Kafir Kafir, Salman Tasir Kafir

Related articles:

Mullah’s campaign against Aasia bibi is a blasphemy to Islam – by Rauf Klasra

Extremist Barelvis vomit hate and violence


خدا کا خوف کرو
سویرے سویرے …نذیرناجی

بحث قانون اور اس کے نفاذ پر ہو رہی ہے اور سیاسی مولوی درمیان میں شریعت کو لے آئے اور پھر اپنے سیاسی سرپرستوں کی خوشنودی کے لئے حسب معمول شرعی معاملہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

عمران خان نے بالکل درست کہا کہ سیکشن 295 سی پی پی سی پر نظرثانی کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لئے علمائے کرام‘ دینی سکالرز اور سیاسی جماعتوں کو باہمی مشاورت سے اس شق کی تبدیلی پر اتفاق رائے کرنا چاہیے۔ کیونکہ اسلامی احتساب کے اصولوں کے مطابق‘ قانون مسلمانوں اور غیرمسلموں کے لئے برابر ہے۔

گورنر سلمان تاثیر‘ صوبے کے آئینی سربراہ کی حیثیت سے سزا پانے والی عیسائی خاتون کے معاملے میں محض انسانی ذمہ داریوں کے تحت دلچسپی لے رہے ہیں۔

آسیہ بی بی کو ایک ماتحت عدالت نے سزا سنائی تھی۔ قانون کے مطابق ابھی اسے اعلیٰ عدالتوں اور شرعی عدالت کی طرف رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔صدر مملکت کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر وہ پورے معاملے کا جائزہ لینے کے بعد‘ اس نتیجے پر پہنچیں کہ آسیہ پر قائم کردہ مقدمہ قانونی اور شرعی بنیادوں پر درست نہیں تھا اور شہادتیں غلط تھیں‘ تو اس سزا پر وہ نظرثانی کر سکتے ہیں اور اگر قانون اور شریعت کے تحت وہ معافی کی حق دار ہے‘ تو وہ اس کا حکم بھی دے سکتے ہیں۔

گورنر سلمان تاثیر کا گناہ صرف یہ ہے کہ انہیں جب ناانصافی کی اطلاع ملی‘ تو وہ مذکورہ خاتون کے پاس چلے گئے۔ وہ اس قدر غریب‘ نادار اور بے بس ہے کہ اس کے پاس کسی اعلیٰ عدالت میں جانے کے نہ وسائل ہیں اور نہ ہی ذرائع۔ ذرائع سے مراد وکلاء کی خدمات حاصل کرنے کی استطاعت اور پیروی کرنے کے قابل اہل خاندان ہیں۔ یہ صرف گورنر ہی نہیں صوبے کے ہر صاحب حیثیت اور صاحب ایمان شخص کا یہ فرض ہے کہ وہ کسی بھی مسلم یا غیر مسلم شہری کی بے بسی کی صورت میں‘ اس کی مدد کے لئے آگے بڑھے۔

آسیہ بی بی کے مقدمے کی سماعت نہ کسی اعلیٰ عدالت میں ہوئی اور نہ ہی شریعت کورٹ میں اس کا جائزہ لیا گیا‘ تو پھر اس کی سزا حتمی کیسے ہو گئی؟ جب قانون کے تحت اسے اپیلوں کا حق حاصل ہے‘ تو آخری اپیل پر فیصلہ آنے سے پہلے‘ اس کے گناہ اور بے گناہی کا یقین کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اور جب تک اس کا گناہ آخری عدالت تک ثابت نہیں ہو جاتا‘ اس سے اپیل کا حق کیونکر چھینا جا سکتا ہے؟ اور اپیلوں کے عمل میں‘ اگر گورنر پنجاب سلمان تاثیر اس کی مدد کے لئے سامنے آگئے ہیں‘ تو وہ خود کافر کیسے ہو گئے؟

سیاسی مولویوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے رسولﷺ کے نام پر تنگ نظری اور بے رحمی پر مبنی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟ ہمارے نبیﷺ تو اس خاتون کی مزاج پرسی کے لئے بھی جا پہنچے تھے‘ جو اکثر ان پر کوڑا پھینکا کرتی تھی اور جس روز وہ ایسا نہ کر سکی‘ تو سراپا عفو رحمتﷺاس کا حال پوچھنے پہنچ گئے کہ وہ بیمار یا کسی مصیبت میں نہ ہو۔ ایک ناخواندہ عیسائی عورت‘ جس نے ایک دوسرے مذہب کے تحت تربیت حاصل کی‘ اس پر اگر کوئی توہین رسالت کا الزام لگاتا ہے‘ تو اسے پوری احتیاط سے جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔ ان مقاصد‘ مفادات اور اغراض کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے‘ جن کے تحت الزام لگایا گیا۔ ایک ایسا جرم‘ جس کی سزا موت ہے‘ اس کے تحت لگے ہوئے الزامات کو تو کئی کئی بار جانچنا پرکھنا چاہیے۔

گورنر تاثیر نے اگر صدر مملکت سے رحم کی اپیل کی ہے‘ تو یہ محض اپیل ہے۔ صدر کے اپنے پاس ایسے ذرائع اور اختیارات موجود ہیں‘ جن کے تحت وہ خود انکوائری کا حکم دے سکتے ہیں اور اگر وہ اپنی تحقیقات کے مطابق اس پر مطمئن ہو جائیں کہ الزام غلط طور پر لگایا گیا اور ماتحت عدالت میں سزا دیتے وقت حقائق کو پوری طرح سے زیرغور نہیں لایا گیا اور الزام کے غلط ہونے کی وجوہ موجود ہیں‘ تو وہ سزا معاف کر سکتے ہیں۔ صدر کے اس اختیار سے استفادہ کرنے میں کسی سزا یافتہ کی مدد کرنا جرم کیسے ہو گیا؟

ایسا کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے۔ ایک دن انہیں بھی بارگاہ رب العزت میں حاضر ہونا ہے اور ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہ بھی وہاں موجود ہوں گے۔ انہیں بھی منہ دکھانا ہے۔ اگر آسیہ بے گناہ ہے‘ تو اسے اپیلوں کیلئے دستیاب سہولتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بچنے کی کوششیں کرنے کا حق حاصل ہے اور اگر وہ گناہگار ہے تو ملک میں دستیاب تمام قانونی راستے بند ہونے کے بعد‘ اس کی سزا واجب ہو جاتی ہے۔ مگر جب تک حتمی فیصلہ نہیں ہوتا‘ اس کی موت کے مطالبے کرنے والے خود اسلامی تعلیمات کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

اسلام کسی بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتارنے کی اجازت نہیں دیتا اور کسی مسلمان کو کافر کہنے والا‘ تو خود کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔

سلمان تاثیر ایک معروف علمی اور دینی شخصیت ڈاکٹر محمد دین تاثیر کے صاحبزادے ہیں۔ اپنے زمانے کے دستور کے مطابق ڈاکٹر تاثیردنیاوی ہی نہیں‘ دینی امور میں بھی عالم و فاضل تھے۔ مولانا عطااللہ شاہ بخاری سے ان کے گہرے دوستانہ تعلقات تھے۔ یہ دونوں اکثر علمی معاملات پر بحث و مباحثہ کیا کرتے۔ مولانا‘ ڈاکٹر تاثیر کے گھر بھی تشریف لایا کرتے اور سلمان تاثیر کی والدہ کو بیٹی کہہ کر بلاتے۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ سید عطا اللہ شہ بخاری جیسا عاشق رسول کسی ایسے شخص کا دوست بن سکتا ہے ‘ جس کے دل میں عشق رسول کسی سے کم ہو۔

تحریک آزادی کشمیر میں ڈاکٹر تاثیر نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور اس کی حمایت میں نظمیں بھی لکھی تھیں۔ یاد رہے یہ تحریک مجلس احرار نے چلائی تھی۔ ڈاکٹر تاثیر نے مولانا عطا اللہ شاہ بخاری کے لئے فارسی کے چار شعر لکھ کر ان کی نذر بھی کئے تھے۔

اس واقعے کا تذکرہ گزشتہ روز حامد میر نے بھی کیا کہ جب غازی علم دین شہید کو پھانسی دی گئی‘ تو ان کی میت لینے کے لئے جو چارپائی بھیجی گئی تھی‘ وہ ڈاکٹر تاثیر کے گھر سے گئی تھی۔ ایک ایسے خاندان کا فرزند‘ جس نے مسلمانوں کے لئے ہی نہیں‘ اسلام کے لئے بھی سرگرم خدمات انجام دی ہوں‘ اس میں پروان چڑھنے والا کوئی انسان‘ دین سے اتنا بیگانہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کہ اس پر کفر کے فتوے لگائے جانے لگیں۔

جو مولوی حضرات دینی حمیت کے تحت احتجاجی بیانات دے رہے ہیں‘ انہیں تو مناسب تحقیق کے بعد ایسا کرنا چاہیے لیکن جو افسروں کے کہنے پر مظاہروں کے انتظامات کر رہے ہیں‘ ان کے لئے مناسب ہے کہ وہ خدا کا خوف کریں۔ انہوں نے اپنی جو شناخت بنا رکھی ہے‘ اس کی نسبت اسلام سے ہے اور اسلام ایسا دین نہیں‘ جس کے سودے سرکاری ملازموں کے ساتھ کئے جائیں۔

سزا یافتہ خاتون آسیہ کا تعلق ایک اقلیتی جماعت سے ہے۔ مسلمانوں کے ملک میں اقلیتوں کو خصوصی حقوق حاصل ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ کریں۔ اگر آسیہ نے جرم کیا ہے‘ تو اسے یقینا سزا ملنا چاہیے۔ لیکن قانون اور شریعت دونوں کے تقاضے پورے کرنے کے بعد۔ یہ تقاضے ابھی تک پورے نہیں ہوئے۔ آسیہ کو اعلیٰ آئینی عدالتوں اور شریعت کورٹ میں اپنا مقدمہ لے جانے کا حق حاصل ہے اور جب تک نظام انصاف کی آخری حدیں ختم نہیں ہو جاتیں‘ اس کی حفاظت مسلمانوں اور حکومت دونوں کا فرض ہے اور اگر سیاسی مقاصد کے تحت احتجاجی مظاہرے کرنے والوں کے نعروں سے متاثر ہو کر‘ کسی نے آسیہ کو قتل کر دیا‘ تو یہ صریحاً قتل کا جرم ہو گا اور اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہوں گے‘ جو نفرت کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔

Source: Jang, 28 Nov 2010

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Sarah Khan
    -
  3. RimJhim
    -