تکفیر-Confronting those declaring Muslims as unbelievers intellectually

مصر میں افریقہ اور عرب ملکوں کی طرح فتنہ تکفیر یعنی مسلمانوں کو باقاعدہ ایک حارب کافر گروہ قرار دیکر ان کو قتل کرنے اور ان کے خلاف دھشت گردی کے ارتکاب کو جائز قرار دینے کا عمل جاری و ساری ہے اور اس فتنہ تکفیر سے نمٹنے کے حوالے سے مصر کے اندر اخبارات میں بہت سے آرٹیکل وقفے وقفے سے شایع ہوتے رہتے ہیں ،ایسا ہی ایک آرٹیکل مصر کے معروف اخبار الاہرام میں نادر باقر نے لکھا جس میں نادر باقر یہ تسلیم کرتا ہے کہ تکفیری نظریات باہر سے درآمد ہورہے ہیں اور یہ اسلام کی غلط تشریح پر مبنی ہیں اور وہ ان نظریات کی جڑیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے دور میں پیدا ہونے والے گروہ خوارج میں ڈھونڈتے ہیں ہم آصل آرٹیکل بمعہ اس کے ترجمہ و تلخیص کے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں –مدیر محمد بن ابی بکر

جب سخت گیر میڈیا میں تشدد پر اکسائی جانے والی ایک باقاعدہ مہم چلائی جارہی ہو ،اس طرح کی مہم کو باہر سے کنٹرول کیا جارہا ہو اور اس طرح کی مہم دن اور رات لوگوں کے ذھنوں پر دستک دے رہی ہو اور جب اس طرح کی اشتعال اور ترغیب کو فتوؤں کے زریعے سے مذھبی جواز فراہم کیا جارہا ہو جو بم مارنے ،جان ،مال ،عزت آبرو کے تقدس پر حملوں کو جائز قرار یتے ہوں اور ایک ہی ملک کے باشندوں کے درمیان داخلی لڑآئی کو جہاد قرار دیا جارہا ہو اور یہ سب اللہ کے نام پر ہورہا ہو جب ایک ہی ہلّے میں گناہ گار اور بے گناہ کی تخصیص کئے بغیر لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہو اور جنھوں نے کچھ نہ کیا ہو ان کے خلاف یونہی بنا ٹھوس ثبوت کے الزام لگاکر گرفتار کیا جارہا ہو اور بہت زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہوں اور جب درجنوں لوگوں کا بے رحمی سے خون بہایا جارہا ہو تو کیسے ایک نوعمر نوجوان کو اس ہجوم میں شامل ہونے سے روکا جاسکتا ہے جو مسلمانوں کی تکفیر کا مرتکب ہورہا ہوتا ہے؟

یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ تکفیری خيالات علمی طور پر مسخ شدہ ماحول یا سماجی طور پر کمزور ماحول میں پروان چڑھنے سے ہی کسی کے اندر تشکیل پاتے ہیں بلکہ یہ کافی ہے کہ اوپر جن عوامل کا زکر کیا گیا اس سے کوئی شخص نبردآزما ہو اور وہ ٹھیک اسلامی عقیدے کی بنیاد سے آکاہ نہ ہو اور وہ تکفیری عقیدے کا علمبردار بن جائے جیسے کوئی غریب نوجوان،کوئی یونیورسٹی کا طالب علم یا کوئی نوجوان ناخواندہ مذھبی جنونیت اور انتہا پسندی کا شکار ہوسکتا ہے

ایک جارح کو سزا دینا اسلامی قانونی فریضہ ہے اور معاشرے کو اس جارحیت سے پیدا ہونے والے نتائج اور برائيوں سے نجات دلانے کے لیے ایک تقاضہ بھی لیکن وہ جو یہ سوچتے ہیں کہ سخت گیر سزائیں تکفیر کے مظہر سے چھٹکارا پانے اور اس کے نتیجے میں دھشت گردی سے نجات کا زریعہ ہے وہ الجھن کا شکار ہیں

درجنوں پولیٹکل سائنس کے پروفیسرز،سٹریٹجک ایکسپرٹ اور صحافیوں کی فوج ظفر موج و تجزیہ نگار ایک ہی غلطی کرتے ہیں کہ علامت سے معاملہ کرتے اور اس اصل بیماری کو نظر انداز کردیتے ہیں،جب وہ تکفیر بارے بات کرتے ہيں تو وہ سیکورٹی فریم ورک تک خود کو محدود رکھتے ہیں اور ان دلائل کی تغلیط نہیں کرتے جو تکفیری مسلمانوں کو حارب کا‌فر قرار دیتے ہوئے استعمال کرتے ہیں ہم کب تک اس گھن چکر میں پڑے رہیں گے

اگر تکفیری علمی لبادے میں اور قران وسنت کے نام پر اور آیات و احادیث کے حوالے دیکر اور خود کو عالم فاضل کہہ کر مسلمانوں کو حارب کافر بتلاتے ہیں تو اس کا جواب بھی عالم ،فاضل اور علوم شریعہ پر دسترس رکھنے والوں کو دینا چاہئیے اور اس بحث ہماری مساجد،فورمز،سٹلائٹ چینلز اور یہاں تک ہمارے بل بورڑز اور پوسٹروں تک پر آنے کی اجازت ہونی چاہئیے

ہم اس مباحثہ کا آغاز اپنے فقہاء،اسلامیات کے طالب علموں اور ماہر مبلغین کے ساتھ کرسکتے ہیں اور ان مبلغین اور علماء و فقہا کو ایک وسیع پیمانے کے مذاکرے میں شریک کیا جاسکتا ہے جو الازھر چئیرٹی آرگنائزیشن ،ترقیاتی اداروں اور اعتدال پسند مذھبی مفکرین کے تعاون سے شروع کی جاسکتی ہے اور اس طرح سے ہم اپنی قوم کے نوجوانوں میں تکفیر کے پھیلتے کینسر کی بیماری سے لڑسکتے ہیں اور اس بیماری کے علاج اور اس کے ہونے والے اثرات سے نمٹنے کے لیے شرعی علوم سے لیس ہونا ضروری ہے

خارجی گروپ جو فتنہ تکفیر کا بانی مبانی تھا وہ خلیفہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے زمانے میں ظہور میں آیا اور اس نے قران کی آیات کی غلط تشریح و تعبیر کرتے ہوئے اپنے تکفیری عقائد کو مضبوط کیا اور سیاق و سابق سے ہٹ کر ان آیات کا حکم مسلمانوں پر لگانا شروع کردیا تو خصرت علی نے ان کی جہالت کو ان واضح کرنے کے لیے حبر الامۃ ترجمان القران عبداللہ ابن عباس کو بھیجا جنہوں نے ان کو دلائل سے سمجھایا اور ان میں نصف لوگوں کو خارجیت سے تائب ہونے پر رضامند کرلیا اور اپنے ساتھ واپس لے آئے ،تو تلوار ان کی گردنوں پر تان لینے سے پہلے ان کے سامنے صاف حجت رکھی گئی ،کیا ہم اس عمل کو دھرائیں گے شاید کے وہ واپس آجائیں

 

Confronting those declaring Muslims as unbelievers intellectually

Nader Bakkar, Wednesday 26 Mar 2014
Harsh punishment is not the right tool for eradicating the phenomenon of declaring Muslims as unbelievers (Takfir)
When incitement to violence becomes a staunch media campaign, managed from abroad and being persistent on people’s minds night and day. When this incitement is backed up by aberrantFatwasthat confer religious legitimacy on burning, sabotaging and violating the sanctity of money and honour and portray the inter-fighting between sons of the same country as Jihad in the name of Allah. When arbitrariness increases in order to arrest innocent people, unsubstantiated accusations are leveled randomly on those who have nothing to do with anything and the most basic human rights of those detained are violated. When the blood of dozens is spilled recklessly, what will prevent a teenager or even a youth in his twenties from dipping himself into the quagmire of declaring Muslims as unbelievers (Takfir)?

It isn’t a prerequisite that the victim ofa Takfirithought be brought up in an intellectually distorted environment or a socially poor milieu. Rather, it suffices that all the previous factors accompanied with utter ignorance of the foundations of proper Islamic belief are to create, from a pampered or poor youth or the university student or the illiterate young man, a living substance pulsating with fanaticism and extremism wherever it goes.

Punishing the aggressor is an Islamic jurisprudential duty and a logical necessity in order to rid a society of its scourges and evils. But he, who thinks that the harsh punishment is a tool for getting rid of the phenomenon ofTakfir and subsequently being relieved of terrorism, is delusional.

Dozens of political science professors, strategic experts, and an army of media persons, journalists, and analysts all make the same mistake of addressing symptoms while ignoring the incurable disease itself. When they speak abouttakfir, their talk is confined to the security framework without refuting or invalidating the arguments of those who declare Muslims as unbelievers. Until when shall we continue to revolve in this vicious cycle?

Iftakfiris launched from an intellectual incubator that claims it is committed to the texts of the Holy Qur’an and theSunnah(the teachings and normative example of the Prophet), then intellectual confrontation should come from scholars and credible authorities within Islam. Let this confrontation be held in our mosques, forums, satellite channels, and even on billboards and posters.

We can start this discussion withSharia law(Islamic jurisprudence) scholars, Islamic studies students, and brilliant preachers. These respected authorities within Islam should participate in wide-scale campaigns sponsored by Al-Azhar, charity organizations, developmental institutions and moderate-thinking Islamic action to confront the outbreak of the cancer oftakfiramong the youth of our nation, equipped with theShariasciences necessary to eradicate the disease and treat its after-effects.

When theKharijitesgroup emerged during the rule of the Caliph Ali ibn Abi Talib, quoting texts from the Holy Qur’an in order to support their false faith, projecting it out of context due to ignorance and arrogance, he sent to them the renowned Islamic jurist Abdullah ibn Abbas to argue with them. He was able to return with half of them repentant and penitent. The argument was held clear on those who remained before the sword fell on their neck.Shall we repeat this act now, for maybe we will gain one tenth of them repentant and penitent?

http://english.ahram.org.eg/News/97459.aspx

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.