کب تک ہم دنیا کی اقوام کے دلوں میں اپنے لیے نفرت ڈالتے رہیں گے؟ – از مسلم یونٹی

index

 ستمبر 1970 کا واقعہ ہے، اردن میں اردن کا بادشاہ اسرائیلی ایما پر فلسطینی پناہ گزینوں کے خلاف آپریشن کرنا چاہتا تھا جبکہ اسکی فوج اپنے ہم مذہب اور رشتہ داروں کو کچلنے سے کترا رہی تھی، ہمارے بہادر جنرل ضیاء الحق اسوقت بریگیڈیئر تھے اور اقوام متحدہ کی امن فوج میں تعینات تھے، آپ نے فورا اس کام کیلئے خدمات فراہم کر دیں اور نہتے فلسطینیوں کو اس طرح کچلا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بھی بول اٹھا کہ اتنے فلسطینی تو ہم نے نہیں مارے جتنے ضیاء الحق نے مارے، یہ ہستی بعد میں مرد مومن مرد حق اور “شہید” کہلائی اور فلسطینی آج بھی اپنے بچوں کو بلیک ستمبر کے پاکستانی مظالم کی داستانیں سناتے ہیں

افغانستان میں امریکا نے روس کیلئے ویسا ہی پھندہ لگایا جیسا اس نے امریکا کیلئے ویتنام میں لگایا تھا روس اس میں کود گیا اور ہم امریکی ہتھیاروں کیلئے سپلائی لائن بن گئے روس کے اندر بھی امریکا بہادر کام کر رہا تھا اور ادھر جنگ میں اسکا نقصان ہو رہا تھا، نتیجے میں وہ ٹوٹ گیا اور افغانستان میں عوام کو حکومت بنانے کا موقع مل گیا ہماری ریاست نے سوچا کہ وہاں کے عوام کی حکومت کے بجاۓ ہماری کٹھ پتلی حکومت آنی چاہئیے

ہم نے شرکت اقتدار کے ہر فارمولے کو ناکام بنایا اور بالآخر بے نظیر کے دوسرے دور حکومت میں ’’جنرل نصیر اﷲ بابر‘‘ نے افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے مدارس اور فوجی چھائونیوں کے اشتراک و تعاون سے ’’طالبان‘‘ کو میدان میں اتارا. یہ ’’طالبان‘‘ ٹینک چلاتے تھے، ہیلی کاپٹر اڑاتے تھے، اسٹنگر میزائل فائر کرتے تھے. جماعت اسلامی کے گلبدین حکمت یار کو یہ بات سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ ’’کون معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں ‘‘ انہوں نے بے بسی کا اظہار کیا کہ ’’میں پاکستانی فوج پر ہتھیار نہیں اٹھا سکتا۔‘‘

نہ صرف حکمت یار کو غیر مؤثر کرنا مقصود تھا، بلکہ تمام افغان قیادت بشمول ربّانی، سیاف، مسعود کو اس یلغار میں ‘پار’ کرنا مطلوب تھا۔ حکمت یار صاحب کی دور اندیشی کام آئی اور مطلوبہ نتائج حاصل نہ ھوئے۔ گلبدین حکمت یار نے کابل خالی کردیا.

طالبان کابل پر قابض ہوگئے، وارلارڈز کی لڑائیاں ختم ہوگئیں، “امن” قائم ہوگیا یہ “امن” بے شک طالبان کے کھاتے میں لکھا گیا لیکن اس کے ذمہ دار وہی تھے جو بدامنی کے ذمہ دار تھے.جو افغانستان کی تزویرانی گہرائی میں اپنے بے دام غلاموں کے ذریعے حکمرانی کرنے کے خواہش مند تھے

اگر افغانستان میں عسکری مداخلت کے بجاۓ دفتر خارجہ کی مدد سے عوام سے رشتہ مضبوط کیا جاتا اور افغانستان کے عوام کے حق خود ارادیت کا احترم کیا جاتا تو آج وہاں کی عوام میں اتنے زیادہ دشمن پیدا نہ ہو چکے ہوتے جتنے کہ اب ہیں

اگرچہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے مگر ہماری فوج نے آج تک جتنی بھی کاروائیاں کی ہیں ان کے نتیجے میں کشمیری عوام میں پاکستانیوں سے نفرت میں اضافہ ہی ہوا ہے .ہم تین سال سے بحرین کی پولیس میں بحرینی عوام کی جگہ پاکستانی کالعدم دیوبندی تنظیموں کے افراد کو بھرتی کیلئے پیش کر رہے ہیں جو اپنی جہالت اور تعصب کے اظہار کے ذریعے پاکستان کو قابل نفرت بنا رہے ہیں

 شام میں تین سال سے اردن کے راستے پاکستانی دیوبندی دہشتگرد داخل ہو رہے ہیں، ہزار سے زیادہ کی موت ہو چکی ہے، آئ ایس آئ کی ناک کے نیچے آزادی سے سوشل میڈیا پر بھرتی کی جا رہی ہے اور اب شام میں اسلحہ بیچ کر ڈالر کمانے کا ارادہ ہے . کب تک ہم دنیا کی اقوام کے دلوں میں اپنے لیے نفرت ڈالتے رہیں گے؟ اس سیاسی خودکشی کیلئے کونسا عقلی، انسانی یا اخلاقی جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟

Comments

comments