لرزتی ریاست کا فوجی آپریشن – از لال خان
دہشت گردی اورمذہبی انتہا پسندی کے مسئلے کو جس طرح مذاکرات اور فوجی آپریشن کی بھول بھلیوں تک محدود کردیا گیا ہے اس سے کوئی راستہ نکلنے والا نہیں ہے۔ مذاکرات کا ڈرامہ سب کے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے۔ اب آپریشن کی قسط ریلیز کی جارہی ہے۔
فلم میں رومانس اور کامیڈی کے ساتھ ساتھ ایکشن اور تھرل بھی ضروری ہوتا ہے۔ تاہم’ آپریشن آپریشن‘ کی رٹ لگانے والے لبرل دانشوروں کی تسلی بھی جلد ہی ہوجائے گی۔ یہ پیچیدہ بیماری ریاست کے کئی اعضاء کو مفلوج کرچکی ہے لہٰذا میر کے بقول عطار کے لونڈے کی دوا سے شفایابی ممکن نہیں ہے۔ معاملہ صرف مذہبی بنیاد پرستی اور ’’روشن خیالی‘‘ کے تضاد کا نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سے معاشی، اقتصادی، داخلی اور خارجی عناصر ملوث ہیں۔ مسئلے کو حل کرنا تو درکنار موجودہ حکمران اسے سمجھنے سے بھی خوفزدہ ہیں۔
جو ریاست سر عام طالبان کی حمایت اور طالبانی ذہنیت کی تبلیغ کرنے والوں کا منہ بند نہیں کرسکتی وہ طالبان کا خاتمہ کیا کرے گی؟ لال مسجد کے برقعہ پوش مولوی کو گمنامی سے نکال کر کس نے الیکٹرانک میڈیا پر براجمان کروایا ہے؟ منور حسن کس کی ایما پر مذہبی جنونیوں کی حمایت میں آخری حد تک جارہا ہے؟ ملا ریڈیوسوات آپریشن کے دوران فوج کے گھیرے میں سے کیسے فرار ہوگیا تھا؟ ’’گرفتاری‘‘ کے بعد اس کے سسر صوفی محمد کا کیا بنا؟
ہر کچھ عرصے بعد نام بدل کر رنگ برنگ کی کانفرنسیں کرنے والی ’’کالعدم‘‘ تنظیموں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جاتا؟ آج تک کتنے دہشت گردوں کو عدالتوں نے سزا سنائی ہے؟ جس ریاست کے کئی حصے مذہبی جنونیوں کو عزیز جانتے ہوں، جس حکومت کا ہر نمائندہ دوسرے سے متضاد بیان دے رہا ہو اس سے کیا اتنے اعتماد، یکسوئی اور ڈسپلن کی امید کی جاسکتی ہے کہ اپنے ’’اسٹریٹجک اثاثوں‘‘ کو خود کچل سکے؟ یہ کیسا آپریشن ہے جس کا ڈھنڈورا کئی ہفتوں، بلکہ مہینوں پہلے ہی پیٹا جارہا تھا؟
پاکستان کی تاریخ میں ریاست آج جتنے بیرونی اور اندرونی تضادات اور تصادموں کا شکار ہے پہلے شاید کبھی بھی نہ تھی۔ کراچی سے لیکر پشتونخواہ اور فاٹا سے لے کر بلوچستان تک، فوج پہلے کبھی اتنے اندرونی محاذوں پر تعینات نہیں ہوئی تھی۔ ریاستی اداروں کے مختلف فیکشنز کے مابین ایک مسلسل تناؤ، جو بعض اوقات پرتشدد تصادم کی شکل اختیار کرلیتا ہے، زیادہ پوشیدہ نہیں رہ گیا۔ یہ درست ہے کہ معاشی اور سماجی بحران ریاست میں دراڑیں ڈالتا ہے لیکن پھر اس کے بر عکس ریاستی اور سیاسی خلفشار واپس معاشی بحران کو مزید بھڑکا دیتاہے اور اسکی رفتار میں تیز ی آجاتی ہے۔
درحقیقت ’’آزادی ‘‘ کے فوراً بعد ہی پاکستانی حکمران طبقات اور خصوصاً فوجی اشرافیہ کی سامراجی یا نیم سامراجی پالیسیوں کا آغاز ہوگیا تھا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ معاشی اور تکنیکی طور پر مضبوط ریاستیں ہی سامراجی عزائم رکھتی ہوں۔ ماضی میں ہمیں بڑے رقبے اور فوج رکھنے والی کئی پسماندہ ریاستیں سامراجی پالیسیوں پر گامزن نظر آتی ہیں۔ تمام تر معاشی پسماندگی کے باجود 19ویں اور 20ویں صدی کے آغاز میں زار روس کی خارجہ پالیسی خالصتاً سامراجی تھی۔
افغانستان میں روسی اور برطانوی سامراجوں کے درمیان چپقلش یا ’’گریٹ گیم‘‘ اسی پالیسی کا شاخسانہ تھی۔ اسی طرح سامراجی غلامی کا شکار رہنے والا ایک سابقہ نوآبادیاتی ملک بھی سامراجی عزائم رکھ سکتا ہے۔ گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران مسلسل معاشی تنزلی اور داخلی خلفشار کا شکار رہنے والی پاکستانی ریاست کے سامراجی عزائم کشمیر سے لے کر بلوچستان اور افغانستان تک واضح نظر آتے ہیں۔ جوں جوں فوجی اشرافیہ کی طاقت بڑھتی گئی توں توں ان کے یہ عزائم بھی بڑھتے گئے۔ اس پالیسی کو زیادہ تقویت سردجنگ کے عہد میں امریکی سامراج کی پشت پناہی سے ملی۔
افغانستان میں 1978ء کے ثور انقلاب کے بعد امریکہ کو پاکستانی ریاست کی مدد کہیں زیادہ درکا ر تھی۔ اس صورتحال میں جہاں امریکہ نے پاکستانی ریاست کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی وہاں پاکستان کے جرنیلوں اور حکمران طبقات نے اپنے سامراجی عزائم کو بڑھانے کے لیے موقع کا فائدہ اٹھایا۔ اس مقصدکے لیے ضیا آمریت نے اسلامی بنیاد پرستی کا سہارا لیا۔ پاکستان میں اسلامی بنیاد پرستی کا ابھار اسی پالیسی کا نتیجہ تھا۔
اس کے علاوہ ضیا الحق نے داخلی تحریکوں کو کچلنے کے لئے بھی اس مذہبی جنونیت کو ریاست کا بنیادی نظریاتی آلہ بنا کر بھرپور استعمال کیا تھا۔ افغانستان کے بارے میں پاکستانی ریاست کی’’سٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘ کی پالیسی ٹھوس اور واضح انداز میں اسی عہد میں سامنے آئی۔ افغانستان میں رجعتی جنونیت پر مبنی ردانقلابی خانہ جنگی پرپاکستانی اسٹیبلشیمنٹ نے اپنی مہارت بہت مہنگے داموں بیچی۔ امریکہ سے ملنے والے اربوں ڈالروں نے اس ریاست کے سامراجی عزائم کو اور بھی مضبوط کر دیا۔
ضیاالحق نے 1986ء میں امریکی دانشور سلگ ہریسن (Selig Harrison) کو ایک انٹرویو میں اپنی ’’اسلامی ‘‘ سامراجی عزائم اور سٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کو کھل کر بیان کر ڈالا۔ ’’ہم نے کابل میں طاقت حاصل کرنے کا حق کمایا ہے۔ ہم نے اس لڑائی کے ہراول ملک ہونے کے ناطے بہت سے خطرات مول لئے ہیں۔ اب جنگ سے پہلے والی صورتحال کو واپس لوٹنے کی اجازت نہیں دے سکتے جس میں بھارتی اور سوویت تسلط افغانستان اور ہمارے علاقوں (پشتونخواہ) پر بھی غالب رہے۔ یہ نئی طاقت حقیقی طور پر اسلامی ہوگی، اس اسلامی مزاحمت کو تم لوگ ایک دن سوویت مسلمانوں تک پھیلتا دیکھو گے۔ ‘‘ضیا الحق تو 17اگست 1988ء کو جہاز کے کریش میں ہلاک کیا گیا لیکن اس خطے کے عوام کے لیے اپنی خواب کی تعبیر مسلسل خونریزی اور قتل و غارت گری کی شکل میں چھوڑ گیا۔
سٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی آج بھی جاری ہے اور ریاستی پالیسیاں اسی ذہنیت کے تحت متعین کی جارہی ہیں۔ لیکن بڑی بڑی سامراجی ریاستیں بھی جارحیت کی بنیاد پر حد سے پھیلاؤ کی وجہ سے اندر سے ٹوٹ جاتی ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان جیسی کمزور اور کنگال ریاست کے داخلی بحران اور انتشار کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ خستہ حالی اور انتشار میں ریاست کوئی شفیق اور انسان دوست ادارہ نہیں بن جایا کرتی بلکہ ایک زخمی ناگن کی طرح زیادہ زہریلی اور درندہ صفت ہو جاتی ہے۔
افغان ڈالر جہاد کے لئے آنے والے اربوں ڈالر منشیات اور دوسرے جرائم پر مبنی کاروباروں پر انوسٹ کئے گئے تھے۔ اسی کالے دھن پرمذہبی جنونیوں کے وحشی گروہوں کو پالا گیا۔ ان دہشت گردوں کو جہاں پاکستانی ریاست نے استعمال کیا وہاں ان میں سے ہی کئی ایک اپنے مالی مفادات کے پیش نظر ریاست کے دشمن بن گئے۔ یہی کچھ سی آئی اے اور امریکی سامراج کے ساتھ ہوا تھا اور ہو رہا ہے۔
کالے دھن کا زہر ریاست میں سرائیت کر کے اسے اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے اور فوجی و سویلین بیوروکریسی کے مختلف دھڑے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوجاتے ہیں۔ جس ملک کی 73فیصد معیشت کالے دھن پر مبنی ہو وہاں بھلا قواعد وضوابط کو کیسے ملحوظ خاطر رکھا جاسکتا ہے؟
افغانستان کا مسئلہ موجودہ نظام میں جلد یا بدیر حل ہونے والا نہیں ہے۔ امریکی سامراج اور مقامی حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کا اتحاد اور ٹکراؤیہاں آگ اور خون کی ہولی جاری رکھے گا۔ اسی طرح ہندوستان، چین، روس، ایران، سعودی عرب اور دوسری علاقائی طاقتوں کی مداخلت بڑھے گی اور اس آگ کو مزید بھڑکائے گی جس کے شعلے پاکستان کو پہلے ہی اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔
بہت سی دوسری اندرونی تقسیموں کے ساتھ ساتھ مختلف سامراجی طاقتوں کے مفادات کے تحت بھی ریاست میں دھڑے بندی اور تصادم کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح افغان پالیسی پرفوج اور موجودہ حکومت کے درمیان ابھرنے والے تضادات پھٹ کر کسی بڑی سیاسی اورریاستی تبدیلی یا بحران کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
جہاں نواز لیگ کی حکومت، فوج اور ریاستی بیوروکریسی کے آپسی تعلقات نازک اور متزلزل ہیں وہاں دوسری سیاسی جماعتیں بھی داخلی تضادات اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔ اس سیاست میں ہر کوئی دوسرے کا دشمن ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا سہارا لینے پر بھی مجبور ہے۔ ریاست اور طالبان کا رشتہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ بڑے سے بڑا ریاستی آپریشن بھی طالبان کے تمام گروہوں کو ختم نہیں کرسکتا۔
’’زیادہ تنگ کرنے والے‘‘ گروہوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جائے گی لیکن ’’اچھے‘‘ اور ’’برے‘‘ طالبان کی تفریق کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ ’’اچھے‘‘ طالبان ’’برے‘‘ اور ’’برے‘‘ والے ’’اچھے‘‘ بھی بنتے رہتے ہیں کیونکہ وفاداریاں بدلنا ان دہشت گرد گروہوں کی خصلت میں شامل ہے۔
جب تک اس خونی کھلواڑ کی معاشی بنیادوں کا خاتمہ نہیں کیا جاتا یہ سلسلہ کبھی کم، کبھی زیادہ شدت کے ساتھ جاری رہے گا۔ لیکن اگر کالے دھن کی معیشت ختم ہوتی ہے تو پاکستان کی سرکاری معیشت بھی دھڑام سے نیچے آگرے گی۔
جرائم پر مبنی یہ کالی معیشت بحران اور تنزلی کے شکار سرمایہ دارانہ نظام کی ہی مسخ شدہ شکل ہے۔ جب تک یہ متروک سماجی، معاشی اور سیاسی نظام قائم ہے آگ اور خون کی یہ منافع بخش ہولی کھیلی جاتی رہے گی۔ عوام جلتے رہیں گے۔ ’’مذاکرات ‘‘ اور ’’آپریشن‘‘ کے ناٹک رچائے جاتے رہیں گے
Source :
http://www.struggle.com.pk/army-operation-against-taliban/