کوفہ اور تاج لنگاہ – از عامر حسینی

1609769_10203630923122003_4121924090208980618_n

شیعہ کے تیسرے امام اور مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر میں عزت و احترام سے دیکھے جانے والے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے کربلا میں زندہ بچ جانے والے واحد صاحبزادے علی بن حسین المعروف سجاد و زین العابدین کا ایک قول بہت مشہور ہے کہ

کوفہ ایک شہر نہیں بلکہ ایک ذھنیت کا نام ہے
امام علی بن حسین رضی اللہ عنہ کا یہ قول اہل کوفہ کی حضرت علی سمیت اہل بیت اطہار سے زبانی محبت کے دعوؤں اور ہر مرتبہ عین موقعہ پر منہ پھیر لینے اور بے وفائی کے تناظر میں کہا گیا اور مجھے یہ آج اس لیے یاد آیا کہ ملتان پریس کلب میں پاکستان سرائیکی پارٹی نے سرائيکی تحریک کے لیے باقاعدہ ایک سیاسی جماعت تشکیل دینے والے سیاست دان بیرسٹر تاج لنگاہ کی برسی کا اہتمام کیا گیا تھا اور اس پرسی کا اعلان ان کی بیٹی ڈاکٹر نخبہ لنگاہ کی جانب سے ہوا تھا جو پاکستان سرائيکی پارٹی کی اس وقت سربراہ بھی ہیں لیکن ملتان پریس کلب کے ہال کی کرسیاں اس دن نہ بھرسکیں اور تو اور اس دن پورے ملتان میں کسی اور تنظیم یا کسی اور مجمع نے ملکر بیرسٹر تاج احمد لنگاہ کو یاد نہ کیا

یہ اعزاز ایک مرتبہ پھر روزنامہ خبریں ملتان کو حاصل رہا کہ جس نے بیرسٹر تاج احمد لنگاہ پر ایک خصوصی رنگین ایڈیشن شایع کیا اور لوگوں کو خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کی مجھے اس سے اگلے دن انتظار رہا کہ ہمارے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے حواری 7-اپریل کو بیرسٹر تاج احمد لنگاہ کی قبر پر حاضری دیں گے اور پھولوں کی چادر چڑھائیں گے اور اس طرح سے وہ عملی طور پر یہ ثابت کریں گے کہ واقعی سرائیکی خطّے کے مقدمے کو انھوں نے بیرسٹر تاج لنگاہ کی تقریروں ،بیانات اور ان کے دروس سے سیکھا جب وہ طالب علم تھے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد والی بات ہوگئی انھوں نے تو رسمی طور پر اخبارات کو ایک بیان بھی جاری نہیں کیا،نہ جانے مجھے کیوں وہ مناظر یاد آگئے جب سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی ان کو اپنا خصوصی مہمان بناکر وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد لے گئے اور ان کو کہا کہ وہ اراکین قومی اسمبلی و سینٹ کو سرائیکیستان صوبے کے مقدمے سے آگاہ کرین اور تاکہ ایک آئینی بل اسمبلی میں لایا جاسکے

10169415_10203630914441786_5462620048407949249_n

بیرسٹر تاج لنگاہ جن کی ایک خوبی تھی کہ وہ بطور حقیقی سیاست دان کبھی بھی کسی شئے کو ناممکنات میں خیال نہیں کرتے تھے اور دستیاب موقعہ کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے استعمال ضرور کرتے تھے تو سرائیکیستان صوبے کا قیام جو ان کا خواب اور عشق تھا اس کے لیے ان کو جہنم میں بلایا جاتا تو وہ جاتے تو وہ وزیر اعظم ہاؤس کیسے نہ جاتے ،سید یوسف رضا گیلانی نے گیلانی کے لیے شاید یہ سب ایک سیاسی ٹرک تھا مگر لنگاہ صاحب تو عاشق تھے اور خطے کی محبت میں مجنوں تو وہ بہت سنجیدگی سے اسلام آباد کے اندر جاکر وسیب کے اراکین اور پوری قومی اسمبلی و سینٹ کو سرائیکی خطے کا مقدمہ سمجھاتے رہے اور بتاتے رہے کہ اگر مرکز آج وفاق کی پانچویں اکائی پر راضی ہوتا ہے تو کیسے وفاق پاکستان ایک حقیقی فیڈریشن میں بدل جائے گا

ان کے چند روزہ قیام اسلام آباد پر سیاسی بونوں نے یہاں وسیب میں کیسے کیسے الزامات ان پر نہیں لگائے تھے اور کس طرح سے ان کے خلاف زبان طعن دراز کی تھی اور جب یوسف رضا گیلانی کا ٹرک ختم ہوگیا تو کس طرح ان کے حاسدین اور رقیب ہائے رو سیاہ نے اپنی نجی محفلوں میں ان کا مذاق اڑایا تھا پھر یوسف رضا گیلانی ایک اور تماشے کے ساتھ سامنے آئے اور یہ تماشا تھا سرائیکیستان کے لیے کمیشن بنانے کا ،بیرسٹر تاج لنگاہ نے اس کمیشن کو بھی نہایت سنجیدگی سے لیا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح جناح ،سہروردی جیسے وکلاء نے مسلم برادری کا مقدمہ سیاسی،آئینی اور معاشی تناظر میں قانونی اصطلاحوں کے ساتھ لڑا تھا ویسے ہی تاج احمد لنگاہ پوری تیاری کے ساتھ وہآن پر گئے اور انہوں نے خاص طور پر سرائیکیستان خطے کے الگ صوبے ہونے کے قیام سے مختلف آنے والی تجاویز خاص طور محمد علی درانی کے دلائل کا تاروپود الٹا کردکھ دیا تھا اور اس کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا

تاج لنگاہ اس کے ساتھ ساتھ ٹی وی ٹاک شوز پر الگ صوبے کے حوالے سے ہونے والی بحثوں میں بھی خوب حصّہ لے رہے تھے اور اس کے مخالفین کو دندان شکن جواب دے رہے تھے – تاج لنگاہ نے اس سارے عرصے میں اپنی عمر رسیدگی اور کئی عارضوں کے لاحق ہونے اور ساتھ ساتھ محدود وسائل کے باوجود جوانوں سے بھی بڑھ کر کام کیا اور یہ اس قدر سخت محنت تھی کہ کبھی کبھی مجھے خیال آتا تھا کہ یہ شخص شاید گوشت پوست کا نہیں سٹیل کا بنا ہوا ہے

تاج لنگاہ نے اپنی عمر رسیدگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پورے سرائیکی خطے کا دورہ کیا،لاہور،پشاور،کوئٹہ ،اسلام آباد اور گوٹھ ،گوٹھ ،قریہ قریہ ،گاؤں ،گاؤں گھومے اور ان کے یہ سارے سفر سرائیکی خطے کے مقدمے کے لیے تھے سرائیکستان ایک وفاقی اکائی کے طور پر،سرائیکی ایک قوم کے طور پر اور سرائیکی قومی تحریک کی سیاسی شناخت اور تشخص کو منوانے کے لیے بیرسٹر تاج احمد لنگاہ کو جو سبقت اور جو اولیت حاصل ہوئی وہ ان کے ایک عظیم قوم پرست سیاست دان ہونے کے لیے کافی ہے

انہوں نے اپنے سیاست دان ہونے اور سرائیکی سیاست کو اپنی زات کی مرکزی رمز ہونے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا تھا ،وہ ایک پیدائیشی سیاست دان تھے اور قائدانہ سیاست کی صلاحیت سے مالا مال تھے اور ایک مظلوم و مجبور قوم کے لیے انہوں نے کل وقتی سیاست کو اپنا پیشہ بنالیا اور کبھی بھی اپنی قیمت لگوانے اور اپنے آپ کو فروخت کرنے کا خیال تک دل میں نہیں لائے

بیرسٹر تاج احمد لنگاہ نے قوم پرست سیاست اور قوم پرستانہ نعرے اس یے نہیں اٹھائے تھے کہ سیاست کا مرکزی دھارا ان کو اپنا حصّہ بنانے پر راضی نہیں تھا یا ان میں اہلیت و صلاحیت کی کمی تھی ،وہ بھٹو صاحب کے قریب تھے ،بلکہ انھوں نے بھریا میلہ چھوڑا پاور پالیٹکس کا اور اپنی مظلوم قوم کا مقدمہ بغیر فیس کے لڑنا شروع کردیا اور ایسا لڑا کہ اپنے چالیس سالہ سیاسی کیرئیر میں سے 35 سال اسی مقدمے کی پیشیوں کی نذر کرڈالے
میرے ایک انتہائی سینئر دوست جوکہ سرائیکی تحریک کے بانی لوگوں میں سے ہیں وہ کہنے لگے کہ تاج لنگاہ کی خدمات سے انکار نہیں ہے لیکن ان کی سیاسی فیکڑی سے بہت کم لوگ تیار ہوکر نکلے اور آج اگر متعدد کیڈر ہوتے تو صورت حال اس قدر غیر یقینی کا شکار نہ ہوتی

مجھے ان کی بات سے اتفاق تھا کیونکہ اس برسی میں جو ان کی پارٹی کے بہت سے عہدے دار وہاں آئے ہوئے تھے انہوں نے اپنی تقریروں میں تمام پنجابیوں کو ایک صف میں کھڑا کیا اور یوں ظالم و مظلوم کے درمیان ،گناہ گار و بے گناہ کے درمیان تفریق کو ختم کردیا اور ایک مرتبہ پھر دائیں سمت کے تعصبات اور شاؤنزم کا غلبہ دیکھنے کو ملا جو ظاہر سی بات ہے کہ تربیت کے عدم فقدان اور غیر سیاسی ذھن کے غلبہ کرلینے کا نتیجہ زیادہ لگتا ہے
روزنامہ خبریں ملتان نے بیرسٹر تاج لنگاہ کی یاد میں تقریبات کی جو خبر دی وہ اس لیڈر کی عظمت اور اس کے کام کے اعتراف کا ایک طریقہ ہی کہی جاسکتی کیونکہ اسلام آباد میں جو تقریت ہوئی وہی پرانے چہرے تھے اکثر عمر رسیدہ ،ملتان میں ایک تقریت اور شرکاء کی تعداد مایوس کن اگر دیگر اضلاع سے پانچ پانچ دس دس لوگ نہ آتے تو شاید 20 سے زیادہ لوگ اکٹھے نہ ہوتے

فراز نون نے اپنے آبائی علاقے میں جو تقریت کی اس میں نون برادری کے زمیندارانہ اثر ورسوخ کا اثر زیادہ تھا اور اس میں بیرسٹر تاج احمد لنگاہ سے محبت کا قدرتی چشمہ پھوٹ پڑنے سے لوگوں کے انبوہ ٹوٹ پڑنے کا نتیجہ کم تھا

سرائیکی قوم تحریک میں سرائیکی خطے کے متوسط شہری طبقے اور ورکنگ کلاس ،طلباء و طالبات اور خواتین کی دلچسپی اگرچہ پہلے سے کسی حد تک زیادہ ہے لیکن اتنی بڑی نہیں کہ خطے میں کوئی کیفیتی تبدیلی کے آثار بہت واضح ہوئے ہوں ،یہی وجہ ہے کہ تاج لنگاہ کو یاد کرنے والوں کی تعداد بہت ہی کم نظر آئی ان کی تحریک اور فکر کے وارثوں کو اس کمی کو دور کرنے کی طرف بڑھنا چاہئيے

تاج لنگاہ کی وفات کے بعد اور منصور کریم سیال کی بیماری کے بعد سرائیکی خطے مين بہت چند ہی لوگ ہیں جن کو ان کے ہمسایہ خطے میں حقوق کی جدوجہد کرنے والی مظلوم اقوام کی سیاسی قیادت پہچانتی اور جانتی ہے اور جند ایک ہی ہیں جو بائیں اور دائیں کی تفریق اور پہچان رکھتے ہین اور جو محنت کشوں ،کسانوں کی قومی یا نسلی بنیادوں پر تفریق کے منفی فلسفے کو رد کرتے ہوں

تبھی تو ایک نوجوان جب منصور کریم سیال سٹیج پر تقریر کررہے تھے تو کہہ رہا تھا کہ یہ کون ہے؟اور کیسا سرائیکی لیڈر ہے جو اردو میں تقریر کررہا ہے اور چند دوسرے جوان جو اس کے نزدیک کھڑے تھے اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے مجھے منصور کریم سیال کی غریب الوطنی پر افسوس بھی ہورہا تھا اور سرائیکی خطے کے عام نوجوان کی بے توفیقی پر رنج بھی ہورہا تھا

شاؤنزم ایک ذھر ہے جو سرائیکی قومی تحریک کے اندر آہستہ آہستہ سرایت کررہا ہے اور اس کو پھیلانے میں زیادہ تر وہ لوگ سرگرم ہیں جو دائیں ،بائیں ہر طرح کے علم سے عاری پست قامت اور ناعاقبت اندیش ہیں لیکن اب بھی اس تحریک میں قومی محاذ آزادی،سوشلسٹ پارٹی ،پی پی پی ،نیپ،پی این پی ،عوامی لیگ کا پس منظر رکھنے والے کارکن موجود ہیں لیکن ان میں سے بہت کم ہیں جو اپنی زات سے اوپر ہوکر کام کرنا چاہتے ہیں ،اس وقت اس خطے کی نظریں اس سٹف پر ہیں جو اس تحریک کو بائیں سمت ریڈیکل جوش کے ساتھ لےجاسکتے ہیں اور پھر مجھے یقین ہے کہ ملتان کا کوفہ ذھنی اعتبار سے کوفہ نہیں رہے گا بلکہ حقیقی طور پر انقلاب کی بنیاد بنے گا

ویسے بیرسٹر تاج احمد لنگاہ کے سرائیکی قوم پرست تحریک کے بانی ہونے کے علاوہ بھی ملتان شہر کے ساتھ کئی اور حوالے بھی بنتے تھے وہ وکلاء برادری کے معزز رکن رہے تھے ،ان کے بہت سے دوست تھے ،پی پی پی کے بہت سے نامور لوگ ان کے زاتی دوست تھے ان کو کسی جگہ اکٹھا ہونے کا خیال نہیں آیا ،محترم نفیس انصاری کی ویسے بھی کافی دن سے کوئی خیر خبر نہیں آئی ورنہ تو ہر ہفتے ان کا فون ہی آجاتا تھا،خدا خیر کرے،امید تھی کہ بیرسٹر تاج لنگاہ کے ساتھ ان کی جو نیازمندی تھی وہ اس کو بیان کرنے آئیں گے ،بہت سے پرانے کہنہ مشق صحافی جو عینی شاہد تھے تاج لنگاہ کی سیاسی اور مجلسی زندگیوں کے نظر نہیں آئے ،خدا جانے ان کو کسی نے بلایا بھی تھا کہ نہیں

ویسے مجھے یقین ہے کہ جلوت اور مجلس کے آدمی تاج لنگاہ کو چوکوں ،چوراہوں پر آکر یا ٹاؤن کے ہالز میں بے شک یاد نہ کیا ہو لیکن ہزاروں گھر ایسے ضرور ہیں ،چائے کے کھوکھے،اور چوپال جہاں تاج لنگاہ کا تذکرہ یونہی باتوں باتوں میں ہوا ہوگا

تاج لنگاہ! آپ ایک عظیم انسان تھے اور اس قدر باشعور تھے کہ جانتے تھے کہ وسیب کوفہ نہیں ہے بس یہاں کوفی ذھنیت نے گھر کیا ہوا ہے اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے،کس قدر مذاق ،ٹھٹھا،ہوٹنگ ،طعنے ،حاسدانہ جملے اور تحقیر سبھی تو برداشت کی،اف کل کا چھوکرا سعد رفیق آپ سے جو شرمناک سلوک ایک ٹاک شو پر کررہا تھا تو جواب میں آپ کا حوصلہ اور ظرف دیکھ کر میں حیران ہی نہیں ششدر رہ گیا تھا،آپ نے جواب میں سارے پنجابیوں کو گالی دینا پسند نہیں کیا اور نہ ہی سنٹرل پنجاب والوں کو کہا کہ تم زرا وسیب تو آنا،

سعد رفیق کئی مرتبہ ملتان آیا ہے سچ پوچھئے تو میرا ضبط اس قدر نہیں ہے کہ وہ میرے سامنے آئے تو میں اسے کچھ سنائے بغیر جانے دوں لیکن تاج لنگاہ عدم تشدد کی سیاست کے قائل تھے اور اسی پر کاربند رہے،خطے میں آگ نہیں بھڑکائی ورنہ ان کے لیے بس تیلی دکھانا ہی کافی تھا،تاج لنگاہ اپنے کوفے میں پیدا ہوئے اور وہیں پر خاک نشین ہوگئے ،کوفہ واقعی ایک شہر کا نہیں ذھنیت کا نام ہے جو ضروری نہیں محض عراق کی سرزمین میں پایا جاتا ہو یہ ملتان ،بہاول پور،ڈیرہ جات کہیں بھی پایا جاسکتا ہے

Comments

comments