نواز شریف حکومت دیوبندی طالبان خوارج سے مذاکرات کر کے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟ علامہ جواد نقوی کا تجزیہ

jn

معروف شیعہ دانشور اور عالم دین جواد نقوی نے جامعہ العروۃالوثقیٰ میں حالاتِ حاضرہ پہ تبصرہ کر تے ہوے کہا کہ طالبان سے ہونے والے حالیہ مذاکرات کے پس پردہ کچھ اہداف ہیں جن کی تکمیل کے لئے اس وقت مذاکرات کا موضوع چھیڑا ہواہے۔ حالات مسلسل اور ہر لمحہ ڈرامائی صورت اختیار کر جاتے ہیں اور میڈیا والے ہر خبر کو سنسنی خیز بناکر پیش کرتے ہیں۔

جواد نقوی نے کہا کہ مذاکرات میں پہلا ہدف طالبان میں چھانٹی کرنا ہے ۔ یعنی وہ گروپس جو ابھی ان کے کنٹرول میں نہیں ہیں ،ابھی ان کے وفادار نہیں ہیں یا جو اِن سے زیادہ کی ڈیمانڈ کرتے ہیں ، اُن کو ہٹاکر اُنکی جگہ وفادار افراد لانا ہے ، مثلاً حکیم اللہ محسود کو مار دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ پر فضل اللہ کو راہنما بنا دیتے ہیں۔ اب فضل اللہ اگر آجائے جیسا یہ اُس کو راہِ راست سکھاتے ہیں تو یہ متفقہ طور پر طالبان کمانڈر رہے گا ، اگر یہ نہیں مانتا ہے تو ایک اور ڈرون حملے میں یہ بھی ہلاک ہوجائے گا اور اس کی جگہ پر ایک نیا کمانڈر آجائے گا۔ یہ عمل اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک اِن کو اطمینان نہ ہوجائے کہ یہ موجودہ طالبان سیٹ اپ ان کے کنڑول میں ہے اور اُن کا وفادار ہے اور اب ان کے اندر کوئی بغاوت کا امکان نہیں ہے ۔

مذاکرات کا ایشو اس لئے چھیڑا ہے کہ اب پینسٹھ گروپس بن گئے ہیں ، پینسٹھ تو انھوں نے نام لیا ہے ورنہ اس سے زیادہ گروپس ہیں۔ ظاہر ہے کہ مذاکرات کی جب بات ہوتی ہے تو طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نام سنتے ہیں کئی گروپس کو شوق چڑھا کہ ہمیں بھی مذاکرات میں بٹھائیں چونکہ مذاکرات میں بیٹھنے سے سیاسی اور مالی بہت سارے فوائد ہیں۔ مذاکرات میں جس کو بٹھایا جاتا ہے اس کو ایک رسمی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے ، وہ ایک مانا لیڈر یا رقیب طے ہوجاتا ہے ، یعنی اس کو بٹھاکر بات کر رہے ہیں تو ا سکا مطلب ہے کہ اس کو مان لیا ہے ۔ لہٰذا طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے ٹیم بنائی گئی ۔ جو ٹیم بنائی گئی اُن میں سے کوئی طالبان شامل نہیں ہے جو طالبان ہیں، طالبان کی ٹیم اور حکومتی ٹیم میں ایک ہی ٹیم دو حصوں میں بنا دی گئی ہے ۔مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ طالبان کے مختلف گروپس اب سامنے آجائیں گے ، اب اُن سے شرائط طے ہوں گی کہ ہماری بات مانتے ہو یا نہیں مانتے؟ اگر مانتے ہو تو ہمیں آپ کو اگلے مرحلے کے مذاکرات میں بٹھائیں گے اگر نہیں مانتے ہو تو آپ ختم ہوجاؤ گے۔

دوسرا ہدف طالبان کی بکھری ہوئی طاقت کو سمیٹنا اور انتشار سے بچانا ہے چونکہ ان پر بڑا محنت کیا گیا ہے ، ان پر بہت پیسہ لگا ہے۔ آسانی سے یہ گروپس نہیں بنے ہیں ۔ یہ لشکر ، جہادی گروپس اور طالبان آسانی سے نہیں بنے ہیں ، ان پر بیت المال کا پیسہ ، وقت اور مال و ثروت کئی ملکوں نے لگایا ہے ۔ لہٰذا ان کے لئے یہ قیمتی ہیں ۔ عوام کی نگاہ میں طالبان بھیڑیے، خون خوار اور درندے ہیں لیکن جنھوں نے بنایا ہے اُن کی نگاہوں میں یہ دنیا کی سپر طاقت اور فوج ہے اور جس کو کسی بھی میدان میں استعمال کر کے اپنے لئے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کو سمیٹنا اور جمع کرنا ان کا دوسرا ہدف ہے ۔ یعنی ایک چھانٹی کرنا اور دوسرا یہ کہ ان کے بکھرے دھڑوں کو دوبارہ جمع کرنا ہے ۔

تیسرا ہدف یہ ہے کہ طالبان کو دنیا کے لئے ایک مستقل خطرے کے طور پر باقی رکھنا ہے ، یہ سوچتے ہیں کہ ان کے ذریعے سے ہم دنیا پر ایک دباؤ برقرار رکھ سکتے ہیں ، یعنی انھیں یہ ڈنڈے کے طور پر باقی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اندورنی و بیرونی حالات کو اپنے قابوں میں رکھیں اور جہاں بھی ضرورت پڑ جائے وہاں پر ان کو استعمال کیا جا سکے۔ مثلاً ایران کو اگر ڈرانا ہو تو ایران کی طرف بھیج دو، شیعہ کوسبق سکھانا مقصود ہو تو شیعہ کے پیچھے لگا دو۔ پس انھیں ایک مستقل خطرے کے طور پر باقی رکھنا چاہتے ہیں۔جنگوں میں قوتِ خطر بڑی چیز ہوتی ہے لہٰذا یہ قوتِ خطر کے طور پرباقی رکھنا چاہتے ہیں ۔ طالبان نے اس وقت ایک دوسرے کے گلے کاٹنا شروع کیا ہے اس کو روکا جائے اور ایک مرکزیت قائم کی جائے اور انھیں ایک مستقل خطر کے طور پر قائم رکھا جائے۔

چوتھا اور اہم ترین ہدف عالمی تکفیری فورس کی تیاری ہے ۔ اس وقت دنیا میں بند بن سلطان کی رہنمائی میں ایک عالمی تکفیری فوج تیار ہو رہی ہے ، یعنی انھوں نے اگلا قدم اٹھایا ہے ، پہلے انھوں نے اس کیلئے علاقائی یونٹ بنائے ، مثلاً تکفیری فوج کا ایک لشکر پاکستان میں، دوسرا سعودیہ میں، تیسرا لیبیاء میں ، چوتھا تیونس اور پانچواں مصر میں بنا ۔ یہ اپنے اپنے علاقوں کے لئے مؤثر ہیں لیکن عالمی حالات پر اثر انداز ہونے کیلئے یہ لشکر اتنے کارآمد نہیں ہیں ۔ لہٰذا انھوں نے ایک عالمی تکفیری فوج تشکیل دینا شروع کیا ہے جس میں پوری دنیا سے ان کو جمع کیا جا رہا ہے ۔ یعنی پہلے ان کو لوکل یونٹس تیار ہوں پھر ابتدائی مراحل طے کر کے آگے جائیں تو عالمی تکفیری فوج بند بن سلطان کی فوج میں داخل ہوجائے ۔ ایک تکفیری دیوبندی و سلفی فوج سعودی شہزادہ بندر بن سلطان کے زیر اثر تشکیل دی جا رہی ہے انکے لوگ اسکے لوکل یونٹ ہوں اور بعد میں یہ بندر بن سلطان کی فوج میں شامل ہوجائیں

انھوں نے مذاکرات کے درمیان ہی اتنا بہیمانہ عمل انجام دیا ہے کہ ۲۳ ایف سی اہل کاروں کو بے دردی سے قتل کر دیا۔

ان مذاکرات کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ مذہبی و غیر مذہبی افراد کی نظر میں قانون و آئین اور نہ ہی شریعی جواز نہیں نکلتا ان مذاکرات کا۔ ایک ایسے طبقے کےساتھ بیٹھ کر مذاکرات کئے جائیں جو انسانیت کے زمرے سے باہر ہیں۔

لیکن جیسا بارہا کہا گیا ہے کہ مکرو مکرا اللہ واللہ خیرالماکرین۔ یعنی جو یہ مکر کرہے ہیں اللہ انکو انہی کے مکر میں غرق کردے گا۔ جو منصوبے یہ بناتے ہیں راہ خدا کے مقابلےمیں خدا انہی کے بنائے ہوئے منصوبے میں ان کو غرق کردیتا ہے۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Ahad
    -
  2. Labt
    -
  3. umar maaviya
    -
  4. Abul Hasan Mashadi
    -
    • truth
      -
  5. karrar
    -
  6. Shabbir
    -
  7. Shia Muslim
    -