خلافت راشدہ کے زوال کے اسباب – از مسلم یونٹی
خلافت راشدہ کا زوال ایک حساس ترین موضوع ہے کیوں کہ خود اس زوال کی بڑی وجہ اس زمانے کے سیاسی حالات کو عقیدتوں اور شخصیتوں کے ساتھ وابستگی کی عینک سے دیکھنا ہے_کچھ لوگ اتنے مستحکم نظام کے صحابہ(رض) کی موجودگی میں ٹوٹ کر بکھرنے اور امت مسلمہ کے ملوکیت کی اندھیروں میں گم ہونے کو ایک نو مسلم، عبد الله ابن سبا کے ذمے لگا کر تجاہل عارفانہ برتتے ہیں،
گویا ایک شخص آیا اور اس نے سب صحابہ(رض) کو بیوقوف بنا لیا، اور وہ سب کچھ ہوتا دیکھتے رہے مگر رسول الله(ص) کی اہم ترین امانت، یعنی اسلامی ریاست کو بچانے کیلئے میدان عمل میں نہ آۓ، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، صحابہ(رض) نے نہ صرف یہ کہ خلافت کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھانے والے بے رحم سرمایا پرستوں کو پہچانا، بلکہ اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے_ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں وہ بیوقوف نہیں ہوتے، انھیں تقویٰ کی بدولت بصیرت اور سوجھ بوجھ حاصل ہوتی ہے_
حضرت علی (کرم الله وجہہ)، رسول اللہ (ص) کی رحلت کے 25 سال بعد اسلامی دنیا کے حکمران بنے اور آخری بااختیار خلیفہ راشد ثابت ہوۓ_ آپ سیاسی امامت کو اپنی دینی امامت کا جزو سمجھتے تھے لیکن اس کے حصول کیلۓ آپ نے اپنے سیاسی موقف کے اظہار کے علاوہ کوئ اقدام نہ کیا_ حضرت عمر(رض) کے دور میں ہونے والی فتوحات سے حاصل ہونے والے مال غنیمت کی فضیلت کی بنیاد پر تقسیم نے دنیا طلبی کو رواج دیا جس کے نتیجے میں حضرت عثمان (رض) کے اموی گورنروں کی ذخیرہ اندوزی اور اقربا پروری عوام کو حضرت عثمان(رض) کے در پہ لے آئ_ اموی گورنروں کے خلاف احتجاج میں حضرت عائشہ (رض)، حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض)، حضرت سعد ابن ابی وقاص (رض)، حضرت ابوذر غفاری (رض)، حضرت عمار یاسر (رض)، حضرت محمد ابن ابو بکر (رض) اور مہاجرین و انصار شامل تھے_
اس دوران اصحاب رسول(ص) میں سے حضرت ابوذر غفاری(رض) کا مدینہ بدر ہوکر ربذہ کے صحرا میں جان دینا، حضرت عبداللہ ابن مسعود(رض) کی پسلیاں ٹوٹنا، حضرت نیاز (رض) کا قتل ایسے واقعات تھے جنہوں نے مسائل کو الجھا دیا_خلیفہ (رض) نے کوفہ کے سابق گورنر ولید کو شراب کے نشے میں فجر کی نماز چار رکعت پڑھانے پر سزا دی تھی اور معزول کیا تھا لیکن اس دفعہ مروان ابن حکم کی مکاریوں کی بدولت گورنرون کے استعفآ کا معاملہ طول پکڑ گیا اور حضرت عثمان (رض) کی شھادت نے حالات کی سنگینی میں اصافہ کر دیا_ یہ ایک غیر معمولی حادثہ تھا مگر نہ تو حضرت علی (کرم الله وجہہ) کو اسکی تحقیقات کرانے دی گئیں نہ انکے بعد کسی نے عدالت لگا کر گواہوں کے بیانات اور شریعت کے اصولوں کے مطابق قاتل کو سزا دی اور نہ اس سازش میں ملوث افراد بے نقاب کئے گۓ_
حضرت علی (کرم الله وجہہ) نے حکومت سنبھالتے ہی ان گورنروں کو معزول کرنے، لوٹ مار کا احتساب کرنے اور حضرت عثمان(رض) کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات کرانے کا اعلان کردیا_ شام کے گورنر حضرت معاویہ نے مرکز سے بغاوت کر دی اور ادھر معزول گورنروں نے حضرت عائشہ (رض) کو ساتھ لے کر بصرہ سے بغاوت کر دی_ شھادت حضرت عثمان(رض) کے سلسلے میں مشکوک ترین کردار کے حامل مروان ابن حکم نے جنگ جمل میں ناکامی دیکھ کر شام جا کر پناہ لی_
ماضی میں رسول اللہ(ص) کی رحلت کے بعد صحابہ کرام(رض) کے ایک گروہ نے مرکز کو زکواۃ دینے سے انکار کیا تھا تو حضرت ابو بکر(رض) نے ان “مانعین زکواۃ” کی طرف حضرت خالد بن ولید(رض) کی سربراہی میں لشکر بھیجا اور لوگوں میں کوئ الجھن پیدا نہ ہوئ مگر حضرت علی (کرم الله وجہہ) کے خلاف اٹھنے والی ان بغاوتوں میں با اثر شخصیات کی شرکت نے پہلے سے پریشان عوام کو متضاد چیزوں میں فرق کر سکنے کی فطری صلاحیت سے محروم کر دیا اور ادھر کچھ لوگوں نے ذاتی مفادات کیلۓ عوام میں شکوک و شبہات کو ہوا دنیا اور فرقہ بازی پھیلانا شروع کر دیا_
قرآن کریم میں آیا ہے: “اگر اھل ایمان میں جنگ شروع ہو جاۓ تو تم انکے مابین صلح کراؤ اور اگر ان میں سے کوئ سرکش ہو جاۓ تو اس سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ امر الہی کو تسلیم کرلے” (الحجرات آیہ ۹)_ حضرت علی (کرم الله وجہہ) نے غلط فہمی کی تشخیص اور درست راہ کی نشاندہی کرتے ہوۓ فرمایا: “حق کو شخصیتوں کے معیار پر نہیں بلکہ شخصیتوں کو حق کے معیار پر پرکھو!” اور کہا: “اللہ کا ہاتھ اتفاق و اتحاد رکھنےوالوں پر ہے، تفرقہ و انتشار سے باز آ جاؤ”_
آپ(کرام الله وجہہ) نے اپنے ساتھیوں سے کہا: “تمہارے اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان جنگ چھڑ چکی ہے_ ایسی جنگ سے صرف وہی نبرد آزما ہو سکتا ہے جو صبر اور بصیرت رکھتا ہو”_ آپ نے ہر جنگ میں پہل کرنے سے گریز کیا اور ہمیشہ نصیحت کرنے کو جنگ پر ترجیح دی__
ان دو غیر شرعی بغاوتوں کی کوکھ سے ایک اور بغاوت نے جنم لیا_ یہ خوارج کا گروہ تھا جو طالبان کی طرح دین کے جوھر اور اس کی کلی تصویر سے ناآشنا دیندار، اپنی نااہلی کے باوجود لوگوں کی سیاسی قیادت کے طالب فسادی اور خودشناسی کی بجاۓ خودپرستی میں مبتلا عبادت گزار تھے جنہوں نے اپنے آپ کو چھوڑ کر باقی تمام مسلمانوں کو کافر اور انکی جان اور مال کو اپنے لئے حلال قراد دیتے ہوۓ مرکز سے بغاوت کر دی_
جس انسان میں غیرت نہ ہو، اسے بھی غصہ آتا ہے مگر وہ حقیقی مسائل کا سامنا کرنے کی بجاۓ مظلوم لوگوں کو خودکش دھماکے میں اڑا دیتا ہے_ خوارج جب حق و باطل کی تشخیص نہ کر سکے تو قرآن کی واضح ہدایات کے باوجود پہلے سب کو ایک جیسا قرار دیا، پھر “کافر کافر سارے کافر” کا نعرہ اپنا لیا_
کچھ ایسے لمحات بھی آۓ جو گمراہی کی گھٹاؤں پر بجلی کی چمک ثابت ہوۓ_ اہم ترین یہ کہ جب ام المؤمنین (رض) کو بصرہ لے جا رہے تھے تو حواب نامی قصبے کے کتوں نے ان پر بھونکنا شروع کردیا_ حضرت عائشہ (رض) کو رسول اللہ (ص) کی حدیث یاد آئ کہ “ایسا نہ ہو کہ تم(رض) پر حواب کے کتے بھونکیں!”_ آپ (رض) نے گریہ کرنا شروع کردیا اور واپسی کا ارادہ کرلیا_
سرمایہ پرستوں نے جھوٹی گواہیئوں اور حیلہ گری سے انہیں دوبارہ بصرہ کا راہی بنا دیا_ آج بھی سرمایہ داری کی ماں نے ان (رض) کی غلطی سے فائدہ اٹھا کر ان (رض) پر بھونکنے والوں کو جنم دیا ہے_ دوسرا واقعہ یہ کہ جنگ جمل کے دوران حضرت زبیر (رض) کو یاد آیا کہ رسول اللہ (ص) نے انہیں خبر دی تھی کہ: “تم (رض) علی (کرم الله وجہہ) سے ناحق جنگ کرو گے” تو آپ (رض) نے میدان جنگ ترک کر دیا مگر ایک بدو نے آپ (رض) کو میدان جنگ سے باہر تنہا دیکھ کر قتل کر دیا_
تیسرا موقع جنگ صفین میں حضرت عمار یاسر (رض) کا قتل تھا جن کے بارے میں رسول اللہ (رض) کی یہ حدیث موجود تھی کہ “عمار (رض) کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا”_ شامی لشکر میں اپنے امرآ کے بارے میں شکوک پھیلنے لگے تو اس حدیث کی یہ انوکھی تفسیر نشر کی گئی کہ عمار (رض) کو علی (کرم الله وجہہ) جنگ میں لاۓ، وہی قاتل ہیں_ حضرت علی (کرم الله وجہہ) نے تبصرہ کیا کہ “یہ ایسی ہی بات ہے جیسے یہ کہا جاۓ کہ حضرت حمزہ (رض) کے قاتل رسول اللہ (ص) تھے”_ حضرت حمزہ (رض) کو ہندہ کے غلام نے احد میں شہید کیا اور ہندہ نے انکا جگر چبایا تھا_
اسطرح بغاوتوں سے لڑتے ہوۓ عدالت انسانی اور خدا شناسی کا یہ علمبردار 19 رمضان کی صبح کو ایک خارجی عبد الرحمن ابن ملجم کی تلوار سے زخمی ہو کر 21 رمضان کو مزدوروں جیسی غریبانہ زندگی گزارتے ہوۓ رخصت ہوا اور جنہیں حضرت عثمان (رض) کے ہاتھوں برطرفی کا خوف تھا، بادشاہ بن گۓ!
کربلا سے پہلے اور بعد:-
احضرت معاویہ نے جمعہ کے خطبات میں حضرت علی(کرم الله وجہہ) پر سب و شتم کرنے کا حکم دیا اور رسول اللہ(ص) کے قریبی ترین عزیز اور اول المسلمین کو 90 سال تک تمام عالم اسلام حتی کہ مسجد نبوی میں گالیاں دی جاتی رہیں_ یہ سلسلہ حضرت عمر بن عبدالعزیز(رض) کے زمانے تک جاری رہا_ اس جعلی اسلام کے جرائم میں امت میں تفرقہ، حضرت امام حسن(ع)، حضرت امام حسین(ع)، حضرت عمار یاسر (رض)، حضرت محمد ابن ابو بکر (رض)، حضرت حجر بن عدی(رض)، حضرت میثم تمار(رض) جیسوں کا قتل، جنازے اور تدفین کی بجاۓ حضرت محمد ابن ابو بکر (رض) کی نعش کو نذر آتش کرنا، واقعہ کربلا میں 72 بہترین لوگوں کی شہادت جبکہ اس سے دس دن پہلے حضرت مسلم بن عقیل (رض) اور حضرت ہانی (رض) کا سر یزید کی طرف بھیجا گیا تھا،
شمر کو آذربائیجان کا گورنر لگانا، جس نے دن دیہاڑے، ہزاروں گواہوں کے سامنے امام حسین کو ذبح کیا، کربلا کے بعد مدینہ پر فوج چڑھانا جس کے نتیجے میں وہاں کی ہزار کے لگ بھگ عورتیں زنا سے حاملہ ہوئیں، پتھراؤ کر کے دو بار کعبہ کو گرانا، خلیفہ ولید بن یزید بن عبدالملک بن مروان ابن حکم کا کعبہ کی چھت پر شراب پینا، سرکاری خزانے کی لوٹ مار، جعلی اور مضحکہ خیز حدیثوں کی رسول اللہ (ص) کے نام پر اشاعت شامل ہیں_بقول اقبال:-
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
Post by Muslim Unity.
Comments
Latest Comments
اسلام کا چہرہ مسلم یونیٹی کیطرح مؤرخوں نے مسخ کیا ہے۔ قاتل بھی رضی اللہ اور مقتول بھی رضی اللہ! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
اسلام کا بیڑہ غرق بنو امیہ اور بنو عباس دونوں نے کیا اور ابتدا ابوسفیان اور انکے بیٹے معاویہ نے کیا لیکن بدقسمتی سے آج معاویہ لعین کو بھی رضی اللہ کہا جا رہا ہے۔ جنہوں نے درجنوں نے درجنوں صحابہ کا قتل کیا ہے۔ بس یہی اختلافات اور بگاڑ کی جڑ ہے۔ یہ منافقت ختم ہونا چاہئے۔ خالد بن ولید کو سیف اللہ کہنا اسلام کی توہین ہے۔ ابن ولید اسلئے سیف اللہ اسکے تلوار سے حضرت حمزہ شہید ہوئے تھے۔ ابن ولید کو سیف الاسلام کا لقب دینے والی آنحضرت کو کیا جواب دینگے جسکے چچا اور اسلام کے ستون سید شہدا امیر حمزہ شہید ہوئے تھے؟