کولمبیا کے معروف ناول نگار الوارو میوٹس کا ایک واقعہ درج کیا ہے

میوٹس کہتا ہے کہ یہ 60ء کی دھائی کی بات ہے جب گیبو(مارکیز کے دوست اور خاندان کے لوگ اسے اسی نام سے پکارتے اور لکھتے تھے)اپنا ناول “سوسال تنہائی”کے لکھ رہا تھا تو ان دنوں یہ دونوں شام کو ایک بار میں اکٹھے ہوا کرتے تھے اور مارکیز اپنے ناول کے اب تک کے لکھے گئے سین سناتا تھا پھر جب یہ ناول چھپ کرآیا تو اس میں نہ کریکٹر وہ تھے ،نہ پلاٹ جو اس بار میں مارکیز میوٹس کو سناتا تھا

میوٹس کو بہت افسوس ہوا کہ وہ زبانی مارکیز کا بیان کردہ ناول بار کی فضاؤں میں ہی گم ہوگیا گارشیا کے ذھن میں بیک وقت کئی کہانیاں محفوظ ہوتی تھیں اور کئی کہانیاں اس پر نازل ہوا کرتی تھیں ،کوئی کردار دھم سے چھلانگ لگاکر اس کے دماغ سے اس کے لبوں سے بیان ہونے کے لیے آگرتا تھا اور یہ لمحہ شام کے وقت محفل ناؤ نوش کا بھی ہوسکتا تھا

گیبے ووڈ کہتی ہے کہ جادوئی حقیقت نگاری کی مہارت اپنی جگہ مگر اس کا جو کہانی بننے اور اس کو کہنے کی جو ادا اور جو فارم تھی وہ مارکیز کو مارکیز بناتی تھی اور وہ گنٹر گراس ،میلان کنڈیرا اور اٹالو کیل وی آنو کو مارکیز کے قبیل کے ادیب قرار دیتی ہے

میں ادب کو حظ اٹھانے اور اس سے مسرت حاصل کرنے کے لیے پڑھتا ہوں اور یہ کہہ سکتا ہوں کہ مارکیز کی جادوئی حقیقت نگاری کو ہمارے اردو ادب میں اگر کسی نے گیبو سے بھی بہت پہلے ہاتھ لگایا تھا تو وہ سعادت حسن منٹو تھا اور جادوئی حقیقت نگاری سے منٹو کے رشتے کی دریافت میں میری مدد حمید شاہد صاحب نے کی ہے

مارکیز نے جو بھی لکھا اسے سیاست کے تناظر میں دیکھنے سے لاطینی امریکہ کی نوآبادیات و پس نوآبادیات کی معاشرت کا اداراک تو ہوسکتا ہے لیکن لاطینی امریکہ کو آپ اس نظر سے دیکھنے سے محروم ہوجائیں گے جس نظر سے خود گیبو نے دیکھا تھا اور اسی لیے نیویارک ٹائمز میں ایک لکھنے والے نے کیا خوب لکھا ہے کہ
گیبو نے تو اپنے زمانے،اپنی یادوں اور محبت کو پلٹاتے ہوئے،بل دیتے ہوئے اور اسے مڑوڑتے ہوئے ادب تخلیق کرنے کا فریضہ سرانجام دیا ایسے کرتے ہوئے اس کا فوکس بھی زمانہ،اپنی یادیں اور محبت تھی نہ کہ سیاست
گیبو کا خیال تھا کہ جن کو لوگ دیوانگی کا شکار کہتے ہیں اگر ایک آدمی بھی ان کی دیوانگی کو فرازنگی مان لے تو وہ پھر کریزی نہیں رہتے

گیبو کہتا ہے کہ زندگی میں جو آپ پر گزرتی ہے اس کی بات اہم نہیں ہے بلکہ جو آپ یاد رکھتے ہو اور کیسے اس کو یاد رکھتے ہو یہ اہم ہوتی ہے گیبو ایک جگہ لکھتا ہےانہوں نے اکٹھے کوئی شئے سیکھی تو وہ دانائی تھی اور وہ ایسے وقت ہمارے پاس آئی جب اس کے آنے سے ہمارے لیے کچھ اچھا ہونے والا نہیں تھا ایک مشہور ادیب جو لکھتے رہنا چاہتا ہو تو اسے مسلسل اپنی شہرت سے نبرد آزماء رہنا چاہئيے

گیبو نے کیوبا کے انقلاب کے بانی اور سابق صدر فیڈرل کاسترو کی 80ویں برسی 2006ء کے موقعہ پر ایک آرٹیکل لکھا اور اس کا ایک جملہ بہت مشہور ہوگیا کہ آج کے لبرل اور کنزرویٹو میں فرق صرف اتنا رہ گیا ہے کہ لبرل 5 بجے عبادت کو جاتے ہیں اور کنزرویٹو 8بجے

آخر میں میں نے سوچا کہ مارکیز کی موت کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے آنجہانی ہوجانے والے دوست ڈاکٹر نعیم کلاسراء کا زکر بھی کرلیا جآئے جس کو مارکیز سے عشق تھا اور اس نے مارکیز کے شہرہ آفاق ناول تنہائی کے سو سال کو اردو میں ترجمہ کرنے کی ٹھان لی تھی ترجمہ کیسا ہوا ؟مجھے اس سے کوئی غرض نہیں مگر مجھے ڈاکٹر نعیم کلاسراء کے عشق پر کوئی شک نہیں ہے نعیم کلاسراء نے اس ناول کا ترجمہ کیا تو اس کو اپنے مرشد اور استاد اشو لال فقیر کے دیباچے کے ساتھ شایع کرایا

میں اشو لال کے گھر گرمیوں کی ایک رات تھل کروڑ لعل عیسن لیہ سے گیا تھا اور اعظم خان کے ساتھ کروڑ کا سفر ایک موٹر سائیکل پر کیا تھا اور ایک رات ہم نے وہاں گزاری تھی اور جس طرح بار کی میز پر گیبو نے اپنے دوست میوٹس کو زبانی روائت کے ملبے تلے دبا ایک قصّہ ناول کی شکل میں سناتا رہا تھا ویسے ہی اشو نے اس رات ہمیں دیسی ٹھرے کے سرور کے ساتھ قصّے اور مقامی ثقافتوں کے بطن سے جنم لینے والے جادوئی حقیقت کو داستان کرکے سنایا تھا

اشو لال نے گیبو کے ناول کے ترجمے کے دیباچے میں لکھا ہے کہ تین چار نسلوں پر میحط یہ محض بوئیندا خاندان کی کہانی نہیں بلکہ تہذیبوں کے عروج اور زوال کا وقت مقامی ثقافتوں اور ان کے قصّے کہانی کی کہانی ہے جس سے یہ وقت گزرتا ہے

تنہائی کی اس کہانی کو واقعات درواقعات کی کہانی بنانے میں جتنی شعبدہ بازی اور کرتب بازی گیبو کے ہاتھ کی ہے اس سے کہیں زیادہ ہاتھ اس میں کولمبیا کا ہے جو لاطینی امریکہ کے پوسٹ کالونیل اثرات کی تاریخ میں براہ راست دخیل ہے

اشو لال نے ایک جگہ کمال کی بات کہی ہے جس سے آدمی کا پھڑکنا لازم ہے مقامی ثقافتوں کا روگ لبرل اور کنزرویٹو کی عبادت میں تین گھنٹے کے فرق کا نہیں ہے ۔بلکہ اس کے پیچھے نسل در نسل وہ جھجھک چھپی ہے جو آسانی سے ثقافتوں کو ایک دوسرے میں گم نہیں ہونے دیتی نئے شکاری پرانا جال لیکر آتے ہیں ۔لیکن اب مچھلیاں بھی کہیں یہ جان گئی ہیں کہ کڑاہی تلے جانے سے کہیں بہتر ہے کہ وہ اپنی تنہائی میں ہی کہیں اندر ہی اندر مرجائیں

اشو لکھتا ہے کہ تہذیب بندوں کو نہیں بناتی ،بندے اسے بناتے ہیں اور آہستہ آہستہ اس کے جال میں آجاتے ہیں اس کا صرف ایک ہی حل رہ جاتا ہے یا تو وہ اپنے خلا کو پے درپے جنسی عمل سے بھرتے رہیں یا خوبصورت “ریمیدس” کی طرح سر پر استرا پھروا کر اپنی خوبصورتی کی تنہائی کا مزا لیں جو بندے مارتی ہے

جنگ کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ یہ سوچنے نہیں دیتی تاوقتیکہ آپ تھک نہ جائیں -بہت دیر بعد اس کی اکتاہٹ کے نتیجے میں کہیں یہ بات کھلتی ہے کہ جس لبرل اور کنزرویٹو ادرش کے نتیجے میں جنگ لڑی جارہی تھی وہ تو صرف تین گھنٹے کے وقت کا فرق ہے

واقعی اشو لال نے ٹھیک لکھا ہے کہ جنگ کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ سوچنے نہیں دیتی ہے
گیبو عمر کے ایک حصّے تک امریکہ کی نظروں میں بہت ناپسندیدہ آدمی رہا اور اسے امریکہ میں آنے کی کبھی اجازت نہ ملی لیکن پھر اس کی دوستی بل کلنٹن سے ہوگئی اور کلنٹن بھی گیبو کی کہانیوں کا عاشق ہوگیا ،ابھی کل جب گیبو کی وفات کی خبر آئی تو بل کلنٹن نے کہا کہ

گبرئیل گارشیا مارکیز تو چلے گئے لیکن ان کا فن ہمیشہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا مجھے گارشیا مارکیز اس لیے بھی پسند ہے کہ اس نے اشو لال کی خاموشی کو بھی توڑا تھا اور اسے بھی لکھنے پر مجبور کردیا تھا
گیبو !آج جب تم اس دنیا میں نہیں رہے تو بھی میرے جیسے لاکھوں تمہارے چاہنے والے تمہاری تحریروں،تمہارے دئے ہوئے انٹرویوز،تمہاری کہانیوں کے کئی کرداروں کو یاد کررہے ہیں ،یہ اصل میں تمہیں یاد کرنے کی ایک ادا ہےاور یہ سب وہ ہیں جو کبھی بھی قومی ہیرو نہیں بننا چاہتے بلکہ وہ اصرار کرتے ہیں کہ وہ محض مزدور ہیں اور ان کا بس اتنا ہی خواب ہے کہ اپنی بھولی بسری یادوں کے بوجھ تلے اور سونے کی چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کے عذاب میں مرجائےاور یہ خواہش پوری نہیں ہوتی جس کی کسک سے تنہائی جنم لیتی ہے جو خاندانوں میں صدیوں چلتی رہتی تھی

Aamir Hussaini's photo.
Aamir Hussaini's photo.
Aamir Hussaini's photo.
Aamir Hussaini's photo.
Aamir Hussaini's photo.

Comments

comments