سیکولرازم ہندوستان میں مسلمانوں کی بقاء کا ضامن اور پاکستان میں بے دینی و الحاد -راشد مدنی سچے کہ پاکستانی دیوبندی ملّا
جمعیت علمائے ہند کے مرکزی صدر مولانا ارشد مدنی نے ایک ہندوستانی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہندوستان میں مودی سرکار آئی اور سیکولر ازم کے لیے ہندوستان میں فضا تنگ ہوئی تو ہندوستان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا
مولانا ارشد مدنی نے اپنے اس انٹرویو میں بہت واضح طور پر یہ کہا کہ جمعیت العلمائے ہند ہندوستان میں کمیونل ہم آہنگی کے باقی رہنے کے لیے سیکولر تشخص کو واحد راستہ سمجھتی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کو اقتدار میں آنے سے ہرصورت روکا جائے
یہ وڈیو پاکستان میں دیوبندی مسلک کے غالبا سب سے پہلے جہادی میڈیا گروپ جوکہ پاکستان کے اندر دیوبندی عسکریت پسند تنظیموں کا ترجمان گروپ خیال کیا جاتا ہے “ضرب مومن “کے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر آفیشل پیج پر بھی ظاہر ہوئی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سیکولر ازم کا مطلب لادینیت کرنے والے دیوبندی عسکریت پسند تنظیموں اور ان کی حامی سیاسی مذھبی جماعتوں نے جمعیت العلمائے ہند کے مرکزی صدر مولانا راشد مدنی کے اس انٹرویو پر کوئی بھی تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی بات منہ سے نکالی ہے
پاکستان کے اندر رہنے والا عام شہری اس بات پر سخت پریشان ہے کہ دیوبندی مکتبہ فکر کی جس دارالعلوم میں بنیاد رکھی گئی اس دارالعلوم کی انتظامیہ اور اس کا دارالفتاوی ہندوستان میں سیکولرازم کی حمائت کرتا ہے اور اس دارالعلوم سے جنم لینے والی سیاسی تنظیم جمعیت العلمائے ہند بھی سیکولرازم کی حامی ہے تو پھر پاکستان میں دیوبندی مذھبی سیاسی جماعتیں اور دیوبندی تکفیری دھشت گردجماعتیں پاکستان کے اندر سیکولر فکر تو دور کی بات ہے وہ یہاں پر اکثریت میں موجود اہل سنت بریلوی کے مذھبی شعائر اور ان کے مذھبی کلچر کو بھی برداشت کرنے پہ تیار نہیں ہیں اور وہ سیکولر ہونے کو ہ ملحد ،دھریہ اور مذھب مخالف خیال کرتی ہیں اور پاکستان کے اندر زور و شور سے نفاذ دیوبندی شریعت کا نعرہ بلند کرتی رہتی ہیں
دیوبندی مکتبہ فکر کی ایک سیاسی جماعت جمعیت العلمائے اسلام پآکستان مولانا فضل الرحمان گروپ ہے جس کے حامی دیوبندی دانشوروں اور مورخوں کا یہ اصرار ہے کہ ان کی جماعت جمعیت العلمائے ہند کی وارث ہے اور میرے سامنے جمعیت العلمائے اسلام پاکستان کی تاریخ پر لکھی ہوئی ڈاکٹر احمدحسین کمال کی کتاب موجود ہے جس کا نام “عہد ساز قیادت ،تاریخ جمعیۃ علمائے اسلام 1947ء سے 1977ء ” ہے اس جماعت کا قیام 1956ء میں ملتان میں علمائے دیوبند کے اجتماع میں کیا گیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے جو دعوت نامہ تیار کیا گیا اس کا متن مفتی محمود والد مولانا فضل الرحمان نے ملتان کے چند علماء دیوبند کے دستخطوں کے ساتھ یوں لکھا
دعوت نامہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جمہور مسلمین بالخصوص علمائے کرام کی مساعی جمیلہ سے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے یہ طے کرلیا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون ساز ادارہ کتاب و سنت کے خلاف قانون بنانے کا مجاز نہ ہوگا -یہ ایک عظیم الشان فتح ہے جس سے دین دار طبقہ ملحدین کی بے پناہ طاقت کے مقابلہ میں ہم کنار ہوا ہے -اس پر ہم خداوند جل وعلا کا بے غایت شکر ادا کرتے ہیں
اب اگر کفر جہاز کے نفاز سے ملک ایک حد تک الحمداللہ بچ گیا ہے مگر آپ پر واضح رہے کہ مسلمانوں کا ملک جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہو وہاں پر کفر کا نفاز مشکل تھا
اس وقت ایک عظیم الشان خطرہ سر پر ہے اور اہل بصیرت کی دور بین نگاہیں دیکھ رہی ہیں کہ یہ خطرہ کسی بھی وقت حقیقت بنکر خرمن مراد کو سپرد آتش کرسکتا ہے ،آپ کو معلوم ہونا چاہئيے کہ ملک کا بے دین و مغرب شیدائی طبقہ یہ تہیہ کرچکا ہے کہ کتاب و سنت کے نام سے وہ سب کچھ بروئے کار لائے گا جسے وہ لادینی ریاست بناکر اس میں نافذ کرنے کا متمنی ہے
ڈاکٹر احمد حسین کمال کی یہ کتاب اور مفپی محمود اکیڈیمی سے مفتی محمود پر جمعیت علمائے اسلام کی مجلس شوری کے رکن فاروق قریشی ساکن کراچی کی کتاب مفتی محمود پر ہمیں بہت واضح طور پر بتلاتی ہے مولانا احمد علی لاہوری کی قیادت میں جو جمعیت العلمائے اسلام پاکستان میں 1956ء میں قائم ہوئی وہ اپنے منشور اور اپنی دعوت کے لحاظ سے جمعیت العلمائے ہند سے بہت مختلف تھی اور اس کے قیام کا مقصد پاکستان میں اسلام کا نفاز تھا اور بے دینی و الحادکا خاتمہ تھا اور یہ پاکستان کے سیکولر ،روشن خیال ترقی پسند سیاسی حلقوں کو بے دین و ملحد خیال کرتی تھی
اور جیسا کہ خود احمد علی لاہوری،مولانا عبداللہ درخواستی ،مولانا غلام غوث ہزاروی ،مفتی محمود وغیرہ ہم کی اپنی تصریحات موجود ہیں کہ اس جماعت کا مقصد ایوب خان کے عائلی قوانین سمیت ان جدید اصلاحات کی مخالفت کرنا تھا جو ایوب خان جدید روشن خیالی کے نعرے تلے نافذ کرنا چاہتا تھا اور جمعیت علمائے اسلام نے پاکستان کو ایک جدید سیکولر نیشن سٹیٹ بنانے کے خلاف جدوجہد کو اپنا نصب العین قراردیا جوکہ اس لیے حیران کن امر تھا کہ ایک طرف تو پاکستان میں جمعیت العلمائے اسلام کی یہ ساری جملہ قیادت یہ کہا کرتی تھی کہ ان کے اکابرین نے سیکولر نیشن سٹیٹ کے مقابلے میں مسلم نیشنلزم کی مخالفت ٹھیک کی تھی اور مسلمان نامی قوم موجود نہیں ہے بلکہ مسلمان ایک ملت جبکہ ہندوستانی ایک قوم ہے جیسے مصری ایک قوم ہیں لیکن پاکستان کے اندر اس نے نیشن سٹیٹ کے سیکولر تصور کو بے دینی اور الحادیت قرار دے دیا اور اسلام و شریعت نافذ کرنے کو اپنا فرض اولین قرار دے ڈالا
گویا جب پاکستان بنا تو جمعیت علمائے ہند کے وہ سارے دیوبندی علماء جو ہندوستان کے جغرافیہ میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو ایک ہندوستانی قوم کا باشندہ خیال کرتے تھے اور پاکستان بننے کے مخالف تھے انہوں نے فوری طور پر قوم پرست مسلمان ہونے کا چوغہ اتارا اور جماعت اسلامی کی طرح سیکولرازم اور سیکولر ریاست کو گالیاں نکالنے لگے کیونکہ پاکستان کی ریاست کا آئین اور اس کے قانون اگر جدید سیکولر ضابطوں کی روشنی میں تشکیل پاجاتے تو ملائیت کا کاروبار کیسے چل سکتا تھا
یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ دارالعلوم دیوبند سے وابستہ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولوی اشرف علی تھانوی اپنے قلیل ساتھیوں کے ساتھ پاکستان بننے کی حمائت کررہے تھے اور یہ مہاجر دیوبندی مولویوں کا وہ گروہ تھا جس کو حکمران مسلم لیگ،سول و فوجی نوکر شاہی کی حمائت حاصل تھی اور یہ بھی اسلام اسلام کھیلنے والی گیم میں پوری طرح سے شریک ہوئے لیکن شبیر احمد عثمانی گروپ کی موقعہ پرستی تو تقسیم سے پہلے واضح ہوچکی تھی لیکن کانگریسی ملّاؤں کی یہ قلابازی حیران کن حد تک موقعہ پرستی کا شکار تھی
گانگریسی دیوبندی مولوی پاکستان کے اندر سیکولرازم کو کفر،بے دینی ،الحادیت،مغرب زدگی جیسی اصطلاحوں سے تعبیر کررہے تھے اور اسی وقت ہندوستان کا آئین تشکیل کے مراحل سے گزر رہا تھا اور وہاں اس آئین کی بنیاد ہی سیکولرازم کو قرار دیا گیا تھا اور کانگریس کے اس مجوذہ آئين کو جہاں پر ہندؤ و سکھ برادریوں کے مذھبی رہںماؤں کی آکثریت قبول کررہی تھی وہیں پر خود جمعیت علمائے ہند بھی اس کی زور وشور سے حمائت کررہی تھی
حیران کن بات یہ ہے کہ جب مفتی محمود اور غلام غوث ہزاروی 60ء کی دھائی میں مئی 1962ء میں بالترتیب قومی و صوبائی اسمبلی کے رکن بنے تو دونوں نے اسمبلی کے لیے حلف اٹھاتے ہوئے حلف میں اپنی طرف سے یہ اضافہ بھی کیا کہ وہ موجودہ آئین میں قران وسنت کے منافی چیزوں کو حذف کرانے اور ان کی جگہ قران وسنت کے مطابق چیزیں لیکر آئیں گے جبکہ جمعیت العلمائے ہند کے حمائت یافتہ جو مسلم ممبران لوک سبھا و راجیہ سـبھا میں گئے انھوں نے نہ تو ہندوستان کے آئین کے سیکولر ہونے پر کوئی اعتراض کیا اور نہ ہی سیکولر قوانین شادی و بیاہ و یہاں تک کہ زنا کاری کے حوالے سے بنے قوانین تک پر کوئی اعتراض نہیں کیا
دارالعلوم دیوبند سے وابستہ دیوبندیوں کی انڈیا اور پاکستان میں موجود سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک ہی معاملے پر اس قدر کھلا تضاد اس تاثر کو درست ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کی سیاست میں موقعہ پرستی اور دیرینہ اصولوں سے پیچھے ہٹنے کا رویہ بہت عام رہا ہے
جمعیت علمائے ہند اور جمعیت العلماء اسلام دونوں جماعتیں معشیت کے باب میں سوشلزم کی حمائت کرتی رہیں لیکن جمعیت علمائے ہند نے نہرو کے ریاستی سرمایہ داری نظام کو جسے نہرو کا سوشلزم کہا جاتا ہے کو بغیر کسی اضافت کے قبول کرلیا جبکہ یہاں کی جے یو آئی نے اس کے ساتھ اسلامی لگاکر اسلامی سوشلزم بنایا
لیکن آج جب ہندوستان میں کانگریس سمیت تمام سیاسی جماعتیں سرمایہ داری کے منڈی ماڈل کی پیروی کررہی ہیں تو جمعیت علمائے ہند بھی سوشلزم کو بھول گئی ہے
جبکہ منڈی کی معشیت سے جے یوآئی کو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے وہ 88ء اور 93ء میں حکومت کے ساتھ اس کی نجکاری ایجنڈے کے باوجود رہی اور اس نے 2002ء خیبر پختون خوا کے اندر اسی ایجنڈے کے ساتھ حکومت کی اور پھر 2008ء میں زرداری حکومت کے ساتھ مزے کئے اور آج نواز سے اتحاد کیا اور اب پھر بس اقتدار کے کیک کا زرا بڑا حصّہ مانگنے پر روٹھ جانے کی اداکاری کی جارہی ہے
دیوبندی مولوی پاکستان کے اندر اقتدار میں کیک کا بڑاحصّہ مانگتے مانگتے سارے کیک کے حقدار ہونا چاہتے ہیں اور اس میں ایک تو وہ ہیں جو ٹارگٹ کلنگ ،بم دھماکوں،خودکش حملوں کے زریعے سے منزل تک پہنچنے کے خواب دیکھتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو بظاہر الیکشن،جمہوریت ،پارلیمانی جدوجہد جیسے راستوں کو اختیار کرتے ہیں مقصد ان کا بھی اقتدار کے سارے کیک پر قبضہ جمانا ہے
جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا راشد فرقہ پرستوں اور مخالفین گنگا و جمن کی بیخ کنی کے مسلمانوں کو سیکولرازم کا دفاع کرنے کے لیے متحد ہونے کا درس دیتے ہیں جبکہ ان ہی کے ہم مکتب پاکستانی دیوبندی علماء تکفیری خیالات کا پرچار کرتے ہیں اور پاکستان کو خالص تکفیری شریعت کے ساتھ ایک تھیوکریٹک ریاست بنانے کے درپے ہیں یہ اس طرح کی تضاد بیانی ہمیں دارالعلوم دیوبند کے قیام سے ںظر آتی ہے
Post by Zarbe momin.